Home

۷۸۶
حیات غوث العالم
محبوبِ یزدانی سلطان سیّد اشرف جہانگیر سمنانی
قُدّسَ سِرّہ النُّورانی
اَز
سیّد موصوف اشرف الاشرفی الجیلانی رحمتہ اللّٰه علیہ
بسکھاری شریف ضلع امبیڈ کر نگر یو۔ پی

اظہار

میں اپنی ان کاوشوں کو اپنے والد گرامی سید محمود اشرف الاشرفی جیلانی رحمۃ اللّٰه علیہ ابن حضرت سید شاہ محمد فاضل اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللّٰه علیہ ابن حضرت سید شاہ خلیل اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اللّٰه علیہ برادر حقیقی حضرت سید شاہ حسین اشرف الاشرفی الجیلانی سجادہ نشین آستانۂ عالیہ رحمۃ اللّٰه علیہ اور اپنی والدہ کے نام معنون کرتا ہوں.
اللّٰه رب العزت سے دعا ہے کی اپنے حبیب ﷺ کے صدقے ہمارے والدین پر رحمت فرمائے، ان کی مغفرت و بخشش فرمائےـ
!!!آمین

سید مجید الدین اشرف 

پیشِ لفظ

حضرت غوثُ العالَم محبوبِ یزدانی سُلطان مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قُدّس سرّہٗ النورانی رحمتہ اللّٰه علیہ سلسلۂ چشتیہ بہشتیہ کے مشہور ومعروف بزرگ ہیں، آپ کی ذاتِ بابرکات مجموعۂ کمالات تھی، ایک جیّد عالم ، پائے کے محقّق وبلند مرتبہ صوفی اور صاحبِ کشف وکرامات بزرگ تھے۔

آپ کی حیاتِ طیّبہ پر سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں، متقدّمین میں شیخ عبدالرحمٰن چشتی رحمتہ اللّٰه علیہ نے اپنی کتاب ”مرأۃ الاسرار“ میں و حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمتہ اللّٰه علیہ نے ”اخبار الاخیار“ میں اور حضرت مولانا وجیہہ الدین لکھنوی رحمتہ اللّٰه علیہ نے اپنی تصنیف ”بحر ذخّار“ میں حضرت غوث العالم کا تذکرہ لکھا ہے،ان اکابر تذکرہ نگاروں کا شمار حضرت غوث العالم کے اوّلین تذکرہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

متأخرین میں حضرت شیخ المشائخ مولانا الحاج ابو احمد سید محمد علی حسین اشرفی میاں رحمتہ اللّٰه علیہ نے ”صحائف اشرفی“ حضرت محدّث اعظم کچھوچھوی رحمتہ اللّٰه علیہ نے ”حیات غوث العالم“ سید صباح الدین عبدالرحمٰن نے ”بزمِ صوفیہ“ مطبوعہ دارالمصنفین اعظم گڈھ ،ڈاکٹر سید وحید اشرف کچھوچھوی استاد شعبۂ اردو وفارسی مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی بڑودہ نے ” حیات سیّد اشرف جہانگیر “ حضرت مولانا سید اشرف قدیر نے ”ذکرِ اشرف“ مولوی اعجاز احمد صاحب کھیتا سرائے نے ”مناقب اشرفیہ“ حضرت مولانا سید نعیم اشرف صاحب قبلہ جائس نے ”محبوبِ یزدانی“ سید عبدالباری صاحب نے ”اشرف جہانگیر“ سید شمیم اشرف صاحب نے ”اشرف السمنانی“ تحریر فرمائی، اور اس کے علاوہ آپ پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، اگر چہ ان ساری کتابوں کا موضوع ایک ذاتِ گرامی ہے لیکن “ہر گُل را رنگ وبوئے دیگر اسْت“ کے مصداق ہر کتاب الگ رنگ وخصوصیت کی حامل ہے، مگر اِس حقیقت پر سب کو اتفاق ہے کہ آپ کی سوانح کا اصل ماخذ وسرچشمہ ”لطائف اشرفی“ ومکتوباتِ اشرفی“ ہیں۔
اور ان میں سوانح نگار کو حسب ذیل مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے:۔

(۱ ) ”لطائف اشرفی“ میں حضرت کے حالات زندگی بالترتیب نہیں لکھے گئےہیں؛ بلکہ چند لطائف کے علاوہ جو آپ کے حالات زندگی سے متعلق ہیں مختلف لطائف میں مختلف موضوعات کے تحت ہزاروں صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سا واقعہ کب اور کس سفر میں پیش آیا؟۔

(۲) ابتدائی حالات زندگی ”لطائف اشرفی“ میں نہیں ملتے ؛ بلکہ ابتدائی حالاتِ زندگی کا علم ”مکتوباتِ اشرفی“ سے ہوتا ہے۔

(۳) ”لطائف اشرفی“ ”مکتوباتِ اشرفی“ کی اصل عبارت میں مُرورِ ایّام یا (قلمی)نقل درنقل ہونے کی وجہ سے قصداً یا سہواً جو تغیر وتبدیلی واقع ہوئی ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کی سوانح میں مندرجہ ذیل باتیں آج بھی اختلافی ہیں:۔
 
 (۱)

تاریخِ پیدائش ووفات۔

(۲)

 تعمیر روضۂ مقدّسہ کی ابتداء پہلے سفر میں ہوئی یا دوسرے سفر میں؟

(۳) 

”باب رتن“ (جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک ہندوستانی صحابی رسول ﷺ ہیں) ان سے آپ کی ملاقات ہوئی یا نہیں ہوئی؟
(۴) 

حضرت شیخ شرف الدین یحیٰ منیری رحمتہ اللّٰه علیہ کی نماز جنازہ پہلے سفر میں پڑھائی یا دوسرے سفر میں؟
(۵)

 حالات وواقعات کی صحیح ترتیب میں۔

اس کے علاوہ کچھ اختلاف تو محض تذکرہ نگاروں کے ماخذکی غلطی کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً: کمال پنڈت کی شخصیت کے بارے میں ۔
تاریخ پیدائش ووفات پر تو اکثر تذکرہ نگاروں نے بحث وتحقیق کی ہے، لیکن آپ کی سوانح پر پہلی تحقیقی کتاب برادر گرامی ڈاکٹر سیّد وحید اشرف کچھوچھوی نے ”حیات سیّد اشرف جہانگیر“ کے نام سے لکھی اور اس کے علاوہ ”لطائف اشرفی“ اور اس سلسلے میں اور دوسرے موضوعات پر تحقیقی مضامین بھی لکھے، جو ہندوستان کے معیاری رسالوں میں شائع ہوئے۔ مجھے اس کتاب سے بڑی مدد ملی، اور اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب جب میں حضرت کی حیاتِ طیّبہ لکھنے کا ارادہ کیا، میں نے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔

بِلاشبہ اردو زبان میں حضرت غوث العالَم پر بہت کتابیں لکھی جا چکی ہیں؛ لیکن ان میں اکثر وبیشتر کتابیں صرف کچھ حالات وواقعات اور کشف وکرامات کے تذکروں تک محدود ہیں، آپ کی خدمات، تعلیمات، تبلیغ اسلام حد یہ کہ ان میں آپ کے علم اورروحانیت پر بھی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔

ان میں بعض کتابیں ایک خاص مقصد کے تحت لکھی گئی ہیں، اور ان میں کسی خاص پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے؛ لیکن اس وحدت میں بھی کثرت کے جلوے نمایاں ہیں، اور ان کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ان کے علاوہ چند گرانقدر کتابیں بھی ہیں جو معیاری ، ادبی، معلومامتی اور مفید ہیں، جن میں پورے شرح وبسط کے ساتھ ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے؛ لیکن یہ کتابیں اہلِ علم حضرات کے لیے ہیں ان کی حیثیت عوامی نہیںہے، میں نے ان سبھی کتابوں سے استفادہ کیا ہے، وقت کے تقاضے کے تحت حضرت غوث العالم کی حیات وخدمات پر کسی ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو جامع ومانع اور مستند ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم اور آسان اسلوب میں ہو تاکہ اس سے عوام وخواص یکساں مستفید ہوسکیں۔

میں نے اپنی اس کتاب ” حیات غوث العالم محبوبِ یزدانی سلطان سید اشرف اشرف جہانگیر سمنانی “ کے ذریعہ اس عوامی ضرورت کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور تحقیق وتفتیش سے قصداً گریز کیا ہے، اس لیے کہ یہ بات عوامی مزاج کے خلاف ہے ، اب اس بات کا فیصلہ کہ میں اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہواہوں، اپنی کم علمی اور ادبی بے بضاعتی کے اعتراف کے ساتھ کتاب کے ناظرین پر چھوڑتا ہوں ”گر قبول اُفتد زہے نصیب“

 

سید موصوف اشرف الاشرفی الجیلانی

 

مصنف کے حالات زندگی

حضرت مولانا محمد حسین خانصاحَبْ اشرفی مقیم حال دوحَہ – قطر

خاندان

”خانوادۂ اشرفیہ“ اپنی چھ سو سالہ تاریخ کے کسی دور میں عقیم نہیں رہاہے؛ بلکہ ہمیشہ اس کی آغوش میں ایسی شخصیتیں جنم لیتی رہیں جنھوں نے علم وفضل، تقویٰ ودیانت، فکروفن، تصنیف وتالیف، اور اصلاح وتربیت کے میدان میں وہ گرانقدر اور عظیم الشان کارنامے انجام دئے ہیں جن کے تشکّر وامتنان سے ہزاروں زبانیں تراور جن کے احترام کے لیے ہزاروں سینے معمور ہیں، اور کوئی عظیم سے عظیم تر علمی وفکری طاقت اور بڑے سے بڑا انقلاب بھی ان مذہبی اکابر اور دینی پیشواؤں کی کی عقیدت کے پرچموں کو سرنگوں نہ کرسکا۔
غوث العالم حضرت مخدوم سلطان سیّد اشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللّٰه علیہ کی فیض روحانیت کے بدولت اس عظیم خانوادہ کی ہمیشہ یہ خصوصیت رہی ہے کہ یہاں اچھے مصنفین، دقّاق ودانشور مفکرین، صاحب طرز ادباء، شعلہ بیان خطباء، خوش فکر وخو ش طبع شعراء ، بڑے بڑے ماہرین علوم جدیدہ اور عظیم روحانی پیشواءتقریباً ہردور میں موجود رہے ہیں؛ اس لیے بجا طور پر ہم کہہ سکتے ہیں ؎

 

پک چراغیست د ر ایں خانہ کہ از پر تو او

 

ہرکجا می نگری انجمنے ساختہ اند

خانوادۂ اشرفیہ کے متأخرین اصحابِ علم ودانش، آدابِ قرطاس وقلم سے آشنااور تصنیف وتالیف کی زلف برہم کی مثالگی کرنے والے تابندہ نقوش کی صف میں حضرت مولانا سید موصوف اشرف صاحب قبلہ کا بھی شمار ہوتا ہے، بلاشبہ اس خاندان میں موجودہ دور کے اصحاب قلم حضرات کے زمرہ میں آپ کی حیثیت ایک ایک اچھے مصنف م بہترین خطیب اور تجربہ کارمدرس کی ہے۔
آپ کا تعلق حضرت سید شاہ یحیٰ اشرف سجادہ نشیں رحمتہ اللّٰه علیہ کی شاخ سے ہے، اور آپ کا شجرۂ نسب سولہ واسطوں سے سید السالکین، غوثِ زماں، عارفِ ربّانی حضرت محبوبِ یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللّٰه علیہ سے مل جاتا ہے۔

اَجداد ووالد ماجد

”ایں خانہ ہمہ آفتاب استْ“ کے مانند آپ کے خاندان میں سبھی حضرات اپنے اپنے زمانہ کی اہم شخصیت کے مالک اور عظیم روایات و اعلیٰ قدروں کے حامل تھے، تاہم مجھے جہاں تک معلوم ہواہے کہ آپ کے پردادا حضرت سید شاہ حمایت اشرف رحمتہ اللّٰه علیہ کوفارسی اوراردو زبان پر کامل دَسترس حاصل تھا، جس کا ثبوت دونوں زبانوں میں ان کی تصانیف ہیں، زبان فارسی میں آپ کی تصنیف ” عمدۃ الصحائف“ اور ”ظرائف شگرفیہ“ ہے، متأخر الذکر کتاب میں خاندان اشرفیہ کے عمائدین بالخصوص سجادہ نشینان آستانۂ عالیہ کے حالات وواقعات بیان کیے گئے ہیں، اسی طرح شعروشاعری کا بھی آپ کو اچھا ذوق تھا، جس کا اثہار آپ کی کتاب ” گلزار اشرفی “اور ”میلاد غریب“ سے ہوتا ہے، اوّل الذکر کتاب میں مخدوم پاک کے حالاتِ زندگی کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر بڑے ہی لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے، جو دوسو سے زیادہ صفحات پر پھیلاہواآپ کا ضخیم دیوان ہے، جب کی ”میلاد غریب“ نعتیہ اشعار پر مشتمل ہے، اسی طرح آپ کے جد بزرگوار حضرت سید شاہ خلیل اشرف رحمتہ اللّٰه علیہ اور اور پدر بزرگوار حضرت سید شاہ محمد فاضل اشرف رحمتہ اللّٰه علیہ بھی بڑے متقی وپرہیزگار اور نیک وصالح بزرگ تھے، جن کی تعریف میں علاقہ کے اکثر افراد رطبُ اللّسان ہیں، آپ کے جد بزرگوار حضرت سید شاہ خلیل اشرف رحمتہ اللّٰه علیہ دینی وجاہت وکمال کے ساتھ ہی قصبۂ بسکھاری کے ایک بڑے متمول زمیندار بھی تھے، اور غرباء پروری وفقراء ومساکین کی امداد ان کا شیوہ تھا، کہتے ہیں کہ قصبۂ بسکھاری کی تقسیم بھی انھیں کے ہاتھوں عمل میںآئی۔ جد بزرگوار کے مانند آپ کے والد گرامی حضرت سید شاہ محمد فاضل اشرف رحمتہ اللّٰه علیہ بھی متعدد دینی خصوصیات کے مالک تھے، جس میں ان کی سنجیدگی، عبادت وریاضت اور زہدوتقویٰ اور جذبۂ دعوت وتبلیغ ضربُ المثل تھی، مجھے معلوم ہوا ہے کہ انھیں کی دعوت الی اللہ کے سبب یہاں کی بہت سی مشرکانہ رسوم اور جاہلانہ بدعتوں کا خاتمہ ہوا، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ صوم وصلوٰۃ کے انتہائی پابند اور ”رَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسْجِدٌ“ کے مصداق تھے، ان کی پابندئ نماز کا یہ حال تھا کہ سفر وحضر کہیں بھی اور کسی حالت میں آپ کی نماز قضا نہ ہوتی تھی، حتّٰی کہ جب آپ کھیت یاکھلیان میں ہوتے تو بھی وحدہٗ لاشریک کی عبادت وریاضت سے کشت زارِ حیات اور گلستانِ روح کو شاداب رکھتے تھے، حضرت مولانا سید موصوف اشرف صاحب کا بیان ہے کہ:۔

 

”فرائض تو کجا میرے خیال میں ان کی نماز تہجد بھی قضا نہیں ہوئی“

ان کی زندگی کا یہ آخری واقعہ اس امر کا آئینہ دار ہے، جسے خود مولانا نے بیان فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:۔

”والد صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ رات کے تہائی حصہ میں بیدار ہوجاتے اور ضروریات سے فارغ ہوکر وضو کرکے خود اپنے ہاتھ سے چائے بناکر پیتے، نماز تہجد ادا کرتے اور پھر اوراد واذکار میں مشغول ہوجاتےتھے، یہاں تک کہ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد نماز اشراق وچاشت پڑھ کر ہی مصلّے سے اٹھتے تھے، اور یہی ان کا ہمیشہ کا معمول تھا، زندگی کے آخری ایّام میں جب ضعف ونقاہت بہت زیادہ بڑھ گئی اور میں نے دیکھا کہ والد صاحب کو اس سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے تو اس وقت کے ایک بڑے عالم کی زبانی میں نے کہلوایا کہ ”نماز تہجد فرض نہیں ہے آپ ترک کردیں چونکہ سحر خیزی سے از حد تکلیف ہوتی ہے“ والد گرامی نے عالم صاحب کی بات کو مسکراکر ٹال دیا اور بڑاہی حسین جواب دیا، فرمایا کہ ”محترم! جس چیز کو میں نے زندگی بھر عزیز رکھا ہو اب عمر کے آخری لمحات میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں“ پھر آپ کا یہ عمل عمر کے آخری ایّا م تک جاری رہا، یہاں تک کہ ۱۱/ اپریل ۱۹۷۴؁ء کو پچاسی سال کی عمر میں جان جانِ آفریں کے حوالے کردی“۔

 

دنیا سے تو جاتا ہے مگر ذکر تیرا ہے

 

تابندہ تیری خاک سے سجدوں کے نشاں ہیں

ولادت وطفولیت

بسکھاری شریف کے مشہور ومردم خیز قصبہ میں ۳۱/ جنوری ۱۹۳۹میں آپ کی پیدائش ہوئی، یہی تاریخ بسکھاری مکتب میں درج رجسٹر ہے، گو کہ عربی اسناد کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۲۲/ مئی ۱۹۴۰ ہے۔
مولاناکا بچپن گھر کے بڑے خوشگوار ماحول میں گذرا، تعلیم کی طرف بچپن سے فطری رجحان تھا، خاندان کی تہذیبی وثقافتی روایات نے آپ کے ذہن پر بڑے گہرے اور دور بین اثرات چھوڑے، جس کی وجہ سے آپ کی طفولیت اچھے علمی وتہذیبی اور اخلاقی ماحول میں پروان چڑھی، اور بچپن ہی میں تعلیم کا اچھا شعور پیدا ہوگیا۔

ابتدائی تعلیم

آپ کی ابتدائی تعلیم بسکھاری مکتب میں ہوئی، اور مکتب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے ضلع فیض آباد ہی کے مشہور قصبہ جلالپور کے ایک اہم مدرسہ میں عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں اور وہیں شرح جامی تک تعلیم مکمل کی، اس دوران آپ اپنی جماعت میں امتیازی شان کے مالک تھے، اور آپ کی علمی صلاحیتوں کی وجہ سے اکثر طلباء آپ کا احترام کرتے تھے۔

اعلیٰ تعلیم اور اہم اَساتذہ

اس کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اہلسنت والجماعت کی عظیم دینی درسگاہ ”دارلعلوم اشرفیہ“مبارکپور اعظم گڈھ کا قصد کیا، جو اپنے آغوش میں علوم وفنون کا سرچشمہ اور تحقیق وتدقیق کا بحرِ ناپیدا کنار لیے ہوئے تشنگانِ علوم کو سیراب کررہاتھا، آپ بھی اس بحر کی شناوری اور غواصی میں مشغول ہوگئے۔
دارالعلوم اشرفیہ کے روزوشب ، علمی ماحول اور عباقرۃ الزماں اساتذۂ کرام کی صحبت نے آپ کی علمی شعور کو پختگی اور تحقیق وتدقیق ، طلب وجستجو اور مطالعۂ کتب کا اعلیٰ ذوق پیدا کردیا، اشرفیہ کے قیام کے دوران ہی آپ نے الٰہ آباد بورڈ سے عالم ،فاضل وغیرہ کے امتحانات پاس کرکے اسناد حاصل کیں۔
آپ کے اہم اساتذہ میں ہر ایک اپنی ایسی منفرد وممتاز صلاحیت اور عظیم شخصیت کا مالک ہے، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں؛ بلکہ ان کا نام لینا ہی ان کا جامع تعارف ہے، ان حضرات کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔
(۱) محسن قوم وملّت حضرت حافظ ملّت علّامہ عبدالعزیز مرادآبادی رحمتہ اللّٰه علیہ ، (۲) بحرالعلوم حضرت مولانا مفتی عبدالمنان صاحب قبلہ،(۳) محقق کبیر حضرت علّامہ ظفر ادیبی صاحب ،(۴) شیخ المعقولات والمنقولات حضرت حافظ عبدالرؤف صاحب رحمتہ اللّٰه علیہ ، (۵)حضرت مولانا سید حامد اشرف صاحب قبلہ،(۶) حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمتہ اللّٰه علیہ ، (۷)شیخ القراء حضرت مولاناقاری محمد یحیٰ صاحب قبلہ وغیرہم۔

کثرتِ مطالعہ وکتب بینی

مطالعہ اور کتب بینی کےآپ بڑے شیدائی تھے، اور آپ کامطالعہ تعلیم کے بعد بھی برابر جاری رہا، خاص طور پر عصری اسلوب میں اسلامیات کے متعلق جو بھی اہم کتاب مارکیٹ میں آتی آپ اس کا مطالعہ ضرور کرتے تھے۔
آپ کے عہد میں کمیونزم اور اشتراکیت کا بڑا زور تھا، اور لینن وکارل مارکس کے فلسفیانہ طلسماتی نظریات نے نوجوانوں اور بعض دانشوروں کے عقل وخرد کو اس قدر مسحور کیا تھا کہ وہ ایک فلسفۂ اشتراکیت ہی کو دانشوری اور صحیح انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتے تھے، آپ نے وقت کے اس اہم اور زبردست فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اس موضوع پر بہت زیادہ مطالعہ کیا، اور کافی علمی مواد فراہم کرکے بہت سے کمیونسٹ ذہنیت رکھنے والوں کا نہ صرف یہ کہ مقابلہ کیا ؛بلکہ اپنی مجلسی گفتگو اور مباحثوں میں اس کے طلسماتی پردہ کو چاک کرکے اس کی ناپاک وگندی حقیقت کو عیاں کردیا، اور بہتوں کو اپنے سابقہ نظریات بدلنے پر مجبور کردیا، اس طرح آپ نے اسلامیات کا باضابطہ مطالعہ کرکے اس کی حقیقی روح تک پہونچنے کے لیے پوری کوشش کی۔
یہ حقیقت ہے کہ پائدار اور صحیح مطالعہ کے لیے دماغی سکون اور یکسوئی ضروری ہے، یہ صفت مولانا کے اندر پائی جاتی تھی، آپ کی کتب بینی کا بڑا عجیب عالَم تھا، جب آپ کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے تو کھانا، پینا غرضیکہ ہر چیز سے غافل ہوجاتے تھے، آپ کی طالب علمی کا یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ شرح وقایہ جیسی ضخیم کتاب کا مطالعہ آپ ایک نششت میں مکمل کرلیتے تھے۔

بیعت وارادت

بیعت کے لیے آپ کی طبیعت سب سے زیادہ اپنے والد گرامی کی طرف مائل ہوئی، جو سلسلۂ اشرفیہ کے ایک خداترس بزرگ تھے، اور بہت لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوچکے تھے، چنانچہ آپ بھی انھیں کے ہاتھوں پر بیعت ہوکر داخلِ سلسلہ ہوئے، اور اجازت وخلافت سے نوازے گئے، آپ اپنے والد گرامی کے جانشیں بھی ہیں۔

دینی خدمات

تعلیم سے فراغت کے بعد ہی سے آپ مختلف میدانوں میں دینی خدمات اور فریضۂ دعوت وتبلیغ کی ادائیگی میں سرگرم عمل رہے اور ہر طرح دینی خدمت کی انجام دہی کی کوشش کرتے رہے، خاص طورپر اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے آپ نے درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور وعظ وتقریر کے طریقوں کو اپنایا جن کی قدرے تفصیل درج ذیل ہے۔

دَرس وتدریس

آپ نے مسند تدریس کو ایک زمانے تک زینت بخشی، اور جس ادارہ میں بھی رہےوہاں کی تعلیمی حالت سدھار کر مدرسہ کوکافی فروغ دیا، دارالعلوم اشرفیہ سے فراغت کے بعد ۱۹۶۰؁ء میں جامعہ عربیہ جہانگیر گنج فیض آباد میں بحیثیت صدرالمدرسین آپ کی تقرری ہوئی، اور آپ نے وہاں بڑی جانفشانی سے تعلیم دینا شروع کردیا، آپ کی ان مخلصانہ کوششوں کے بدولت چند ہی دنوں میں مدرسہ کا تعلیمی معیار انتہائی اعلیٰ ہوگیا اور پانچ سال تک آپ اپنی شب وروز کی مسلسل خدمات سے مدرسے کو فروغ دیتے رہے، یہاں تک کہ ۱۹۶۵؁ء میں ارکانِ مدرسہ کی جانب سے کچھ خلافِ طبع باتیں سرزد ہوجانے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر وہاں سے چلے آئے۔
تعلیمی وتدریسی سفر کی اس مختصر سی مدت میں اپنی تدریسی محنتوں اور کاوشوں کی وجہ سے آپ نے کافی شہرت حاصل کرلی تھی، اس لیے جیسے ہی آپ نے مدرسہ عربیہ جہانگیر گنج میں اپنا استعفیٰ پیش کیا، اس کے فوراً ہی بعد کئی مدرسوں سے آپ کے لیے دعوت نامے آگئے؛ لیکن ان تمام مدارس میں آپ نے مدرسہ ضیاء العلوم پراناگورکھپور کو وہاں کے اراکین ے پیہم اصرار پر ترجیح دیا، اور ۱۹۶۵ میں صدرالمدرسین کی حیثیت سے مدرسہ کا انتظام واہتمام سنبھال لیا، اور چند ہی دنوں میں وہاں کی تعلیمی اصلاح فرماکر اس ادارہ کو فروغ دیا، جس کے باعث جلد ہی آپ وہاں کے ہردل عزیز ہوگئے، اور بڑی کامیابی کے ساتھ ۱۹۷۲ تک مدرسہ کو ترقی دیتے رہے، اس کے بعد خطیب الاسلام پیر طریقت الحاج حضرت مولانا سید کمیل اشرف صاحب قبلہ جانشین حضور مخدوم ثانی دام ظلہ النورانی، کے زور دینے اور اور کچھ گھریلو مصروفیات کے باعث آپ نے وہاں استعفیٰ پیش کرکے اور وہاں کی عوام کو دل شکستہ واشکبار چھوڑ کر اپنے ہی قصبہ بسکھاری میں جانشین حضور مخدوم ثانی کے زیر اہتمام چلنے والے مدرسہ دارالعلوم محبوبِ یزدانی کا انتظام سنبھال لیا، اور اسے بے پناہ ترقی دی۔ دارالعلوم محبوب یزدانی آپ کی آمد کے وقت ایک ایسے مکتب کی شکل میں تھا جس میں صرف چند طلباء وطالبات زیر درس تھیں، لیکن تا ہنوز اس کا کوئی مستقل وجود نہ تھا، کبھی کسی درخت کے نیچے تعلیم ہوتی تھی تو کبھی چھپر تلے، حتّٰی کہ مدتوں تک حضرت جانشین مخدوم ثانی دام ظلہ النورانی کے گھر میں تعلیم ہوتی رہی، لیکن رفتہ رفتہ حضور مخدوم ثانی رحمتہ اللّٰه علیہ کی دعاؤں ، حضرت جانشین مخدوم ثانی کی دینی تڑپ اور مخلصانہ کوششوں اور حضرت مولانا سید موصوف اشرف صاحب قبلہ کی جہد مسلسل وسعی پیہم نے اس چھوٹے سے مکتب کو ثری کی پستیوں سے ثریا کی رفعتوں تک پہونچادیا، اور اب خدا کا شکر ہے کہ دارالعلوم محبوب یزدانی صرف مکتب ہی نہیں رہ گیا؛ بلکہ وہ فکروفن، علم وآگہی، شعور ودانش، تحقیق وتدقیق، تصنیف وتالیف غرضیکہ ہراسلوب اور ہرمیدان میں دینی خدمات کا ایک عظیم ومنفرد ادارہ بن چکاہے۔ یہانتک کہ مکتب کایہ عالم ہے کہ یہ اس علاقے کا سب سے بڑا مکتب ہے، جس میں چھ سو طلباء وطالبات زیرِ درس ہیں۔
اس کے علاوہ علماء وحفاظ اور قراء کی ایک زبردست ٹیم، عربی وفارسی اور حفظ وقرأت کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں، حضرت جانشین مخدوم ثانی اس کی سرپرستی واہتمام اور حضرت مولانا سید موصوف صاحب قبلہ اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، اور ان کا حال تو یہ ہے کہ مدرسہ ہی آپ کی ساری مصروفیات ومشغولیات کا مرکز ہے، اور انھیں ہر وقت مدرسہ کی تعمیر وترقی کی ہی فکر دامن گیر رہتی ہے۔

تصنیف وتالیف

تصنیف وتالیف کا ذوق آپ کو زمانۂ طالب علمی ہی سے تھا، چنانچہ آپ نے متعدد واہم قیمتی مقالات لکھے، جو شائع ہوکر اہل علم کے حلقوں میں کافی مقبول ہوئے، انھیں میں سے دو مقالات سوانح نگاری کے سلسلے میں بڑے پُر مغز تھے، جو پمفلٹ کی شکل میں شائع ہوئے، جن میں ایک مقالہ وہ تھا جو آپ نے مشہور تاریخی قصبی جائس کے خاندان سادات وسلسلۂ اشرفیہ کے ایک مشہور بزرگ سید شاہ جلال اشرف سجادہ نشین آستانۂ عالیہ اشرفیہ رحمتہ اللّٰه علیہ جائس کی سوانح عمری ”مجذوب کامل“ کے عنوان سے تحریر فرمائی تھی، اور دوسرا مقالہ وہ ہے جو آپ نے بسکھاری کی خاندان سادات کی مشہور ولیہ حضرت سیدہ میمونہ والدہ جانشین حضور مخدوم ثانی حضرت مولانا سید شاہ کمیل اشرف صاحب الاشرفی الجیلانی رحمتہ اللّٰه علیہ کے انتقال پُرملال پر ان کی پاکیزہ ومثالی زندگی اور ان کے تقویٰ وطہارت سے متأثر ہو کر ”میمونہ بی بی“ کے عنوان سے تصنیف فرمایا تھا؛ لیکن تاحال کسی مستقل تصنیف کی طرف آپ کی توجہ نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہی تھا، مگر آج سے دو سال قبل آپ کے ساتھ ایک ایسا زبردست حادثہ پیش آیا جس نے آپ کے جسم وجان کے ساتھ ہی ساتھ آپ کے علم وفکر اور ذہن ودماغ کی چولیں بھی ہلادیں، اور آپ کی زندگی میں ایک نمایاں انقلاب برپاکرکے آپ کو مستقل طور پر تصنیف وتالیف کی جانب متوجہ کردیا۔
۱۹/ اپریل ۱۹۹۲؁ء کو آپ بمبئی سے گھر آرہے تھے کہ راستے میں آپ کے بدن میں آکسیجن کی کمی کے باعث آپ کی طبیعت سخت خراب ہوگئی، اور کسی بھی طرح بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہ گئی ؛ لیکن ربّ کریم کی عنایتوں سے آپ کو دوبارہ صحت وسلامتی اور نئی زندگی ملی، پھر آپ نے اس حادثہ سے دوچار ہوکر یہ احساس کیا کہ میں نے اپنی تریپن سالہ زندگی صرف درس وتدریس اور خطابت وتقریر میں گذاردی؛ لیکن اب تک کوئی ایسا مستحکم ومستقل تصنیفی کام نہیں کیا جس سے دنیا کے سامنے ہماراکوئی علمی کارنامہ آسکے، اور اس کے بدولت خادمین دین کی ان نفوس قدسیہ کی فہرست میں میرابھی نام آسکے، جنھوں نے دینِ حنیف کی نشرواشاعت کے لیے اپنی قلمی توانائیاں اور تصنیفی سرگرمیاں وقف کردیں، یہی وہ احساس تھا جس نے آپ کے دل میں مستقبل میں بہت کچھ کرنے کا عزم وحوصلہ پیدا کردیا۔
آپ نے مستقل تصنیفی سفر کا آغاز مشہور صوفی بزرگ غوث العالم حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللّٰه علیہ کی سوانح حیات سے کیا اور ”حیات غوث العالم“ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی، جو آپ حضرات کے ہاتھوں میں ہے، اس کتاب کی تصنیف کے بعد آپ کا یہ تصنیفی سلسلہ جاری ہے، اور” خطباتِ ہند “کے نام سے آپ کی تقاریر کا مجموعہ زیرِ طبع ہے، اور ”تاریخ خانوادۂ اشرفیہ “ زیر ترتیب ہے، جس میں اس مقدس خانوادہ کی جملہ عبقری شخصیات کی حیات وخدمات پراجمالی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور اس کے بعد مزید تصنیفی کام کو آگے بڑھانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

وعظ وتقریر

اچھے مدرّس اور بہترین مصنّف اور باکمال عالمِ دین ہونے کے ساتھ ہی ساتھ آپ ایک بلند پایۂ خطیب بھی ہیں، عہد شباب میں آپ کی تقریروں نے ایک دھوم مچادی تھی، اور ہر اسٹیج سے آپ کے لیے صدائے تحسین وآفریں ہی بلند ہوتی تھی، اور کسی جلسہ میں آپ کی شرکت اس کی کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی، آپ کی تقریریں اپنی چند نمایاں صفات وخصوصیات کی وجہ سے دیگر مروّجہ تقریروں سے ممتاز ہیں، ان تقریروں کی جو بنیادی خصوصیات ہیں وہ یہ ہیں کہ ان میں مواد کی فراہمی، نکتہ آفرینی، قرآن وحدیث سے استدلال، اور علمی واصلاحی وتربیتی اسلوبِ بیان اپنایا گیاہے، حقیت تو یہ ہے کہ عوام کی واہ واہ اور لوگوں کی آہ آہ سے بے نیاز ہوکر آپ نے تاریخِ اسلام، سیرتِ رسول، تمدنِ اسلام اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کو اپنی تقاریر میں سموکر اسلام کے آفاقی پیغام کو عام کرنے اور اسے لوگوں تک پہونچانے کی کوشش کیا ہے، اور اس میدان میں بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئے ہیں، چونکہ موجودہ وقت میں غلبۂ امراض کے باعث آپ نے تقریر کرنا تقریباً چھوڑ دیا ہے، اس لیے آپ کی تقریروں کا مجموعہ ”خطباتِ ہند “ کے نام سے جلد ہی منظرِ عام پر آنے والاہے۔

سَعادتِ حج وزیارت

آپ درس وتدریس میں مصروف تھے کہ آپ کے دل میں شوق حجاز انگڑائیاںلینے لگا اور آپ نے زیارتِ حرمین شریفین کاقصد کیا، اللہ نے اس نیک مقصد کے لیے وسائل پیدا فرمادیا، اور ۱۹۸۵ میں آپ حج وزیارت کی سعادت سے مشرف ہوئے۔

مزَاجی خُصوصیَّات

آپ متعدد ایسی صفات وخصوصیات کے مالک ہیں جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں، اور جن کی وجہ سے آپ کی شخصیت دیگر لوگوں میں ممتاز نظر آتی ہے۔
آپ کی چند خصوصیات یہ ہیں کہ آپ اصول وقوانین کے انتہائی پابند ، راسْت بازی ودیانت داری آپ کا شیوہ، ہر کام میں اخلاص اور صبر وتحمل کی بے پناہ قوت، جذبۂ انتقام سے بہت دور، اعلیٰ ظرفی، خوش طبعی، نکتہ آفرینی و شگفتہ مزاجی وغیرہ آپ کی چند نمایاں خصوصیات ہیں۔
اصول وقوانین کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ آپ کے اندر اس کے برتنے میں کچھ بھی نرمی اور لچک نہیں پائی جاتی ہے، اور نا ہی آپ اس معاملے میں کسی طرح کی کوئی مداہنت پسند کرتے ہیں؛ بلکہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ قانون کی زد میں اگر آپ کا بیٹا بھی آ گیا ہے تو اس کے لیے بھی وہی موقف اپنایا ہے جو دیگر لوگوں کے لیے ہے؛ بلکہ بسااوقات اس سے بھی سخت ترین موقف دیکھنے میں آیا ، اسی طرح آپ کے اندر صبروتحمل کی بھی بے پناہ قوت موجود ہے، جس کی وجہ سےآپ کو کبھی سخت سے سخت بات پر بھی طیش نہیں آیا، اور نہ ہی کسی سے اپنے ذاتی معاملات کا انتقام لیتے ہیں، یقیناً یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی اور وسیع النظری کا بیّن ثبوت ہے۔
آپ کی خوش طبعی اور شگفتہ مزاجی کا عالم یہ ہے کہ دارالعلوم کے جملہ اساتذہ آپ کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھ کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے رفقاء کی مجلس میں بیٹھے ہیں، بسااوقات ہم لوگ آپ کے دلچسپ قصوں، طنزومزاح کی باتوں، نکتہ آفرینیوں اور فنون لطیفہ اور دقیقہ سنجیوں سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں، اور بے اختیار ہنسی وقہقہہ کی مجلسیں گرم ہوجاتی ہیں، گویا آپ بچوں میں بچے اور بڑے لوگوں میں بڑوں کی طرح رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمیشہ متانت وسنجیدگی ، فرقِ مراتب اور وقار کا پہلو ملحوظ رہتا ہے۔
یہ سب وہ خصائل ہیں جن کی وجہ سے آپ جہاں کہیں بھی رہے ہر دلعزیز رہے، اور اس وقت بھی دارالعلوم محبوب یزدانی کے سارے اساتذہ آپ کو اپنا مشفق ومہربان اور مونس وغمخوار سمجھتے ہیں۔ ربّ قدیر انھیں ادارہ کی نظامت کے لیے حیات خضر عطافرمائے۔

 

آمین بجاہ حبیبہ سید المُرسلین

 

محمد حسین خاں اشرفی

 

دارالعلوم محبوبِ یزدانی

 

بَسکھاری شریف۔ ضلع فیض آباد

حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کا اجمالی تعارف

سلسلۂ نسب

حضور سیّد عالم پیشوائے بنی آدم ﷺ
بنتہٗ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللّٰه عنہا
ابنہٗ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللّٰه عنہ
ابنہٗ حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللّٰه عنہ
ابنہٗ حضرت سیدنا امام محمد باقر رضی اللّٰه عنہ
ابنہٗ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰه عنہ
ابنہٗ حضرت سیدنا امام اسمعیل عارج رضی اللّٰه عنہ
ابنہٗ حضرت سیدنا ابوالحسن رضی اللّٰه عنہ
ابنہٗ حضرت سیدنا اسمعیل ثانی رضی اللّٰه عنہ
ابنہٗ حضرت سیدنا ابو موسیٰ علی رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا ابوحمزہ احمد رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا عبداللہ رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا حسین سیف رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا جمال الدین رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا اکمل الدین رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا محمد مہدی رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا علی اکبر بلبل رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا محمد نور بخشی رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا تاج الدین محمد بہلول رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا سلطان ظہیرالدین محمد رحمتہ اللّٰه علیہ

ابنہٗ حضرت سیدنا سلطان نظام الدین علی شیر رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا سلطان عمادالدین رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا ابوالسلاطین سید ابراہیم سمنانی رحمتہ اللّٰه علیہ
ابنہٗ حضرت سیدنا تارک السّلطنت غوث العالم محبوبِ یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی رحمتہ اللّٰه علیہ۔

سِلسلۂ بیعت

غوث العالم محبوبِ یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ علاء الحق والدین گنجِ نبات پنڈوی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ اخی سراج الحق والدین عثمان آئینۂ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللّٰه علیہ

وھو من حضرت شیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللّٰه علیہ

وھو من حضرت سلطان المشائخ خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ خواجہ عثمان ہارونی چشتی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من شیخ حاجی شریف زنجانی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ قطب الدین مودود چشتی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ خواجہ ناصرالدین ابو یوسف چشتی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ خواجہ ابو محمد چشتی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ خواجہ ابو اسحاق شامی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ ممشاد علو دینوری رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ امین الدین ہبیرۃ البصری رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ سید الدین حذیفہ المرعشی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ سلطان ابراہیم ادہم بلخی رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ فضیل بن عیاض رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ خواجہ عبدالواحد بن زید رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من حضرت شیخ خواجہ حسن بصری رحمتہ اللّٰه علیہ
وھو من امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم۔

حیات طیبہ

نام

حضرت غوث العالم محبوبِ یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی رحمتہ اللّٰه علیہ کااسم مبارک سید محمد اشرف یا سیّد اوحدالدین اشرف تخلص اشرف تھا ، اور سید اشرف کے نام سے مشہور ہوئے۔

والد گرامی

آپ کے والد کا اسم گرامی حضرت سلطان سید ابراہیم تھا جو سمنان کے تاجدار تھے ، اپنے والدگرامی سلطان سید عمادالدین کی وفات کے بعد تخت نشیں ہوئے، اور علاؤ الدولہ برمکی کو اپنا وزیر بنایا۔
آپ بڑے متقی وپرہیزگار، نیک دل، بااخلاق، خدا رسیدہبزرگ تھے ، اور سلوک ومشاہدات کی ساری منزلیں طے کرکے روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اور علم وفضل میں بھی ایک بلند مقام رکھتے تھے، چنانچہ حضرت غوث العالم نے اپنے ایک خط میں اپنے والد گرامی کا ذکر اس انداز سے فرمایا ہے:۔
”حضرت ابوی صاحب التاج والادرنگ وواہب الدواج والنیرنگ جامع العلوم الصوری والمعنوی ساطع الہموم المرتضوی والمصطفوی سیّد ابراہیم قدس سرہ۔“
ترجمہ: حضرت والد گرامی تاجدار، بلند مرتبہ بزرگ، قبا اور عجائبات عطا فرمانے والے علوم ظاہری وباطنی کے جامع ، نبی وعلی کے ارادوں کو جِلا بخشنے والے سید ابراہیم قدس سرہ۔
بہت سے طالبانِ راہِ معرفت وسلوک آپ کے زیر تربیت منزلِ مقصود تک پہونچے۔
خوارزم میں ایک شخص کو علوم ظاہری کے تحصیل کے بعد معرفت الٰہی کا اشتیاق ہوا اور راہِ سلوک میں رہنمائی حاصل کرنا چاہی ، حضرت خضر علیہ السلام نے اسے بشارت دی کہ سیّد ابراہیم کا دامن پکڑ لو جو رؤسائے نور بخشیہ میں ہیں، وہ آپ کی ارادت میں آکر سلوک میں شامل ہوا اور منزل مقصود تک پہونچا۔
آپ کے عہد حکومت میں سمنان نے بڑی ترقی کی، اور عام طور پر رعایا بڑی خوشحا ل تھی، اور ہر طرف امن وامان دور دورہ تھا، آپ نے علوم دینی پر خصوصی توجہ دی، آپ کے عہد حکومت میں بارہ ہزار طلباء علوم وفنون میں کامل وفاضل ہوکر نکلے اور بہت سی تصانیف آپ کے نام معنون ہوتیں، یہ صوفی مزاج اور علم دوست سلطان علماء ، فضلاء ، فقراء ومشائخ کے بھی بڑے عقیدتمند تھے۔

حضرت شیخ علاؤ الدولہ سمنانی رحمتہ اللّٰه علیہ

شیخ علاؤ الدین سمنانی سلطان سید ابراہیم کے معاصر اور نہایت محبوب تھے، اور سلوک میں غوث العالم محبوبِ یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النوارنی کے پہلے استاذ تھے، سمنان کی مشہور خانقاہ سکاکیہ سلطان سید ابراہیم نے انھیں کے لیے تعمیر کرائی جس کو سولہ سال تک شیخ رکن الدین علاؤالدولہ سمنانی نے آباد رکھا، اس خانقاہ میں ہمہ وقت ہزاروں طالبان معرفت کا ہجوم رہتا تھا، اور بہت سے طالبان راہِ سلوک اس خانقاہ سے تعلیم وتربیت حاصل کرکے روحانیت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔
حضرت شیخ علاؤالدولہ کے زہدوتقویٰ کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دن بادشاہ نے آپ کی خدمت میں ہرن کا گوشت تحفہ میں پیش کیا اور کہا کہ یہ گوشت شکار کا ہے اس کو آپ تناول فرمائیں ، شیخ فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھ کو امیر نوروز کی یہ حکایت یاد آگئی کہ وہ خراسان میں تھا اور میں مشہد کی زیارت کے لیے طوس گیا تھا، وہ پچاس سوار کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہاکہ جب تک آپ خراسان میں رہیں میرے ساتھ رہیں، ان کے اصرار پر میں چند روز ساتھ رہا ، وہ ایک دن دو خرگوش لائے اور کہا کہ میں نے خود ان کو شکار کیا ہے، آپ ان کا گوشت تناول فرمائیں ۔ میں نے کہا: ”میں خرگوش کا گوشت نہیں کھاتا“ اس لیے کہ بقول حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللّٰه علیہ”خرگوش حرام ہے“ اور جب ایک بزرگ نے اسےحرام سمجھا ہے تو اس کا نہ کھانا ہی بہتر ہے، وہ چلے گئے اور دوسرے دن ایک ہرن کا گوشت لائے اور کہا کہ ”اس کو میںنے خود شکار کیا ہے اور جس تیر سے مارا ہےاس کو میں نے خود بنایا تھا، اور جس گھوڑے پر بیٹھ کر شکار کیا ہے وہ میرے گھر میں پیداہوا تھا“ میں نے جواب دیا کہ ” یہ بات مولانا جمال الدین کی طرح معلوم ہوتی ہے“ کہ ہمدان میں ایک مغل امیر ان کا بڑا معتقد تھا وہ ایک دن دو مرغابیاں لایا اور کہا کہ ” ان کو میرے باز نے پکڑا ہے یہ حلال ہیں“ مولانانے جواب دیا کہ “مرغابی پر اعتراض نہیں مگر سوال یہ ہے کہ تیرے باز نے کل کس بڑھیا کا مرغ کھالیا تھا جس کی بدولت آج اس کو پکڑنے کی طاقت ہوئی، یہ مرغابیاں لے جا میرے کھانے کے قابل نہیں“ شیخ فرماتے ہیں کہ یہ قصہ مجھے یاد آیا اور میں نے اس ہرن کا گوشت نہیں کھایا ؛ لیکن درویشوں کو اس کے کھانے کی اجازت دیدی اس لیے کہ وہ بڑی عقیدت سے لایاتھا۔

حضرت شیخ علاءالدولہ کے علاوہ بہت سے اولیائے کاملین اس وقت سمنان میں موجود تھے، جن میں ایک مجذوب شیخ ابراہیم بھی تھے جن کی بڑی شہرت تھی۔

والدۂ محترمہ

آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نامی حضرت سیدہ خدیجہ تھا، جن کا سلسلۂ نسب بنی سامان کے شاہی خاندان سے ملتا ہے، اور وہ خود حضرت سید احمد یسوی رحمتہ اللّٰه علیہ کی اولاد سے تھیں، نماز کی بڑی پابند تھیں، ان کی نماز تہجد کبھی قضا نہیں ہوتی تھی، اکثر نفل روزے رکھتیں ، تلاوتِ قرآن سے انھیں والہانہ لگاؤ تھا۔

حکوت سِمنانْ

تیسری صدی ہجری سامانی دور کے آغاز میں خاندانِ سامانیہ کے دوسرے بادشاہ احمد بن اسمعیل سامانی کے عہد میں یہ حکومت معرض وجود میں آئی، احمد سامانی خاندانِ سامانیہ کا وہ بادشاہ تھا جس کی حدودِ سلطنت سمرقند، بخارا، فرغانہ، ہرات، ماوراء النہر بلکہ خراسان اور ایران تک پھیلی ہوئی تھی، وہ عدل وانصاف، فضل وکمال، جاہ وجلال اور شان و شوکت میں خلفائے عباسیہ کا ہمسر سمجھا جاتا تھا۔
احمد سامانی نے شیخ محمود کے بیٹے سید تاج الدین نور بخشی کو اپنا وزیر بنایا ، جن کا سلسلۂ نسب چودہ واسطوں سے حضرت مولائے کائنات تک پہنچتا ہے، اور جن کی خاندان سامانیہ سے قرابتداری بھی تھی، اسی قرابتداری کی بنیاد پر اس ریاست کا قیام عمل میں آیا، لیکن اس حکومت کے قیام میں صرف قرابتداری ہی کا دخل نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں بادشاہ کی خاندان نبوت سے عقیدتمندی اور سادات نور بخشیہ کی روحانی پاکیزگی کا بھی بڑا دخل تھا۔
جب بخارا کے تخت کے لیے اسمٰعیل سامانی اور اس کے بھائی محمود سامانی میں تنازعہ ہوا اور جنگ کی نوبت آگئی تو اسمٰعیل کے امراء نے مشورہ دیا کہ محمود سے مصالحت کر لی جائے اس لیے کہ ہماری فوجی طاقت محمود کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس وقت نظام الدین برمکی اس کے وزیر نے مشورہ دیا کہ وقت کے مشہور صوفی بزرگ حضرت سید محمود نور بخشی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے کامیابی کے لیے دعا کی درخواست کی جائے۔ چنانچہ اسمعیل سامانی نے حضرت سیّد محمود نور بخشی کی بارگاہ میں مؤدبانہ حاضر ہوکر عرض مدعا کیا، حضرت نے اس کی کامیابی کے لیے دعا فرمائی اور وہ جنگ میں کامیاب ہوگیا۔
اسمعیل کے بعد اس کا بیٹا احمد سامانی تخت نشیں ہوا، اور اس نے شیخ محمود نور بخشی کےبیٹے سید تاج الدین بہلول نور بخشی کو جنھیں اس نے اپنا وزیر بنالیا تھا عراق اور خراسان کے کچھ حصّے بطور جاگیر عطا کیا اور یہ صوبے اپنے حدود اختیار سے خارج کردئے۔احمد بن اسمٰعیل کے بعد سیّد تاج الدین بہلول نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا، اور اپنے نام سے سکّہ اور خطبہ جاری کیا ، شہر سمنان کو اپنا دارالحکومت بنایا، اور سمنان کے پہلے سلطان ہوئے، اور پچاس سال حکومت کیا، یہ ”قدیم تاریخی شہر سمنان“ ایک معمولی قصبہ کی حیثیت سے حکومتِ ایران کے اندر شہر اصفہان سے دوسو میل دوری پر بحیرۂ کیپین سے تقریباً سو میل شمال میں واقع ہے، اور طول البلد ۵۳/ اور عرض البلد ۳۵/ کے درمیان ہے۔

حدودِ اربعہ

سمنان ؛تہران اور وامغان کے درمیان کوہ البرز کے جنوب میں واقع ہے، شہر کے جنوب میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کا سلسلہ ہے جو پورے شہر کا احاطہ کیے ہوئے ہے، شمال مغرب میں کوہ نیزوا ہے، جس کی بلندی چار ہزار میٹر ہے، اور یہ سمنان کا سب سے اونچا پہاڑ ہے، شمال مشرق میں کوہ ”ابدال پیغمبران“ اور ”زرّیں کوہ“ ہے۔
خاندان نور بخشیہ نے تقریباً چار سو سال سمنان پر حکومت کی ، ان حکمرانوں کو سلطان کہا جاتا تھا، اور بعد میں تیمور کے غلبہ کے بعد اس حکومت کا خاتمہ ہوگیا، سلطان سید ابراہیم اسی خاندان کے پانچوے سلطان ہوئے۔

بشارتِ ولادت

سلطان ابراہیم کو جب تخت وتاج ملا تو ان کی عمر صرف بارہ سال کی تھی، پچیس سال کی عمر میں خدیجہ بیگم سے سلطان کا عقد نکاح ہوا، اور ان سے دو تین لڑکیاں پیدا ہوئیں، جب ایک عرصہ تک کوئی اولادِ نرینہ نہیں ہوئی تو آپ بہت متفکر رہنے لگے، ایک دن سلطان اپنی اہلیہ کے ساتھ نماز فجر کے بعد محل میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک محل میں ابراہیم مجذوب داخل ہوئے ، بی بی خدیجہ اور سلطان ابراہیم دونوں حضرت کو محل کے اندر دیکھ کر حیران رہ گئے، سلطان عقیدت کی بنیاد پر استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے، اور بکمالِ ادب اپنی جگہ بٹھایا اور خود دست بستہ باادب کھڑے ہوگئے، مجذوب کہنے لگے تمہیں بیٹے کی خواہش ہے؟ سلطان بہت خوش ہوئے اور کہا کہ جو عنایت ہو تو مہربانی ہوگی، مجذوب نے کہا میں تمہیں عجوبۂ روزگار دوں گا، لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے، سلطان نے عرض کیا جو حکم ہو، فرمایا: ہزار شاہی اشرفیاں چاہیے، سلطان نے فوراً اشرفیاں منگائیں اور آپ کی نظر کیں،وہ خوش خوش اٹھے اور کہا کہ اے سلطان! تم نے ابراہیم سے بازی کی، اور سودا بہت سستا لیا ، وہ رخصت ہونے لگے تو بادشاہ چند قدم ان کے ہمراہ چلے، مجذوب نے مڑ کر دیکھا اور کہا اب کیا چاہیے؟ ایک بیٹا لے چکے، اچھا ایک اور سہی، اور یہ کہہ کر چلے گئے، چند دنوں بعد محل میں خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔
اس کے علاوہ ایک روایت اور بھی ہے کہ سلطان ابراہیم ایک دن محل میں سورہے تھے، خواب میں حضور سیّد عالم ﷺ کے زیارت سے فیضیاب ہوئے، حضور نے ارشاد فرمایا کہ اے ابراہیم! خدا تجھ کو دو فرزند عطا کرےگا، ایک نام اشرف اور دوسرے کا نام اعرف رکھنا، اعرف بڑا عارف کامل ہوگا ، اور اس کے علم وفضل سے ایک جہاں مستفید ہوگا۔

پیدائش

آپ تقریباً ٧٠٩ اور ٧١٢ ہجری کے درمیان پیدا ہوئے، جس دن آپ کی ولادت ہوئی ابراہیم مجذوب یکایک دوبارہ تشریف لائے اور فرمایا کہ اس لڑکے کی بہت اچھی تربیت کرنا یہ ایک امانت ہے جو پروردگارِ عالم نے تمہارے سپرد کی ہے۔

بچپن اور پرورش

سلطان نے حضورﷺ کے فرمان کے مطابق مولود مسعود کانام اشرف رکھا، چونکہ آپ بڑی آرزؤں ،تمناؤں اور بشارتوں کے بعد پیدا ہوئے تھے، اس لیے بڑی ناز نعم سے پرورش بھی ہوئی، حضرت سید اشرف کی خداداد ذہانت اور ذکاوت بچپن ہی سے ظاہر ہونے لگی۔

تحصیلِ علم

جب آپ چار سال چار ماہ چار دن کے ہوئے تو آپ کی رسمِ بسم اللہ ہوئی، اور مولانا عمادالدین تبریزی آپ کے استاذ ہوئے، سات سال کی عمر میں آپ نے قرآن پاک ساتوں قرأت کے ساتھ حفظ کرلیا، اس کے بعد معقولات اور منقوکات کی طرف متوجہ ہوئے، اور چودہ سال کی عمر میں جملہ علوم وفنون، تفسیرم حدیث،فقہ، ادب، فلسفہ، نحو، صرف، فرائض، کلام، منطق وغیرہ پر پورا عبور حاصل کرلیا، اور وقت کے مروّٗجہ علوم وفنون پر پوری دست گاہ حاصل کرکے ممتاز عالم ہوگئے، اور اپنے دور کے مایۂ ناز علماء کی صف اول میں آپ کا شمار ہونے لگا۔

تبحر علمی

آپ کو اپنی طویل حیات مبارکہ میں دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں بڑے بڑے جیّد علماء سے سابقہ پڑا، سب کو آپ کی تبحر علمی ، ہوش مند ذہن اور بیدار دماغ کا لوہا ماننا پڑا، عرب ہو کہ عجم ہر جگہ اور ہر ایک نے آپ کے اتھاہ علمی گہرائیوں کا اعتراف کیا، آپ جب کبھی علماء سے گفتگو کرتے تو آپ کی گفتگو میں بڑی گہرائی ہوتی، آپ کے مکتوبات میں اس دور کے تمام پیچیدہ مسائل پر عالمانہ انداز سے اظہار خیال ملتا ہے، خود حضرت نظام الدین یمنی کی مرتب کردہ کتاب ”لطائف اشرفی“میں آپ کے ارشادات کے ایک ایک سطر میں علم کا بحر ناپیداکنار ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے، آپ کے علمی کمال، اور تبحر کا ایسا چرچا ہواکہ اکابر علماء اور نامور افاضل بغرض استفادہ وشاگردی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔

رُجحانِ طبیعت

دل میں طلب معرفت کا مادّہ پہلے ہی سے تھا، اور صغیر سنی سے ہی درویشوں اور عارفوں کی خدمت میں اکتسابِ فیض کے لیے حاضری کا شوق تھا، مگر کوئی نادار نکلتا اور کوئی ٹال دیتا،ہاں علاؤالدولہ سمنانی سے برابر اکتسابِ فیض کرتے رہے۔

دورِ حکومت

ابھی حضرت غوث العالم تحصیل علم سے فارغ ہوئے تھے کہ پندرہ سال کی عمر میں آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا، اور نظامِ حکومت کا بار آپ کو سنبھالنا پڑا، ٧٢٤ ہجری اور ٧٢٧ ہجری کے درمیان آپ تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوئے، رعایا پروری اور عدل وانصاف کی ان روشن روایات کو جو آپ کے والد محترم قائم کرگئے تھے، اس حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیا کہ آپ کی اس اہلیت وقابلیت پر اُمرائے دربار سے لے کر وزرائے حکومت تک سبھی دنگ رہ گئے۔

عَدل وانصافْ

آپ کے عدل وانصاف کا اندازہ مؤلف ”لطائف اشرفی“ کے ان اشعار سے ہوتا ہے:
بہ دوران عدلش ہمہ روزگار
گلستان شدہ عدل او رودربار

زہے عدل وانصاف آن دادگر
کہ برمیش گرگ نہ بند وکمر

اگر فیل بر فرق مور ے گذر
کند مور بر فیل آرد نظر

کہ ایں دور سلطان اشرف بود
چناں ظلم تو بر سرِ من رود

ترجمہ: جب سمنان کی حکومت اس کے ہاتھ میں آئی تو دنیاعدل وانصاف سے بھر گئی، اس کے دور عدل میں ساری دنیا اس کے عدل کی نہر سے سیراب ہوکر گلستاں بن گئی، اس کے انصاف کا یہ عالم ہے کہ بھیڑیا بکری کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتا ہے، اگر ہاتھی چیونٹی کے اوپر سے گذرے تو چیونٹی اس کو خبردار کرتی ہےکہ یہ سلطان سید اشرف کا دور ہے، تو کِس طرح یہ ظلم مجھ پر کرنے کی ہمت کرتا ہے۔
چنانچہ آپ کے عہد حکومت میں آپ کے عدل وانصاف سے متعلق بہت سے واقعات کتابوں میں ملتے ہیں، لیکن ان میں دو واقعات جو ”لطائف اشرفی“ میں علاؤالدولہ سمنانی سے منقول ہیں یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔

 

آپ ایک مرتبہ شکار کے لیے کسی گاؤں میں گئے شکار کی تلاش میں آپ نے سپاہیوں کو ہر طرف روانہ کیا، اتنے میں ایک بڑھیافریادلے کر آئی کہ سپاہیوں نے اس کا دہی زبردستی چھین لیا ہے، جو سپاہی موجود تھے انھیں آپ نے حکم دیا کہ یہاں حاضر ہوکر صف بستہ کھڑے ہوجائیں اور بڑھیا سے فرمایا کہ مجرم کی شناخت کرو ، بڑھیا نے سپاہیوں کو دیکھا مگر مجرم ان میں نہیں تھا، اتفاقاً ایک سپاہی شکار لئے ہوئے آتا ہوادکھائی دیا ، بڑھیانے کہا اسی ظالم نے میرا دہی چھینا ہے، سپاہی سے دریافت کیا گیا تو اس نے صاف انکار کردیا، گواہ طلب کیے گئے، تو بڑھیا کوئی گواہی بھی نہیں پیش کرسکی، اس وقت آپ نے اپنی فراست سے کام لیا، اور حکم دیا کہ مجرم کو چند مکھّیاں کھلادی جائیں ، مکھیوں کے کھاتے ہی فوراً قے ہوگئی ، دہی اس وقت تک ہضم نہیں ہوا تھا، قے کے ذریعے پیٹ سے باہر نکل آیااور جرم ثابت ہوگیا، آپ نے سپاہی کا گھوڑا مع زین کے بڑھیا کو دلادیا، اور سپاہی کو سخت سزا دی۔

 

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دربار میں ایک درویش شکایت لے کر آیا اور دادخواہ ہوا کہ میں ایک قافلے کے ساتھ آج رات کو سویا ہوا تھا، میری کمر میں چالیس اشرفیاں بندھی ہوئی تھیں، قافلے کے کسی شخص نے کھول لیا، اور قافلے کے سبھی افراد اس چوری سے انکار کرتے ہیں، آپ نے اس قافلے کو بلوایا، اور پوچھا ، ہر ایک نے انکار کیا، اور قسمیں کھانے کھانے لگا، آپ نے درویش سے فرمایا کہ قانونِ شریعت کے مطابق قسم کھانے کے بعد کوئی تدارک نہیں ہوسکتا، درویش رونے لگا، آپ نے فرمایا اچھا ٹھہر! ایک معقول حکمت میرے ذہن میں آئی ہے اس پر عمل کرتا ہوں، قافلے کے سب چھوٹے بڑے حاضر تھے، یکے بعد دیگرے آپ نے ہر ایک کے سینے پر ہاتھ رکھنا شروع کیا، دس آدمیوں کے سینے پر ہاتھ رکھا، اور کچھ پتہ نہیں چلا، بالآخر ایک شخص سامنے آیا آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور متفکر ہوئے ، ہاتھ اٹھا لیا، اور دوبارہ پھر سینے پر ہاتھ رکھا اور حکم دیا کہ درویش کا مال اس سے وصول کیا جائے، ذرا سی سختی پر اس نے اقرارِ جرم کرلیا، اور اشرفیاں اس کے پاس برآمد ہوئیں، صرف ایک اشرفی کم تھی، جس کے بارے میں خوداس شخص نے بتایا کہ میں نے خرچ کرڈالی ہے۔

ترکِ سلطنت کا سبب

اسی دوران ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے آپ کی آنکھیں کھول دیں، یہ چنگزی قزاقوں کا وہ حملہ تھا، جس میں خاندانِ نور بخشیہ کے بیشتر افراد جاں بحق ہوگئے، اور جس سے حضرت سید اشرف کسی طرح بچ گئے، اس واقعہ نے آپ کے دل پر بڑا اثر ڈالا، دنیا کی بے ثباتی اور ابدی حقیقتوں کو بے نقاب کردیا، اور طلب معرفت الٰہی مقصدِ حیات بن گیا، آپ بظاہر بادشاہ تھے، لیکن بہ باطن درویش تھے، اور دل میں سلوک ومعرفت الٰہی کی تڑپ تھی، جس درویش سے بھی ملاقات ہوتی اس سے اکتسابِ فیض اور معرفتِ الٰہی حاصل کرتے، لیکن آپ کا حصہ تو کہیں دوسری جگہ مقرر تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ ایران اور خراسان کے مشائخ آپ کی طرف ملتفت نہیں ہوئے، اور ٹالتے رہے، ایک اور بزرگ حضرت شیخ عبدالرزاق کاشانی رحمتہ الله علیہ کی بڑی شہرت تھی، جو حضرت شیخ علاؤالدین سمنانی رحمتہ الله علیہ کے ہمعصر اور ”فصوص الحکم“ کے شارح اور وحد ۃ الوجود کے قائل تھے، اس وقت کاشان میں موجود تھے، حضرت غوث العالم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شیخ کاشانی سے ”فصوص الحکم“ پڑھی، اور مسئلہ وحدۃ الوجود کی حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیا، یہیں سید علی ہمدانی سے ملاقات ہوئی، جو بعد میں جب آپ سیر عالم کے لیے نکلے تو سیاحت میں حضرت کے ہمسفر ہوئے، وہ اس وقت حضرت شیخ عبدالرزاق کاشانی رحمتہ الله علیہ کے حلقۂ درس میں شریک تھے، علم ظاہری وباطنی کے جامع تھے، ”فصوص الحکم“ کی شرح بھی لکھی تھی۔
اور بھی بہت سے مشائخ سے آپ ملتے رہے، اور اضطرابِ قلب برابربڑھتا رہا، اور امورِ سلطنت وحکومت سے دل اچاٹ ہوتا گیا، اس درمیان ایک شب حضرت خضر علیہ السلام نے بشارت دی کہ تم ابھی امورِ سلطنت میں منہمک ہو اس لیے کوئی سخت ریاضت نہیں بتلائی جاسکتی، فی الحال اسمِ ذات کو بغیر زبان کی مدد کے مشق کرو، دوسال آپ نے اس کی مشق جاری رکھی، پھر اشغالِ اویسیہ کا شوق پیدا ہوا، حضرت اویس قرنی رحمتہ الله علیہ کی اور ان کے اذکار سے آپ کو بہت سکونِ قلب حاصل ہوا، اور آپ نے اَذکارِ اویسیہ کی مداومت کو اپنے مشاغل کا ایک جز بنالیا، اور تین سال تک برابر یہی شغل رہا، لیکن آپ کو خواہش تھی کہ کوئی ظاہری مرشد بھی ہو جس کے دست حق پرست پر بیعت کی جائے، اور راہِ سلوک میں اس سے تربیت اور رہنمائی حاصل کیجائے۔

ترکِ سلطنت

آپ نے دس سال نہایت کامیاب حکومت کی ، جب آپ کی عمر پچیس سال کی ہوئی تو رمضان المبارک کے مہینے اور ستائیسویں مبارک شب کو حضرت خضر علیہ السلام دوبارہ تشریف لائے اور بزبانِ فصیح فرمایا کہ: ”اے اشرف! اگر وصالِ الٰہی اور مملکتِ لامتناہی چاہتے ہو تو بادشاہی چھوڑدو، اور ہندوستان کا رُخ کرو، وہاں تمہارے پیر روشن ضمیر حضرت شیخ علاؤالحق والدین گنج بنات رحمتہ الله علیہ تمہارے منتظر ہیں“صبح ہوتے ہی آپ نے ترکِ سلطنت کا اعلان فرمادیا، اور اپنے چھوٹے بھائی ”سید اعرف“ کو تخت پر بٹھایا اور رسمِ تاجپوشی ادا فرمائی اور کچھ نصیحت کی اور عدل وانصاف اور پابندئ شریعت کی تاکید فرمائی۔

اجازتِ سفر

نمازِ فجر اداکرنے کے بعد والدۂ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دست بوسی کے بعد فرمایا کہ اب تک میں آپ کی خدمت میں رہا؛ لیکن اب دینِ پاک مصطفیٰ ﷺ کی خدمت اور تبلیغ اسلام اور شریعت محمدی ﷺ کی اشاعت کا کام انجام دینا چاہتا ہوں، آپ بخوشی مجھے سفر کی اجازت مرحمت فرمائیں۔
بلند حوصلہ اور ایثار پسند ماں اپنے وقت کی رابعہ بصریہ تھیں، فرمایا کہ اے عزیزبیٹے! تیری ولادت سے پہلے حضرت خواجہ یسوی رحمتہ الله علیہ نے مجھے بشارت دی تھی کہ تجھ کو ایسا بیٹا نصیب ہوگا کہ ایک عالَم اس کے نورِ ہدایت سے جگمگائے گا، میں تجھے خداکے سپرد کرتی ہوں، اور بخوشی اجازت دیتی ہوں، جاؤ !خدا مبارک کرے! لیکن بس ایک تمنا ہے کہ جب شہر سمنان سے نکلو تو شاہانہ شان وشوکت اور شاہی ٹھاٹ باٹ کے ساتھ نکلو تاکہ میں سمجھوں کی میرا بیٹاکسی ملک کو فتح کرنے جارہا ہے۔

سِمنان سے روانگی

مادرِ مہربان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے آپ سمنان سے اس انداز سے نکلے کہ آپ کےدائیں بائیں علماء اور صوفیاء کی مقدس جماعت تھی، اور پیچھے وزراء ، امراء ، عمائدین حکومت اور اس کے پیچھےبارہ ہزار فوج کا لشکراوراس کے پیچھے سمنان کی مغموم اور اشکبار عوام کا ہجوم آپ کے ساتھ تھا، حضرت شیخ علاؤالدولہ سمنانی رحمتہ الله علیہ بھی کافی دورچلنے کے بعد ایک منزل پر آپ نے پندونصیحت کے بعد سب کو خدا حافظ کہا اور آگے بڑھے، یہ ترک سلطنت بھی ایک کرامت ہے، جو ہر انسان کے بس کی بات نہیں، اور عام انسانی طاقت سے بالاتر ہے، اس کے لیے اس برگزیدہ ہستی کی ہمت وجرأت کی ضرورت ہے، جس کی جہانگیری کی دھوم ملاء اعلیٰ میں مچی ہو، قصر قطبیت جس کا مسکن ہواور محبوبیت کا گرانقدر لباس جس کے جسم پاک پر زیب دیتا ہو، اور تاجِ غوثیت جس کے سر پر جگمگا رہاہو۔
آپ نے تاجِ شاہی کو اتار پھینکا، اور تخت وتاج ٹھوکر ماردی، اور اپنے پاکیزہ جسم سے لباس شاہانہ اتار کر چادر درویشی زیب تن فرمایا، جس سر پر اب تک تاجِ شاہی جگمگا رہا تھا، وہ طلبِ مولیٰ میں برہنہ ہوگیا، اور جو جسم شاہانہ لباس سے آراستہ تھا گدڑی پوش ہوگیا، جس قدم نے تخت شاہی کو پاما ل کیا وہ تلاشِ حق میں پاپیادہ ہوگیا، سمنان سے باہر نکلتے ہی جذب ووجد کا ایک پُر کیف عالم طاری ہوگیا، اور اسی عالم وجد میں آپ کی زبان مبارک سے بے ساختہ یہ اشعار نکلے ؎

ترک دنیا گیر تا سلطان شوی
محرمِ اسرار با جاناں شوی

پا بہ تخت وتاج وسر در راہ نہ
تاسزائے مملکت یزداں شوی

چیت دنیا کہنہ ای ویرانہ ای
در رہ آباد ایں ویراں شوی

تابکے دردام دنیاہائے بند
درہوائے دانہ ای پرّاں شوی

دام فانی بر گسل از پائے جاں
تاتو واصل باقی از سبحاں شوی

برگزر از خواب وخوار مردانہ وار
تا براہِ عشق چوں مرداں شوی

گر ہنی پا بر سر او رنگ جاہ
تار کے چوں اشرفِ سمناں شوی

ترجمہ: دنیا سے بے نیاز ہوجاؤ تاکہ تمہیں حقیقی بادشاہی حاصل ہو، اور محبوبِ حقیقی کی معرفت حاصل ہو، تخت وتاج کو ٹھوکر مار کرخدا کے راستہ میں چل پڑوتاکہ تم خدا کی معرفت حاصل کرنے کے قابل بن جاؤ، دنیا ایک پرانا ویرانہ ہے، اس ویرانے کو آباد کرنے کی کوشش کرو، دنیا کے جال میں کب تک پھنسے رہوگے؟ کسی دانہ کی تلاز میں اڑ جاؤ، فانی دنیا کا جال اپنی روحی کی قوت سے توڑ دوتاکہ خدا کاوصل میسر ہوجائے، اور ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو، نیند اور بھوک پر قابو حاصل کروتاکہ عشق کے راستے میں تم مردانگی سے آگے بڑھو، اگر تمہیں تخت شاہی اور بلند دنیاوی مرتبہ میسر ہے تو اشرف سمناں کی طرح اس سے بےنیاز ہوجاؤ۔

ہندوستان میں وردو

حضرت غوث العالم جب سمنان سے روانہ ہوئے تو بارہ ہزار فوج اور پیادے ہمرکاب تھے اور تین منزل تک ساتھ رہے، اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ سب کو رخصت کردیا ؛ لیکن مخلصین میںکچھ لوگ سب بھی ساتھ تھے۔
ماوراء النہر پہونچے تو باقی لوگو ں کو بھی اجازت دیدی، صرف دو آدمیوں کو ان کے بے پناہ اصرار پر ساتھ رکھا، جب بخارا پہونچے تو وہاں ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی ، مجذوب نے حضرت کی پیشانی کو اپنی پیشانی سے خوب رگڑا، یہاں تک کہ آپ کے اوپر ایک عجیب وغریب کیفیت طاری ہوگئی، تب مجذوب نے آپ کو جدا کیا، اور مشرق کی طرف اشارہ کیا، اور فرمایا”جلد جاؤ انتظار ہورہا ہے“ آپ اسی سمت روانہ ہوگئے، راستہ میں سمرقند میں شیخ الاسلام سے ملاقات ہوئی، انھوں نے آپ کی ضیافت کی، سمر قند سے باہر نکلے تو خیال ہواکہ درویشوں کو خدام اور گھوڑوں کی کیا ضرورت ہے؟ ان دونوں سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ گھوڑوں کا رہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا، ان دوں کے گھوڑوں کو غریبوں کو دیدیا اور اور اپنا گھوڑا ایک فقیر کو نذر کردیا، اور پیدل سفر شروع کیا، پورے دن سفر کرنے کے بعد ایک گاؤں میں پہونچے، اور قیام کیا، سب تھکے ماندے سوگئے، آدھی رات گذرنے کے بعد حضرت بیدار ہوئے اور اور سوچا ان دونوں سے بھی چھٹکارا لے لینا چاہیے تاکہ یکسوئی حاصل ہو، یہ خیال آتے ہی آپ نے دونوں ہمراہیوں کو سوتا ہواچھوڑ کر رات کے سنّاٹے میں یکا اور تنہا نکل پڑے، جنگلوں، پہاڑیوں، دشوار گذار وادیوں ، ویران میدانوں سے گذرتے ہوئے طویل مسافت طے کرنے کے بعد سندھ کے مشہور شہر اوجھ میں پہونچے۔

حضرت جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت رحمتہ الله علیہ

اوجھ میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ الله علیہ سے شرف ملاقات حاصل ہوئی، مخدوم جہانیاں رحمتہ الله علیہ علم ظاہر وباطن دونوں میں بے نظیر تھے، عرب وعجم کے مشائخ کرام سے آپ نے اکتسابِ فیض فرمایا، پہلے حضرت شیخ رکن الدین زکریا ملتانی رحمتہ الله علیہ سے تعلیم حاصل کی، جو حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمتہ الله علیہ کے پوتے تھے، اس کے بعد زیارِ حرمین شریفین کے لیے گئے اور عرب کے مشائخ سے استفادہ کیا، سلسلۂ چشتیہ میں حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی رحمتہ الله علیہ سے خلافت حاصل کی، اور پیرانِ چشت کا خرقہ پایا، چودہ خانوادوں کی خلافت آپ کو حاصل تھی، یہ شہر اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ الله علیہ کی وجہ سے مرجع خلائق اور طالبانِ معرفت کے لیے خورشیدِ ہدایت بناہواتھا، حضرت غوث العالم جب اس شہرمیں پہونچے اور حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمتہ الله علیہ کی خدمت میں حاضری دی تو حضرت بہت خوش ہوئے، اور فرمایا ”بعد از مدتے بوئے طالب صادق بدماغ رسیدہ وبعد از روزگار نسیم از گلزار سیادت ورزیدہ فرزند بسیار مردانہ برآمدہ مبارکباد زود قدم در راہ نہہ کہ برادرم علاؤالدین منتظر قدم شریف ہستند زنہار در راہِ جائے نمائی“۔
ترجمہ: ایک مدت کے بعد بوئے گل باغِ رسالت اور طالب صادق سے سے دل ودماغ معطر ہوئے۔ فرزند اشرف مبارک ہو، تم نے بڑی مردانگی کاکام کیا ہے، مگر جلدی کرو برادرم علاؤالدین تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، منزل مقصود تک پہونچنے کےپہلے کہیں توقف نہ کرنا۔

 

اس کے بعد فرمایا کہ ہم سے بھی کچھ لیتے جاؤ، اور تین دن آپ کو مہمان رکھا، اس قیام کے دوران آپ نے مخدوم جہانیاں کے عجیب وغریب روحانی کمالات کا مشاہدہ فرمایا۔ ۔۔۔۔۔مخدوم جہانیاں رحمتہ الله علیہ نے آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا، اور کہا کہ تمام اکابرین سے جو کچھ میں نے حاصل کیا ہے، وہ سب میں نے تمہیں عطاکردیا، اور بوقت رخصت فرمایاکہ میرے اور تمہارے درمیان روزِ اول سے الفت ومحبت تھی، اور یہ وابستگی ایسی ہے جیسے جسم کو جان سے، آپ حضرت جہانیاں جہاں گشت رحمتہ الله علیہ سے رخصت ہوکر اوجھ سے روانہ ہوئے، اور پاپیادہ منزلیں طے کرتے ہوئے دہلی پہونچے اور وہاں کے صاحب ولایت جو ایک خوبصورت جوان تھے ان سے ملاقات ہوئی، انھوں نے فرمایا اشرف خوب آئے، مگر تمہارا قیام کہیں مناسب نہیں، برادرم علاؤالدین تمہارے انتظار میں ہیں۔

 

دہلی میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا، ایک پاگل ہاتھی جس کے پیر میں تیس من کی وزنی زنجیریں پڑی تھیں، اور اس نے پورے شہر میں ہنگامہ مچا رکھا تھا، پانچ فیل بان مسلح اپنے ہاتھیوں پر بیٹھے ہوئے اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے، اور اس کو قابو میں کرنے کی کوشش کررہے تھے، لوگوں کا اس پاگل ہاتھی کے ڈر سے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوگیاتھا۔
جس وقت حضرت بازار سے گذر رہے تھے، اچانک وہ پاگل ہاتھی آپ کے سامنے آگیا، لوگوں نے دیکھا تو شور مچایا تاکہ آپ ہوشیار ہوجائیں اور پاگل ہاتھی سے بچ جائیں، لیکن آپ ایک جذب وکیف کے عالم میں چلے جارہے تھے، نہ آپ کو پاگل ہاتھی کی خبر ہوئی اور نہ لوگوں کے شور شرابے کی یہاں تک کہ آپ ہاتھی کے قریب پہونچ گئے، ہاتھی بغیر کوئی تکلیف پہونچائے ہوئے آپ کے قریب سے گذر گیا، اور آپ صاف بچ گئے، پھرکیا تھا پورے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی اور آپ کی اس کرامت کا ہر گھر میں چرچا ہونے لگا۔
آپ دہلی سے نکلے تو اسی جذب وکیف کے عالم میں برق رفتاری کے ساتھ منازلِ سفر طے کرتے ہوئے بہار کی سرحدعبور کرکے حدود بنگال میں داخل ہوئے، اور پنڈوہ شریف کے قریب پہونچ گئے، جو اس مبارک اور طویل سفر کی آخری منزل تھی، اور جہاں خود آپ کے پیر ومرشد حضرت شیخ علاؤالدین گنج نبات رحمتہ الله علیہ اپنی خانقاہ میں بڑی بے چینی سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔

بنگال

بنگال پرمسلمانوں کی حکومت اگرچہ چھٹی صدی ہجری میں قطب الدین ایبک کے زمانے میں شروع ہوئی، لیکن یہ اسلامی تہذیب و تمدّن سے محروم تھا، اور سیاسی خلفشار میں مبتلا تھا، جس کا خاص سبب یہ تھا یہاں عرصۂ دراز تک کوئی پائیدار اور مستحکم حکومت نہ قائم ہوسکی، بار بار جنگ وجدال اور بغاوت ہوتی رہی غالباً یہی وجہ تھی کہ ابن بطوطہ نے اسے ”جہنم“ سے بھری ہوئی ”جنّت“ کہا تھا، بنگال میں علم و معرفت کی شمع آٹھویں صدی ہجری کے ابتداء میں حضرت شیخ اخی سراج الحق والدین آئینۂ ہند رحمتہ الله علیہ نے جلائی، پھر ان کے بعد ان کے خلیفۂ خاص حضرت شیخ علاؤالدین پنڈوی رحمتہ الله علیہ اور ان کے جانشینوں نے اس روشنی کو بنگال کے گوشہ گوشہ میں پھیلاکر بنگال کو علم وہدایت ، روحانیت اور معرفت کا گہوارہ بنادیا۔

حضرت اخی سراج الحق والدین آئینۂ ہند رحمتہ الله علیہ

آپ بنگال کے ایک قصبہ گور میں پیدا ہوئے، اور اخی سراج کے نام سے مشہور ہوئے، اور سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کے جلیل القدر خلفاء میں تھے، اگرچہ سلطان المشائخ کے تمام خلفاء عالی مرتبہ تھے؛ لیکن ان میں ایک حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی اور دوسرے حضرت اخی سراج الحق والدین کو بڑی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی، بلکہ در حقیقت سلسلۂ چشتیہ انہی دونوں بزرگوں سے جاری ہوا، خود سلطان المشائخ حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کے بار ے میں فرمایا کہ ”وہ ہندوستان کا آئینہ ہے“ اور آپ کے متعلق صاحب روضۃ الاقطاب لکھتے ہیں کہ:۔
” الحق وی آئینۂ ہند بود کہ تمام ہند رونق ارشاد وہدایت بیفزود

پنڈوہ

صوبہ بنگال کے ضلع مالدہ کا ایک شہر ہے، جو لکھنوتی (گور) کے قریب ہے، اور در حقیقت یہ گور ہی کا ایک حصہ تھاجہاں حکومت کے وزراء، اُمراء اور عہدیداروں کے رہائش گاہیں تھیں، اور اسی شہر میں سلطان المرشدین شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات رحمتہ الله علیہ کی خانقاہ تھی جو مرجع خلائق بنی ہوئی تھی۔

حضرت شیخ علاؤالدین پنڈوی رحمتہ الله علیہ

سلطان المرشدین حضرت شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ کے والد گرامی کا نام نامی حضرت مولانا اسعد تھا، جو لاہور کے رہنے والے تھے، علمی دنیا میں آپ کا خاندان بڑا مشہور ومعرف تھااور ایک بلند مقام رکھتا تھا، آپ صحیح النّسب سیّد تھے، اور سلسلۂ نسب حضرت خالد ؄تک پہونچتا ہے،آپ حضرت اخی سراج الدین ؄کےخلیفہ اور سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ تھے، حضرت شیخ اخی سراج الدین ؄کے بنگال میں رشدوہدایت کے لیے پہونچنے سے پہلے ہی آپ کے علم وفضل کی دھوم مچ گئی تھی، شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؄نے ”اخبار الاخیار“ میں لکھا ہے کہ:۔
”گویند کہ چوں اخی سراج با نعمت خلافت از پیش نظام الدین
رخصر یافت وخواست کہ بجانب وطن اصلی متوجہ شود بخدمت
وے التماس کرد کہ درآنجا شیخ علاؤالدین مردے دانشمند وعالی
جاہ است مرا باوے چگونہ بسر آید، فرمود غم مخور کہ وے خادم تو خواہد گردد“

ترجمہ: کہتے ہیں کہ جب اخی سراج الدین رحمتہ الله علیہ خلافت کی نعمت حاصل کرکے حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ الله علیہ سے رخصت ہونے لگے اور چاہا کہ اپنے وطن جائیں، تو آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہاں علاءالدین نام کے ایک بلند مرتبہ دانشمند ہیں اُن کی موجودگی میں میری وہا ں کیا چلے گی؟ آپ نے فرمایا فکر نہ کرو وہ تمہارا خادم ہوگا۔ چنانچہ حضرت نے جو فرمایا وہی ہوا۔

 

سلطان المرشدین علاؤالدین رحمتہ الله علیہ پہلے سے مالدار اور غنی ہونے کی وجہ سے بڑی شان وشوکت کے ساتھ رہتے تھے، مگر جب شیخ اخی کے مرید ہوئے تو فقراور درویشی اختیار کرلیا، آپ بڑے سخی تھے، مخلوق خدا پر بے دریغ خرچ کرتے تھے، بادشاہِ وقت کہاکرتا تھا کہ میرا سارا خزانہ شیخ کے دودن کا خرچ ہے، اور ان کے خرچ پر رشک کرتا تھا، ایک مرتبہ آپ کو شہر سے باہر نکل جانے کا حکم دیا ، آپ شہر سے باہر نکل کر سنار گاؤں چلے گئے، اور دوسال وہاں قیام فرمارہے، یہاں آپ نے اپنے خادم کو تاکید فرمائی کہ اب خرچ دوگنا کردیا جائے، چنانچہ پہلے سے دوگنا خرچ ہونے لگا، آپ علم وفضل میں بے نظیر تھے، کبھی کبھی جوش کے عالم میں سید اشرف سے فرماتے کہ آیاتِ قرآنی کی تفسیر اور فصوص الحکم اور فتوحاتِ مکیہ کے نکات مجھ سے حل کرو،میں ایک ایسا پھل دار درخت ہوں جسے ہلاؤ تو تمہیں عجیب وغریب پھل ملیں گے۔ پیر ومرشد کا یہ عالم تھا کہ حضرت اخی سراج الدین رحمتہ الله علیہ اکثر دور دراز علاقوں میں تبلیغ دین اور اشاعت اسلام اور خدمت خلق کے لیے تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن تک سفر میں رہتے، حضرت شیخ علاؤالدین کھانے کا تھیلا کاندھے پر لٹکائے اور گرم دیگ سر پر رکھے آپ کے پیچھے پیچھے چلتے تھے، اور یہ خدمت پورے سال انجام دیا۔ گرم دیگ سر رکھتے تھے ، سر کے بال ختم ہوگئے تھے، مریدین کی تربیت میں آپ بہت سختی فرماتے تھے، بارہ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ایک مرید کی تربیت میں صرف ہوتا تھا، مریدین سے سخت محنت اور مشقت کا کام لیتے تھے،اور عبادت واذکار کے علاوہ ہر طرح محنت ومشقت کے کاموں کو خود کرنے کی مشق کراتے تھے، تاکہ صرف مصلّے کے مفلوج اور معطل زاہد نہ رہیں بلکہ میدانِ عمل کے مجاہد بھی ہوں، اور مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہیں۔
شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ کا اگر پہلا سبق معرفتِ حق تھاتو دوسرا سبق خدمتِ خلق تھا، آپ نے سب سے زیادہ محنت اور ریاضت کا کام خود اپنے بیٹے حضرت نورالدین سے لیاجو آٹھ سال تک سوکھی لکڑی کا بوجھ جنگل سے کاٹ کر خانقاہ تک لاتے تھے۔ چنانچہ ایک دن شیخ نورالدین کے بڑے بھائی جو بنگال کے وزیر اعظم تھےبھائی کی اس مشقت بہت متأثر ہوئے، اور شیخ سے ان کے لیے سفارش کی، حضرت شیخ نے ان کی سفارش پر صرف اتنی رعایت برتی کہ ان کی ڈیوٹی بدل دیا، اور جس جگہ بوڑھی عورتیں پانی بھرت تھیں وہاں کی مٹی بہت نرم تھی اس پر پانی کی وجہ سے پاؤں پھسلتے تھے آپ نے اپنے فرزند کو حکم دیا کہ وہ ضعیفوں کے گھڑےاٹھا کر پکی زمین تک پہونچادیا کریں، چار سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے، انھیں محنتوں اور ریاضتوں نے آپ کو قطب عالَم کے مرتبۂ بلند تک پہیونچادیا اور صوفیاء اور صالحین کی صفِ اول میں آپ کا شمار ہونے لگا۔
حضرت شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ کی انھیں خصوصیات نے آپ کو ”سلطان المرشدین“ بنادیا، آپ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص آپ کی تعظیم وتکریم کرتا تھا، یہاں تک کہ جب آپ نماز جمعہ سے واپس آتے تو قدم بوسی کے لیے لوگ ٹوٹ پڑتے تھے، اور آپ کو وہ عظیم شہرت ملی کہ سمنان کا بادشاہ تخت وتاراج کو ٹھوکر مار کر ہزاروں میل پیدل مسافت طے کرکے آپ کا قدم بوس ہوا۔

شیخ کی خدمت میں

سمنان سے پنڈوہ دوسال کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد حضرت غوث العالم پنڈوہ شریف کے قریب پہونچے تھے کہ حضرت شیخ علاؤالدین گنج نبات رحمتہ الله علیہ نے آپ کو بشارت دی ”کہ آں کسے کہ ازدوسال انتظار او می کشیدہ ایم وطریق مواصلت او می دیدہ ایم امروز فردا می آید“
ترجمہ: میں دوسال کے عرصہ سے جس دوست کے انتظار میں تھا بس آج ہی کل میں آنے والا ہے اور اس طالب صادق کی آنے کی خبر حضرت خضر علیہ السلام نے ستّر بار دی ہے۔

بیعتْ

ایک دن حضرت شیخ علاؤالدین رحمتہ الله علیہ قیلولہ فرمارہے تھے کہ یکبارگی اٹھ بیٹھے اور یہ کہتے ہوئے تشریف لائے کہ ”بوئے یار می آید“ دوست کی خوشبو آتی ہے، اور فوراً حکم دیا کہ میری اپنی پالکی اور وہ پالکی بھی جو میرے پیرومرشد حضرت شیخ اخی سراج رحمتہ الله علیہ نے عنایت فرمایا تھا، دونوں لائی جائیں، اور آپ دونوں پالکی ہمراہ لے کر اس شان سے شہر سے باہر نکلے کہ شہر میں ہر طرف مشہور ہوگیا کہ آج حضرت کسی عزیزخاص کے استقبال کے لیے باہر جارہے ہیں، مریدین ومعتقدین واصحاب واحباب پیادہ وسوار اور لوگوں کا ایک ہجو ساتھ ہوگیا، شیخ شہر سے تقریباً دو کلومیٹر دور ایک سینبھل کے درخت کے نیچے تشریف فرماہوئے، دور سے مسافروں کا ایک ہجوم آتا ہوا دکھائی دیا تو خادم پتا لگانے کے لیے دوڑا، معلوم ہوا کہ اشرف نام کے ایک نورانی جوان سمنان سے آرہے ہیں، وہ قافلے کے ساتھ ہیں، یہ سن کر شیخ بہت خوش ہوئے، اور چند قدم آگے بڑھے، اور حضرت سید اشرف سمنانی دوڑے ہوئے شیخ کی خدمت میں آئے اور قدموں پر گرپڑے، شیخ نے ان کو اٹھا لیا اور اپنے سینے سے لگایا، اس کے بعد سب سے تعارف کرایا، ملاقات کے بعد حضرت شیخ کے حضور باداب دوزانو بیٹھ گئے اور برجستہ یہ شعر پڑھا :
بچہ خوش باشد کہ بعد از انتظارے
بامید رسد اُمّید دارے
ترجمہ: کیاہی خوشی کی بات ہے کہ سخت انتظار کے بعد کوئی امیدوار اپنی امید کو پہونچے۔
حضرت شیخ نے فرمایا کہ جس دن سے تم سمنان سے نکلے ہو میں ہر ہر منزل پر تمہارے ساتھ تھا، اور فرمایا کہ میری پالکی پر سوار ہوجاؤ اور خانقاہ چلو، پاس وادب کی وجہ سے آپ نہیںسوار ہوئے؛لیکن جب حضرت شیخ نے بار بار اصرار کیا تو مجبوراً سوار ہوئے اور حضرت کے ہمراہ چلے، جب خانقاہ دیکھا تو بے اختیار سواری سے اتر پڑے، شیخ نے آپ کو سینہ سے لگایا، اورخانقاہ میں اپنے پہلو میں جگہ دی ، اور عبداللہ خادم کو حکم دیا کہ دسترخوان لگاؤ! خادم نے فوراً دسترخوان لگایا اور ہاتھ دھلایا، شیخ نے فرمایا کہ ”ازمقاصدکونین دست بشوی تا خوان وصل بدست آید“ فرزدن اشرف مقاصد کونین سے ہاتھ دھولو اس کے بعد ہی خوان وصل مل سکتاہے، حضرت غوث العالم نے فرمایا ”حضور میں اپنی جان سے ہاتھ دھوچکا ہوں، پھر بساط وصال پر بیٹھا ہوں“ طرح طرح کے کھانے دسترخوان پر لگائے گئے، شیخ نے چارلقمے اپنے دستِ مبارک سے حضرت سیّد اشرف کے منھ میں ڈالے، لوگ حیران تھے کہ پہلی بار حضرت شیخ نے کسی کی تواضع اس انداز سے فرمایا ہے، آخر میں بھٹّا لایا گیا جو وہاں کے درویشوں کاپسندیدہ کھانا ہے، پکے ہوئے چاول میں ٹھنڈاپانی ڈال کر بنایا جاتا تھا، شیخ نے فرمایا کہ پن بھتا کھاؤ، تشنگانِ معرفت کو اس غذا سے سیرابی حاصل ہوتی ہے، کھانے کے بعد پان کے بیڑے آئے، ایک ایک حاضرین کودیا اور اپنے دستِ مبارک سے حضرت اشرف کو کھلایا، اس کے بعد یکے بادیگرے تین بیڑے اور کھلائے اور حسبِ معمول بزرگانِ چشتیہ نظامیہ سراجیہ میں داخل فرمایا، اور اسرارِ وحدت سے آگاہ فرمایا اور اپنی کلاہِ مبارک سر سے اتار کر سیّد اشرف کے سر پر رکھ دی، اس وقت حضرت سید اشرف نے بے ساختہ یہ اشعار پڑھے :
نہادہ تاج دولتِ برسر من
علاؤالدین والحق گنج نبات
زہے پیرے کہ ترک از سلطنت داد
برآوردہ مرا از چاہ آفات
ترجمہ: حضرت شیخ علاء الحق والدین نے میرے سر پر دولت کا تاج رکھ دیا ، اس پیر کا کیا کہنا جس سے ملنے کی تمنّا نے مجھے سلطنت سے بے نیاز کردیا اور آفات سے نکال کر شاہراہ روحانیت پر ڈال دیا۔
اس کے بعد اپنے حجرے میں لے گئے اور کچھ دیر خلوت میں رہے، ایک گھنٹہ کے بعد حجرے سے باہر نکلے اور اپنے پہلو میں بٹھایااور وہ تبرکات اور خرقہ جو آپ کو مشائخ سے ملے تھے لائےاور تمام اصحاب کو جمع کیا اور فرمایا کہ یہ امانت برسوں سے میرے پاس تھی اب اس کے مستحق کے سپرد کرتا ہوں۔
سید اشرف نے وہ سارے تبرکات اسی دن ایک فقیر کو دیدیا، شیخ نے جو آپ کو شرف وعزت بخشی اس سے کچھ لوگ ناخوش تھے، اب انھیں اچھا موقع مل گیا، اعتراضات کی بوچھار شروع ہوگئی کہ شیخ کا عطا کیا ہوا خرقہ وتبرکات دوسروں کو دیناناقدری ہے، اور یہ جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ یہ بات حضرت شیخ علاء الحق والدین رحمتہ الله علیہ تک پہونچائی گئی، شیخ نے فرمایا کہ اشرف کا کوئی فعل بے معنیٰ نہیں ہوسکتا، یہ سوال خود انھیں سے کرو تو تمہاری تسلّی ہوجائے گی، لوگوں نے آپ سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا کہ لباس عین پیر ہے یا غیر؟ ظاہر ہے کہ لباس عین پیر نہیں ہے؛ بلکہ غیر پیر ہے، اور پیر کے ہوتے ہوئے غیر پیر کی کوئی ضرورت نہیں؛ اس لیے کہ مرید کی نظر غیر پر نہیں ہوتی، مرید کو پیر کے صفات کے تابع ہونا ضروری ہے، اگر میں غیر پر نگاہ رکھوں تو پیر سے فیض حاصل نہیں کرسکتا، اور پیر کے صفات اپنےاندر پیدا نہیں کرسکتا، اور مرید کے اندر پیر کے صفات پیدا نہ ہوں تو اس کو پیر کی کیا ضرورت ہے؟جب حضرت سید اشرف کے جواب کو شیخ نے سُنا تو سید اشرف کی بڑی تعریف وتوصیف فرمائی اور بارگاہِ الٰہی میں آپ کے لیے دعا فرمائی کہ مولائے کریم اس کی شہرت مشرق سے مغرب تک پہونچے، غرض تبرکات وعنایات سے بہرہ مند ہو کر حضرت اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئےتھے، شیخ نے اپنی خلوت گاہ کے قریب ایک حجرہ آپ کو عنایت فرمایا، آپ اسی میں عبادت کیا کرتے تھے۔
یہ حضرت غوث العالم کا ابتدائی دور تھا، اس وقت آپ کی نگاہ پیر پر تھی، اور آپ کا سارا زور اپنے اندر پی ر کے صفات پیداکرنے پر تھا، اس لئے آپ کا کمالِ احتیاط تھا کہ ان علامات کو اپنے اندر سے جُدا کردیا، تاکہ عوارضات کی طرف متوجہ ہونے کا شائبہ بھی نہ رہ جائے، لیکن بعد میں آپ کے شیخ سے اور دوسرے بزرگوں اور صوفیاء اور مشائخ سے جو خرقے اورتبرکات حاصل ہوئے ان بیش قیمت تبرکات کو قدرواحترام کے ساتھ محفوظ رکھا، اور آخر وقت میں اپنے جانشین حضرت نورالعین کو سپرد فرمادیا، شیخ علاء الدین کا دستور تھا کہ اپنے مریدوں سے سخت ریاضت اور محنت لیا کرتے تھے، اور دس بارہ سال تک مشقت کراتے تھے، خود آپ کے بیٹے نور چونکہ وزیر کے بھائی تھے اور صاحب ثروت باپ کے بیٹے تھے، اس لیے ان کے دل سے بڑائی کا احساس دور کرنے کے لئے ان کے ذمہ جو خدمات سپرد کی تھیں وہ سب سے زیادہ سخت تھیں، جیسے جنگل سے لکڑیا کاٹ کر لانا، کنویںسے پانی نکال کر دوسروں کے گھروں تک پہونچانا، مہتروں کاکام جیساکہ آپ پڑھ چکے ہیں، لیکن شیخ بڑے مزاج شناس تھے، اس لیے انھوں نے سید اشرف کو کسی خدمت پر معمور نہیں فرمایا، حضرت غوث العالم نے بارہا خواہش ظاہر کی کہ کوئی خدمت ان کے لیے بھی مقرر کی جائے، مگر شیخ نے فرمایا کہ فرزند اشرف! حضرت خضر علیہ السلام نے تمہاری اس قدر تعریف وتوصیف کی ہے کہ مجھ کو تم سے کوئی خدمت لیتے ہوئے شرم آتی ہے، چار سال تک حضرت غوث العالم مرشد کی بارگاہ میں رہے، کبھی کبھی پوشیدہ طور پر جاروب کشی کرتے تھے، یا شیخ کا پیشاب پھینک دیتے تھے، مگر مرشد نے کسی خاص خدمت کا حکم نہیں دیا، صرف ذکروفکرکی تاکید فرمائی۔

خطابِ جہانگیری

حضرت شیخ کو بڑی تمنّا تھی کہ اپنے محبوب مرید حضرت غوث العالم کے لیے کوئی لقب تجویز فرمائیں، مگر انتظار تھا کہ غیب سے کوئی خطاب عطا ہو، چنانچہ شعبان المعظم کی پندرہویں مبارک رات کو حضرت شیخ نے اوراد ووظائف سے فارغ ہوکر مراقبہ فرمایا ، صبح ہوتے ہی درودیوار سے جہانگیر جہانگیر کی نداآئی ، حضرت شیخ نے اسی وقت غوث العالم کو یاد فرمایا، غوث العالم اپنے حجرے میں ذکروفکر کے اندرمشغول تھے، شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو شیخ نے فرمایا کہ ”اے فرزند اشرف! خطاب جہانگیر برتو مبارک باشد“ اے فرزند اشرف! جہانگیر کا خطاب تم کو مبارک ہو۔ نماز فجر کے بعد حضرت شیخ حسب معمول سب سے مصافحہ فرمایا اورسب لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے لگے، اس دن جو بھی سید اشرف سے مصافحہ کرتا وہ یہی کہتا کہ خطابِ جہانگیر مبارک ہو، اس وقت حضرت غوث العالم نے یہ اشعار پڑھے -o
مُرا از حضرت پیر جہاں بخش
خطاب آمد کہ اشرف جہانگیر
کنوں گیرم جہانِ معنوی را
کہ فرماں آمد از شاہم جہانگیر
ترجمہ: مجھے دنیا بخشنے والے پیر نے جہانگیر کے لقب سے خطاب دیا ہے اب میں روحانی دنیا پر حکومت کروں گا؛کیوںکہ میرے بادشاہ کا فرمان ہے کہ میں دنیا پر حکومت کروں۔

مُرشد کا ادب

حضرت غوث العالم اپنے پیر ومرشد کے ادب کا اس قدر پاس ولحاظ فرماتے تھے کہ جس دن سے بیعت ہوئے اس دن سے مرنے تک پنڈوہ شریف کی طرف پَیر نہیں پھیلائے، اور نہ اس سمت کبھی تھوکا، بعض اوقات پنڈوہ سے دوچار ہزار میل دور ہوتے پھر بھی یہ احتیاط فرماتےتھے۔
کل بارہ سال پیر ومرشد کی خدمت میں حاضر رہے، لیکن اس مدت میں شہر کے اندر پیشاب یا پاخانہ نہیں فرمایا، ضرورت کے وقت بستی سے باہر چلے جاتے تھے۔

آپ ایک دن اپنے اصحاب کے ساتھ سیر کو نکلے، آپ کی نظر ایک کتّے پر پڑی، فرمایا یہ وہی کتّا ہے جسے میں نے اپنے پیر ومرشد کے آستانے پر دیکھا تھا، بڑی محبت سے اسے بلایا اور جائے قیام تک لائے، اور وہاں اپنے دامن ہر رکھ کر کچھ کھلایا۔ اس کے بعد رخصت کیا۔

جانشین کی بشارتْ

ایک دن حضرت غوث العالم لباس تبدیل کرکے شیخ کی خدمت کے لیے تیار ہورہے تھے کہ یکایک ادھر سے شیخ کا گذر ہوا، پوچھا سید کس کام میں مصروف ہو؟ آپ نے عرض کیا کہ ”میاں برائے خدمت می بندم“ خدمت کے لیے کمر باندھ رہاہوں، ارشاد ہوا کہ ” اگر می بندی محکم ببندکہ ہیچ درمیان نہ داری“ یعنی کمر باندھ رہے ہو تو ایسی مضبوط باندھو کہ درمیان میں کچھ باقی نہ رہ جائے۔عرض کیا کہ ”آرزوئے نفس از میاں بیروں کشیدہ ام“ یعنی میں نے آرزوئے نفس دل سے نکال دیا ہے، اب جب تک زندہ رہوں گا اس کے خلاف نہ کروں گا، ارشاد ہوا”مبارک ہو“ مگر جب حجرے سے نکلے تو حضرت کو افسوس تھا کہ اب ان کا جانشین نہیں پیدا ہوسکتا، شیخ اس بات سے آگاہ ہوگئے، اور بشارت دی ”مبارک ہو پروردگار عالم تمہیں ایک فرزند دینی دے گا جو تمہارے ہی خاندان کا چشم وچراغ ہوگا اور اس کی بزرگی اور شہرت دور دور تک ہوگی، اور سلسلۂ نسب رہتی دنیا تک قائم رہے گا“ یہ بشارت سن کر حضرت نے مرشد کے قدموں پر سر رکھ دیا، اور سب اصحاب نے آپ کو مبارکباد دی۔

ولایت جونپور

حضرت غوث العالم کو شیخ کی خدمت میں چار سال گذر گئے ۔ ایک دن حضرت شیخ نے فرمایافرزند اشرف! جو کچھ بھی میرے پاس تھا سب تمہیں دیدیا، اور میں نے تمہاری تربیت میں اپنی پوری استعداد اور صلاحیت صرف کردی، اور ہر نعمت ابتدائی وانتہائی کا آپ کو مالک اور ہر طرح کامل ومکمل بنادیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ دوشیر ایک جنگل میں نہیں رہ سکتے اور دو تلواریں ایک نیام میں نہیں رہ سکتیں، اب مناسب ہے کہ تمہارے لیے کوئی اور مقام متعیّن کروںتاکہ اہلِ زمانہ تم سے فیضیاب ہوں، اور بھٹکے ہوئے راہِ ہدایت پائیں، اب تمہیں جونپور کا صاحب ولایت بناتا ہوں اور وہاں قیام کا حکم دیتا ہوں، حضرت غوث العالم یہ سُن کر آبدیدہ ہوگئے،اور عرض کیا کہ میں ایک غریب الدیار مسافر ہوں، یہ آس لے کر آیا تھا کہ باقی زندگی آپ کے قدموں الدیار مسافر ہوں، یہ آس لے کر آیا تھا کہ باقی زندگی آپ کے قدموں میں گذار دوں گا، آپ مجھے اپبے سے الگ نہ کیجیے، ارشاد ہوا کہ فرزند اشرف! مشیت الٰہی یہی ہے، حضرت غوث العالم نے فرمایا کہ مزید کچھ عرصے کے لیے تو مجھے قدموں میں رہنے کی اجازت مل جائے۔
چنانچہ دوسال شیخ یوں ہی روانگی کے لیے اصرار کرتے رہے، اور حضرت سیّد اشرف مزید کچھ مدت قیام کے بہانے وقت ٹالتے رہے، مگر اب طے پایا کہ رمضان شریف تو پنڈوہ میں گذرے اور عید کے دن سفر ہو۔

چنانچہ جب عید کے دن شیخ نے کوچ کا حکم دیا تو طرح طرح کے لباس آپ کو پہنائے ، نقارہ وعلم وغیرہ ساتھ کردیا، اور شاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ آپ کو رخصت کیا، پوری آبادی اس منظر کو دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑی، حضرت نے جب کلمات رخصت فرمائے اور خدا حافظ کہا تو سید اشرف نے عرض کیا کہ آپ مجھے دیار جونپور کی ولایت دے کر بھیج رہے ہیں وہاں ایک شیر بھی رہتا ہےجس کا نام حاجی صدرالدین چراغ ہند ہے، اور جس کے ولایت کی دیار جونپور میں دھوم مچی ہوئی ہے، حضرت شیخ نے مراقبہ فرمایا ، اس کے بعد فرمایا اس شیر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، وہاں آپ کو ایک ایسا بچہ ملے گا جو اس شیر کے لیے کافی ہوگا، اور مقام ظفرآباد میں تم کو پہلی فتح حاصل ہوگی۔

سفر جونپور

حضرت غوث العالم بڑے شان وشوکت کے ساتھ پنڈوہ سے روانہ ہوئے، اور چلتے چلتے قصبہ منیر میں پہونچے، وہاں شیخ ثمن نام کے ایک بزرگ نے یہ ٹھاٹ باٹ دیکھ کر فرمایا کہ درویشوں کو اس دنیاوی آن بان سے کیا واسطہ؟ حضرت نے فرمایا کہ ”میخ وطویلہ در گل زدہ ام نہ دردل“ یعنی میخ طویلہ مٹی میں گاڑاہے دل میں نہیں۔

قیام محمد آباد

حضرت غوث العالم منزل بمنزل کوچ کرتے ہوئے اعظم گڈھ کے ایک قصبہ محمد آباد گہنہ پہونچے، اور وہاں قیام فرمایا، اطراف کے علماء آپ سے ملنے آئے، اور مختلف علمی مسائل پر گفتگو ہونے لگی، یہاں تک مناقب صحابہ کی بات آئی ، حضرت نے اہل سنت کے عقیدے کے مطابق فضائل ومناقب صحابہ بیان فرمائے ، حاضرین خوش ہوگئے، اور آپ کی تعریف کی، حضرت نے فرمایا کہ میں نے مناقب صحابہ پر ایک کتاب لکھی ہے اگر لوگ اس کا مطالعہ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، سب نے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، وہ کتاب ہمراہ تھی، مولانا حسین کتابدار نے علماء کے سامنے رکھ دیا، کتاب پڑھ کر علماء نے تعریف کی، لیکن ایک عالم قاضی احمد نے اعتراض کیا کہ اس میں حضرت علی کی تعریف اور خلفاء سے زیادہ کی گئی ہے، آپ تفضیلی معلوم ہوتے ہیں، اور بحث شروع ہوگئی، دوسرے علماء بھی قاضی احمد کے ساتھ ہوگئے، حضرت غوث العالم نے ٹھوس دلائل پیش کئے، لیکن علماء اپنی ضد پر اڑے رہے، اور سب نے طے کیا کہ اس کتاب کے خلاف فتویٰ جای کیا جائے، اور آئندہ جمعہ کو وہ فتویٰ مسلمانوں کو سنایا جائے، علماء کی یہ حرکت حضرت کو ناگوارہوئی، اور جمعہ کے دن ایسی بارش ہوئی کہ پورے شہر میں سیلاب آگیا، اور کوئی بھی جامع مسجد نہیں پہونچ سکا، اسی رات ایک بااثر عالم سید خان نے خواب دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ سید اشرف کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں، تم لوگ ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے، خیریت اسی میں ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت کرو، سید خان نے اپنی بیوی سے خواب بیان کیا، ان کی بیوی بڑی نیک دل صالحی خاتون تھیں، کہا میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے، اور مشورہ دیا کہ فوراً حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت کرو، اور ان سے دعا کی درخواست کرو، ہمارے کوئی اولاد نہیں ہے شاید حضرت کی دعا سے اولاد نصیب ہو، اس سے پہلے ان کی بیوی نے خواب دیکھا تھا کہ ایک نورانی صورت بزرگ پورب سے آئے ہیں اور چار آم دئے ہیں، اور چار بیٹے کی بشارت دی ہے، بیوی نے کہا ممکن ہے کہ میرے خواب کی تعبیر ملنے والی ہو، سیّد خان حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت خواہ ہوئے اور حضرت کو متفکر دیکھ کر فرمایا کہ آپبالکل فکر نہ کریں، سارے معترضین کو میں جواب دوں گا، حضرت نے فرمایا کہ فقیر نے بھی جواب ٹھیک دیا ہے، لیکن ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہیں مانتے، سیّد خان نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن میں نے ایک دوسری حکمت سوچی ہے، حضرت بہت خوش ہوئے، اور سیّد خان کو چار آم عنایت فرمائے اور کہا ”تم کو چار بیٹے مبارک ہوں، ایک طاہر دوسرا مطہر تیسرا طیّب اور چوتھا محمد ان میں ہر ایک عالم وفاضل ہوگا“سیّد خان بہت خوش ہوئے، اس لیے کہ انھیں درحقیقت یہاں بیوی کے خواب کی تعبیر مل گئی، دوسرے جمعہ کوجب نماز جمعہ کے لیے لوگ جامع مسجد آئے تو علماء نے استفتاء پیش کیا، سیّد خان نے استفتاء اپنے ہاتھوں میںلے لیا اور پڑھ کر پوچھا کہ آپ لوگوں کا اعتراض یہی ہے کہ اس میں حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کی تعریف اور مناقب زیادہ ہیں؟ لوگوں نے بیک زبان ہوکر کہا ہاں، سیّد خان نے کہا یہ اعتراض غیر سیّد پر تو ہوسکتا ہے لیکن سیّد زادے پر درست نہیں ؛کیونکہ اپنے ماں باپ کی تعریف میں مبالغہ جائز ہے، علماء نے اس بات کی سند مانگی تو سیّد خان نے جامع العلوم کا حوالہ دیا کہ :۔
”النّاس ابناءُ الوالدین ولا یلام الرجل علیٰ حب ابویہ ومدحھما“

لوگ اپنے ماں باپ کی اولاد ہیں، اور باپ کی محبت اور ان کی مدح سے کوئی شخص قابل ملامت نہیں


یہ دلیل سن کر سب کے سب خاموش ہوگئے اور نادم ہوکرمعذرت کرنے لگے، حضرت نے مولانا سید خان اور جو علماء ان کے ساتھ تھے ان کے لیے اور ان کی اولادوں کے لیے دعائے خیر فرمائی۔

ظفرآباد

آپ محمد آباد گہنہ سے ظفرآباد تشریف لائے، اور یہاں مسجد ظفر خاں میں قیام فرمایا، غیاث الدین تغلق کے بیٹے ظفر خاں نے اس علاقے کو ۷۴۱؁ھ میں فتح کیااور اس کا نام ظفرآباد رکھا، اور ظفرآباد کو اس علاقہ کے صدر مقام بنایا، یہ مسجد ظفر خاں نے بنوائی تھی ، سامانِ سفر اتارا گیا، گھوڑے اور سارے جانور مسجد کے صحن میں باندھ دئے گئے۔
شہر کے لوگ محوِ حیرت تھے کہ یہ عجیب درویش ہے کہ عالم ہونے کے باوجود احترام مسجد کا ذرا بھی خیال نہیں، جانور بھی مسجد میں باندھ رکھے ہیں، چنانچہ کچھ لوگ بسلسلۂ اعتراض حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، ابھی کچھ بولنے کی جرأت بھی انھیں نہیں ہوئی تھی کہ ایک جانور نے حضرت کی طرف اشارہ کیا، آپ نے خادم کو حکم دیا کہ اسے مسجد سے باہر لے جاؤ پیشاب کرے گا، تھوڑی دیر کے بعد ایک گدھا ہنہنایاحکم دیا اسے باہر لے جاؤ لید کرے گا، اس کے بعد آنے والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاکہ کثافت اور غلاظت کے خوف سے جانور ں کا مسجد میں ماندھنا ممنوع ہے، اور میرے جانور مسجد میں کثافت اور غلاظت نہیں کرسکتے، ویسے آدابِ مسجد کا تقاضہ یہی ہے کہ جانوروںکو مسجد کے اندر نہ باندھا جائے؛ لیکن چونکہ ہم لوگ مسافر ہیں اور ہم لوگ ان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کرسکتے، اس لیے بدرجۂ مجبوری ان جانوروں کو صحنِ مسجد میں باندھ رکھا ہے، وہ لوگ آپ کے جواب سے مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔
ظفرآباد آپ نے چند دن قیام فرمایا، دورانِ قیام ایک دن کچھ مسخروں نے آپ کا مذاق اڑاناچاہااور پروگرام بنایا کہ زندہ شخص کا فرضی جنازہ بنایا جائے اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر نماز جنازہ پڑھانے کی استدعا کیجائے، جب حضرت نماز جنازہ پڑھانا شروع کریں تو وہ شخص قہقہہ مار کر اٹھ کھڑا ہو تو ان کی ساری درویشی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا، چنانچہ یہ لوگ اس فرضی جنازہ کو کاندھے پہ اٹھائے ہوئے روتے بلبلاتے حضرت کی خدمت میں پہونچے، اس وقت حضرت نماز اشراق ادا کرکے بیٹھے تھے، لوگوں نے آپ سے نماز جنازہ پڑھانے کے لیے اصرار کیا، حضر ت نے ہر چند کہا کہ کسی اور سے پڑھوالو، میں مسافر ہوں؛لیکن لوگ بضد ہوگئے، آپ نے فرمایا یہ شخص واقعی مردہ ہے؟سب نے یک زبان ہو کر کہا حضور کہیں زندوں کی بھی نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے؟ حضرت نے اپنے اصحاب میں سے ایک کو حکم دیا کہ ایک شخص مرگیا ہے، یہ لوگ اس کا جنازہ لے کر آئے ہیں ان کی اجازت لے کر نماز پڑھا دو، انھوںنے تین بار اجازت لی اور اس کے نماز جنازہ کی تکبیر کہی، ادھر پہلی تکبیر ہوئی ادھر اس مسخرے کی روح پرواز کرگئی، اس کے سارے ساتھی جو نماز جنازہ میں شریک تھے منتظرہیں کہ اب قہقہہ لگا کر اٹھتا ہے اور اب اٹھتا ہے تاکہ مذاق ہو، لیکن جب انتظار کرتے کرتے نماز جنازہ ختم ہوگئی اور وہ نہیں اٹھا تو لوگ بے چین ہوکراس کے قریب پہونچے اور دیکھا تو وہ واقعی مرچکا تھا اور یہ مذاق حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ سارے مسخرےحیرت وبدحواسی اور رنج وغم کے عالم میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے، اور ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے، حضرت کے اصحاب میں سے ایک نے کہا کہ اب اس لاش کو لیجاؤ اور سپردِ خاک کردو، بجلی کی سرعت کے ساتھ یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی، اور ہر گھر میں آپ کی کرامت کا تذکرہ ہونے لگا، اور ہر دل میں آپ کی زیارت کا اشتیاق پید اہوگیا، اور مسجد کے اندر لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہونے لگا۔

حضرت شیخ حاجی صدراالدین چراغِ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ

اس وقت ظفرآباد میں سلسۂ سہروردیہ کے مشہور صاحب ولایت بزرگ حضرت شیخ حاجی صدرالدین چراغ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ تھے،وہ اپنے ماموں زاد بھائی حضرت شیخ ابوالفتح رکن الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللّٰه علیہ کے مرید تھے، جو حضرت شیخ بہاء الدین رحمتہ اللّٰه علیہ کے خلیفہ تھے، علوم ظاہری اور باطنی سے آراستہ ہونے کے علاوہ حافظ قرآن بھی تھے، سات بار پا پیادہ حج بیت اللہ فرمایا، ہمیشہ حالتِ جذب واستغراق میںرہتے تھے، خرقۂ خلافت سے نوازے جانے کے بعد ولایت ظفرآباد ان کے سپرد ہوئی، اور وہاں ان کا فیض جاری ہوا، حضرت سید اشرف کی یہ شہرت اور مقبولیت حاجی چراغِ ہند کو ناگوار گذری۔

حضرت شیخ کبیر رحمتہ اللّٰه علیہ

حضرت غوث العالم کے ظفرآباد تشریف آوری سے پہلے سرہرپور کے ایک نوجوان عالم دین جن کا نام شیخ کبیر تھا، تکمیل علومِ دینیہ کے بعد انھیں سلوک وارادت کا شوق پیدا ہوا، اور مرشد کی جستجو ہوئی شیخ کبیر نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ ایک درویش جن کا قد میانہ ، داڑھی سرخ اور چہرہ بڑا نورانی ہےتشریف لائے ہیں اور مجھے مرید کیا ہے، اور شربت ونان کھانے کو دیا ہے، صبح بیدار ہوئے تو اس دیار کے صاحب ولایت حضرت حاجی صدرالدین چراغِ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ کیخدمت میں حاضر ہوئے، لیکن دیکھا کہ جو صورت میں میں نے خواب میں دیکھا وہ نہیں ہے تو واپس ہوگئے، اسی درمیان حضرت غوث العالم کی ولایت کی دھوم پورے شہر میں مچی ہوئی تھی، پتہ لگایا تو معلوم ہواکہ حضرت ظفر خاں مسجد میں تشریف فرما ہیں، حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، صورت دیکھتے ہی پہچان گئے، اور فوراً قدموں پر گر پڑے، اور اسی وقت بیعت کی درخواست کی، حضرت نے اپنے حلقۂ ارادت میں داخل فرمایا، اور اپنے ہاتھ سے نان وشربت عنایت فرمایا، اصحاب نے مصافحہ ومعانقہ کیااور ہر ایک نے مبارکباد دی -o
شرف چوں یافت از راہِ ارادت
ہمہ یاراں مبارکباد کردند
ترجمہ: جب حضرت شیخ کبیر رحمتہ اللّٰه علیہ حضرت غوث العالم کی ارادت سے شرف یاب ہوئے تو تمام اصحاب نے مبارکباد دی۔
شیخ کبیر کے مرید ہونے کی اطلاع حاجی صدرالدین چراغِ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ کو ہوئی تو بتقاضۂ بشریت بہت ناراض ہوئے ، اور اس خفگی کی حالت میں زبان مبارک سے نکلا کہ ”کبیر جوان مرے“ جب حضرت شیخ کبیر اور حضرت غوث العالم کو حاجی چراغِ ہند کی اس بددعا اور خفگی کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ فرزند کبیر! غم نہ کرو، کبیر بوڑھا ہوکر مرے گا، اور اس بددعا کو واپس کردو کہ جو بددعا میرے حق میں کی ہے ویسی ہی ان پر پڑے، اور وہ مجھ سے پہلے مریں، اس واقعہ کے پچیس سال بعد شیخ کبیر پر پیری کے آثار ظاہر ہونے لگے، بال سفید ہوگئے، اور جوانی میں بوڑھے ہوگئے، اور وصال فرماگئے، اور حضرت شیخ صدرالدین چراغِ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ کی شمع ولایت شیخ کبیر کے وصال سے پانچ سال پہلے ہی گُل ہوگئی۔

 

ایک دن حضرت مسجد میں تشریف فرما تھے، حاجتمند، عقیدتمنداور اصحاب آپ کے گرد جمع تھے، اچانک مسجد میں غیر معمولی گرمی ہونے لگی، لوگوں نے تھوڑی دیر ضبط کیا ؛لیکن جب گرمی برداشت سے زیادہ ہوگئی تو لوگ ایک ایک کرکے اٹھنے لگے، یہاں تک کہ ساری بھیڑ ختم ہوگئی، اورمسجد خالی ہوگئی، حضرت غوث العالم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ حاجی چراغِ ہند کے چراغ کی گرمی ہے، اس کو ٹھنڈا کرنا چاہیے، پانی کی چھاگل حضرت کے قریب ہی رکھی تھی، خادم کو حکم دیا کہ اس میں سے تھوڑا سا پانی لے کر مسجد میں چھڑک دوتو چراغ کی گرمی ختم ہوجائے گی، جس وقت حضرت کے خادم نے مسجد میں پانی گرایااس وقت حضرت حاجی چراغِ ہند غسل فرمارہے تھے، پانی چھڑکنے سے یہاں کی گرمی تو دور ہوگئی وہاں حاجی چراغِ ہند کا جسم ٹیڑھا ہوگیا، اور مفلوج ہوگئے، اپنے سلسلے کے بزرگوں کے وسیلے سے بارگاہِ رسالت میں دعا کی درخواست کی ، سرکار نے ارشاد فرمایا کہ اشرف کو چھیڑنا مناسب نہ تھا، وہ مہمان تھا اور کچھ بھی نہ تھا، تو بھی وہ ہمارا فرزند تھا، جاؤ! اشرف سے معذرت کرو، چنانچہ حاجی چراغِ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ حضرت غوث العالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت کی، اور معذرت کے بعد دونوں بزرگوں کے دل صاف ہوگئے اور حضرت غوث العالم کے مقام کی خبر ہونے کے بعد ساری رنجش صفائی قلب سے بدل گئی، دونوں بزرگ ایک دوسرے کے یہاں گئے اور نام ونمک درویشانہ تناول فرمایا۔

چور ولی ہوگئے

ایک دن حضرت شیخ صدرالدین چراغِ ہند رحمتہ اللّٰه علیہ آپ کے پاس بیٹھے تھےاتنے میں چوروں کی ایک جماعت آئی اور حضرت سے مرید ہونے کی خواہش ظاہر کی، حضرت نے حاجی چراغِ ہند سے فرمایا کہ ان لوگوں کو مرید کرلیں، حاجی صاحب نے فرمایا بیعت کا مقصد توبہ کرنا ہے اور یہ لوگ توبہ نہیں کرتے تو انھیں کیسے مرید کیا جائے؟حضرت نے فرمایا کہ ہم کسی سائل کو محروم نہیں کرسکتے ، میں ان کو مرید کرتا ہوں، چنانچہ اس گروہ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا جیسے ہی حضرت کے ہاتھ سے ان کا ہاتھ مس ہوا وہ چور لرزنے لگے اور بے اختیار توبہ واستغفار کرنے لگے،ا س طرح سارے چور ایک ایک کر کے تائب ہوگئے، جب سب نے چوری سے توبہ کرلیا تو حضرت نے سب کو مرید کرلیا، بیعت کی برکت سے انھیں سلوک کی توفیق ہوئی، اولیاء اللہ کے زمرے میں شامل ہوگئے، حضرت اکثر فرمایا کرتے تھے میں اس وقت تک کسی کو مرید نہیں کرتا جب تک کہ لوح محفوظ میں اس کا نام اپنی مریدین مغفورین کی فہرست میں نہیں دیکھ لیتا۔

سیر وسیاحت واکتِسابات

حضرت غوث العالم کی زندگی کا زیادہ حصہ سیر وسیاحت میں گذرا، جس میں آپ نے ممالک اسلامیہ، مقامات مقدسہ اور ہندوستان کے مختلف حصوں کی سیر فرمائی، بعض سفر کے بعد روح آباد تشریف لائے، اور بعض کے بعد اپنے پیر روشن ضمیر کی خدمت عالیہ میں پنڈوہ شریف حاضر ہوئے، اس سیر وسیاحت میں آپ نے دنیا کے عجائب وغرائب کا مشاہدہ فرمایا، آپ نے بعض ایسے مقامات کی سیر فرمائی جن کا علم اس وقت تک علمائے جغرافیہ کو نہیں ہوا، اس سیر وسیاحت میں آپ نے بیشمار علمائے کرام، مشائخ عظام اور صوفیائے ذوی الاحترام سے ملاقاتیں کیں، اور ان سے خرقہ جات وتبرکات اور نعمتیں حاصل کیں، اور آپ کو جملہ سلاسل اولیائے کرام میں شرف بیعت نصیب ہوا، اور نعمت خلافت واجازت عطا ہوئی، اگر چہ اصل بیعت سلسلۂ چشتیہ بہشتیہ میں تھی، ”لطائف اشرفی“ میں ابتدائی حالات کے علاوہ آپ کے سیروسیاحت اور ان میں پیش آمدہ واقعات اور حالاتِ زندگی کا تذکرہ اس اندازسے کیا گیا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون واقعہ کب اور کس سفر میں پیش آیا؟ جس کی وجہ سے ان واقعات کو صحیح ترتیب کے ساتھ لکھنا بڑاشکل کام ہے۔

سفر عراق

حضرت غوث العالم بحری راستے سے بصرہ پہونچے اور یہاں آپ نے حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اور بعض صحابہ واکابرین کے مزارات مقدسہ پر حاضری دی، اور یہاں سے کربلائے معلّٰی اپنے جد کریم سیدنا امام حسین علیہ السلام کے روضۂ مبارک پر تشریف لے گئے، پھر نجف شرط اور کاظمین شریف حاضری دیتے ہوئے بغداد شریف کے لیے روانہ ہوگئے، بغداد شریف پہونچ کر آپ نے حضور غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شیخ معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے بزرگوں کے مزارات مقدسہ پر حاضری دی اور فیض حاصل فرمایا۔

یہاں آپ نے جامع مسجد بغداد میں قیام فرمایا، ایک دن مسجد میں محفل وعظ منعقد ہوئی، تقریباً پانچ ہزار کا بڑا مجمع تھا، خلیفۂ وقت خود بھی محفل میں موجود تھا، محفل تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی، قاری نے سورۂ یوسف کی تلاوت کی، حضرت سے تقریر کے لیے اصرار کیاگیا، حضرت غوث العالم نے اسی سورہ کی آیت کریمہ ”لَوْلَا أَنْ رَأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِہٖ“ پر تقریر فرمائی، لوگ بے پناہ متأثر ہوئے، ایک بزرگ قطب دمشقی بھی محفل میں موجود تھے، انھوں نے کہا کہ ”اس وقت میری عمر سوسال ہے، اور میں بڑے بڑے واعظان خوش بیان کی محفلوں میں شریک ہوا ہوں؛لیکن ایسی مؤثر تقریر سننے کو نہیں ملی۔

خلیفہ بھی بہت متأثر تھا، ایک ہزار اشرفی اور ایک گھوڑا آپ کی نذر بھیجا، آپ نے اسے قبول نہیں کیا، دوسرے دن خلیفہ خود آیا اور بہت اصرار کیا تو حضرت نے قبول فرمایا۔

سیّد عبدالرزاق نورُالعین رحمتہ اللہ علیہ

آپ اسی سفر میں جیلان تشریف لے گئے، اور وہاں اپنے ایک عزیز سیّد حسن عبدالغفور رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کی، جو حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے نسل اور خاندان سے تھے۔اور حضرت غوث العالم کی خالہ زاد بہن ان کے نکاح میں تھیں، وہاں کے سادات بڑے حسنِ عقیدت سے پیش آئے، کچھ مدت آپ نے وہاں قیام فرمایا، حضرت سید حسن عبدالغفور کے بلند اقبال صاحبزادے سید عبدالرزاق سے وہیں ملاقات ہوئی، اس وقت سید عبدالرزاق کی عمر بارہ سال کی تھی۔

حضرت غوث العالم کو دیکھتے ہی صاحبزادے کو حضرت سے اس قدر وابستگی ہوگئی کہ ہمہ وقت حاضر خدمت رہنے لگے، حضرت غوث العالم بھی ان کی اس سعادت مندی سے بہت متأثر ہوئے، اور ان پر اپنی خاص نظر عنایت فرمائی اور ایسا اپنا بنالیا کہ آپ کے والد بزرگوار اور اہلِ خاندان نے بہت سمجھایا؛ لیکن کچھ اثر نہ ہوا، آپ نے والدین سے جدائی گوارا کرلی؛ لیکن حضرت غوث العالم سے جدا ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے، جب سید عبدالغفور نے حضرت کی طرف اس قدر میلان دیکھا تو صاحبزادے کو خود حضرت کی خدمت میں لائے اور کہا کہ میں اس لڑکے کو اللہ کے واسطے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور حقوق معاف کرتا ہوں، ماں نے بھی اپنے جگر گوشہ کو بہ خلوص حضرت کی نذر کردیا، والدین ے اصرار پر حضرت نے بخوشی صاحبزادے کو اپنے فرزندی میں قبول کیا،اور پرانی قرابت کو تازہ کردیا، حضرت غوث العالم آپ کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”دوسروں کو ان کی پشت سے اولادیں ہوتی ہیں اور میں نے عبدالرزاق کو براہ چشم جنا ہے“

حضرت کی اس تربیت اور فیض صحبت سے صاحبزادے نے ”نورالعین“ کا خطاب پایا، حضرت آپ کو اپنے ہمراہ سمنان لے گئے، وہاں اپنی بہن خدیجہ بیگم کا دودھ پلوایا تاکہ نسبت ظاہری بھی ہوجائے، خدیجہ بیگم نے فرمایا کہ اس لڑکے کو دیکھنے سے میرے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے، اور بوئے یگانگت آتی ہے، آپ نے فرمایا یہ لڑکا میرا بھانجہ ہے، اور ضاندانِ غوث الاعظم سیّد محی الدین عبدالقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے ہے، یہ کلمات سن کر خدیجہ بیگم خوش ہوئیں، اور حضرت نورالعین کو اپنی گود میں لے لیا، اور مبارکباد دی، اور فرمایایہ ہمارا فرزند ہے، حضرت انھیں اپنے ہمراہ روح آباد لائے اور سفر حضر میں ان کو اپنے ہمراہ رکھتے تھے، سیّد عبدالرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی، اور حضرت غوث العالم کی وفات کے بعد چالیس سال سجادہ نشیں رہے، حضرت غوث العالم نے فرمایا کہ میں نے عبدالرزاق اور ان کے فرزندوں کو خزانۂ الٰہی سے حصہ دلایا ہے، اور بارگاہِ خدا میں دعا کی ہے کہ اگر عبدالرزاق کی اولاد قانع رہیں تو کسی کی محتاج نہ ہوں، ان کی تھوڑی فکر وتوجہ پر ہمت مرداں مدد خدا ان کے کام آئے گی، فرزاندانِ نورالعین عزیزالوجود ہوں گے، اگر مخلوق کے دروازے پر جائیں گے تو خوار ہوں گے، آپ نے فرمایا کہ میں کسی مخلوق کا اتنا احسان مند نہیں بنا جتنا نورالعین کا، انھوں نے میری ایسی خدمت کی ہے کہ کسی سے ممکن نہیں، انھوں نے تنہا سات برس تک میرے وضو کا بچاہواپانی پیا ہے، اور میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ اس آبِ حیات کی تاثیر وبرکات ان میں اور ان کی اولاد میں قیامت تک باقی رہے، ”لطائف اشرفی“ اور مکتوباتِ اشرفی“ میں متعدد مقامات پر غوث العالم کا ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو کچھ نعمتیں اور فیوض وبرکات مجھ کو حاصل ہوئے وہ سب میں نے نورالعین کو عطا فرمایا۔
 
ایک مکتوب جو آپ نے نورالعین کے نام لکھا ہے یہ دعا فرمائی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ تم کو درجۂ اشرفیت عطا کرے“ اور اس سے زیادہ مرتبہ نورالعین کا اور کیا ہوسکتا ہے کہ آپ خود اشرف ثانی ہوئے، اور فی الحقیقت آپ حضرت غوث العالم کے ذاتاً وصفاتاً مظہر اتم تھے۔

سفر دمشق

عراق سے روانہ ہونے کے بعد دمشق پہونچے، اور وہاں جامع مسجد دمشق میں آپ نے قیام فرمایا، رمضان شریف کا مبارک مہینہ آگیا، ماہ رمضان المبارک آپ نے وہیں گذارا، آپ جامع مسجد میں امامت بھی فرماتے رہے، یہاں نماز تراویح میں بڑا ہجوم ہوتا تھا، شہر کے بڑے بڑے علماء، فضلاء، صلحاء اور صوفیاء گوشے گوشے سے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے لئے آتے تھے، کبھی کبھی ایک ہی شب میں پورا قرآن ختم فرمادیتے تھے، عام لوگ اتنی طویل نماز سے تھک جاتے تھے؛ لیکن تقریباً ایک سو عابد، زاہد، اہل اللہ اور اہلِ کمال آپ کی اقتداء میں تراویح پڑھتے اور اس قیام کو اپنی معراج سمجھتے اور کہتے کہ جس نے امام متقی کی اقتداء میں نماز ادا کی تو اس نے گویا نبی کے پیچھے نمازپڑھی، آپ نے اسی مسجد میں اعتکاف بھی فرمایا، یہاں رمضان المبارک کا عشرۂ آخر آپ کا عجیب عالم میں گذرا کہ خود آپ کو اپنا ہوش نہ رہا، جب عید کا چاند نکلا اور ہر طرف خوشیوں اور مسرتوں کی ہنگامہ آرائی ہوئی تو آپ عالم ہوش میں آئے اور فرمایا کہ رمضان المبارک کی ۲۰/ تاریخ سے مجھے ہوش نہ تھا، معلوم نہیں کہ اس درمیان نماز پڑھی یا نہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ نماز کے کوئی آداب تک نہیں چھوٹے ہیں، آپ نے فرمایا الحمدللہ! میرا یہ وقت شیخ اکبر کی طرح ہے، جیسا کہ انھوں نے ”فتوحات مکیہ“ کے باب چالیس میں لکھاہے کہ ”ایک وقت ان پر ایسا گذرا تھا کہ وہ نماز پڑھتے تھے، امامت کرتے تھے، مگر ہوش نہ تھا۔>شد

اس مسجد میں ایک دن کچھ صوفی صفت لوگ آئے، اور اصطلاحاتِ صوفیہ وکلمات کے معنٰی ومفہوم پر بحث شروع کردی، جس کا مقصد کچھ سمجھنا نہیں؛ بلکہ اپنی قابلیت کا اظہار تھا، حضرت نے ان کو تسلّی بخش جوابات دئے اور فرمایا اے عزیزو! الفاظ توحید سے دھوکے میں مت پڑو، محض الفاظ کے جاننے سے توحید کا ادراک نہیں ہوسکتا، جب تک علائق زمانہ سے باہر نہ نکلو اور ریاضت شاقہ اور عبادت پسندیدہ سے مہذب نہ بنو، صرف الفاظ سے کھیلنے سے کوئی فائدہ نہیں؛ بلکہ وہ صفات اپنے اندر پیدا کرو تب معلوم ہوگا وحدت کیا چیز ہے؎

کار کن کار بگذار از گفتار

کاندریں راہ کار دارد کار

گفتگو چھوڑ کر عمل کرو اس لیے کہ راہِ معرفت میں عمل کی ضرورت ہے۔

حرمین شریفین

اس کے بعد حضرت غوث العالم مدینہ منورہ تشریف لے گئے، اور بارگاہِ رسول ﷺ میں حاضری دی، اور ایسا بیمار ہوئے کہ لوگ آپ کی زندگی سے مایوس ہوگئے، بیماری کا یہ سلسلہ بیس دن تک جاری رہایہاں تک کہ اکیسویں شب بوقت سحر حضور سید عالم ﷺ کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی اور بشارت ہوئی کہ فرزند اشرف! غم نہ کروتمہاری عمر بہت باقی ہے، ابھی تمہیں اشاعت اسلام اور معرفت الٰہی کاکام انجام دیناہے، جس سے عوام وخواص سبھی فیضیاب ہوں گے، اس بشارت کے بعد ہی آثار صحت ظاہر ہونے لگے اور چند دنوں میں آپ مکمل صحتیاب ہوگئے، اور برابر مواجہہ اقدس میں حاضری دیتے رہے، یہاں تک کہ موسم حج آگیا تو مکۃ المکرمہ تشریف لائے، یہاں امام عبداللہ یافعی سے آپ کی ملاقات ہوئی۔

امام عبداللہ یافعی رحمتہ اللہ علیہ

صاحب خوارق وکرامات، جامع علوم ظاہری وباطنی تھے، اپنی پوری زندگی حرمین شریفین میں گذاردی، غوث العالم کاخرقہ صرف چند واسطوں سے آپ کو ملاتھا، آپ کی گرانقدر تصانیف میں ”روضۃ الریاحین“ اور ”مرأۃ الجنان“ بہت مشہور ہیں، تاریخ وفات ۷۵۰؁ھ ہے، حضرت غوث العالم فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد ایک مدت آپ کی خدمت میں رہے، اور علوم ومعارف، لطائف وظرائف سے پورا فائدہ حاصل فرمایا۔

حضرتْ سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ

یہاں حضرت سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی،، یہ حضرت شیخ شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے، پیر کے حکم سے پوری دنیا کی سیر فرمائی تھی، اور چودہ سو اولیائے کرام سے استفادہ کیا، علوم ظاہری وباطنی کے سرچشمہ تھے، مکہ معظمہ میں اقامت کے وقت حضرت غوث العالم ان کے ہمسفر ہوئے، دور دراز مقامات کی سیاحت فرمائی، اور عجائب وغرائب عالم کا مشاہدہ فرمایا،اور دیگر علوم وفنون سیکھے، حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ میں نے ان کی صحبت سے اتنا فائدہ حاصل کیا جو بیان نہیں کرسکتا، گویا وپ* آفتاب تھے، اور میں ایک ذرّٗہ تھا، ایک مرتبہ حضرت کو اپنے ہمراہ مدینۃ الاولیاء لے گئے، جہاں چار اولیائے کرام ایک مجلس میں موجود تھے، حضرت سید علی ہمدانی نے فرمایا ان بزرگوں کے حالات وواقعات بیان کرو!* پروردگارِ عالم نے سارے حالات مجھ پر منکشف فرمادئے، اور میں نے من وعن سارے بیان فرمادئے جو بعد کو بالکل صحیح ثابت ہوئے۔

مِصرْ

اس کے بعد وہاں سے حضرت غوث العالم کو ”جبل الفتح“ بھی تشریف لے گئے جو ملک مصر میں واقع ہے، یہ وہ مقام ہے کہ جس صوفی کو راہِ سلوک میں کامیابی نہ ملے وہ یہاں اعتکاف کرے تو کامیاب ہوجائے، اور اس پر راہِ سلوک کے دروازے کھل جائیں، وہاں آپ نے درویشوں کی ایک ایسی جماعت دیکھی جو تیس سال توکل علی اللہ پر زندگی گذار رہی تھی، یہاں پہاڑ کے دامن میں حضرت غوث العالم نے بھی چلّہ کیا، اور چالیس دن تک عبادت وریاضت میں مصروف رہے، جب مدت پوری ہوئی تو درویشوں کی جماعت ملاقات کے لیے آئی جن میں اس وقت کے ”غوث زمانہ“ بھی موجود تھے، سب نے آپ کو بشارتیں دیں، ان میں حضرت شیخ ابوالغیث یمنی بھی تھے، انھوں نے آپ کو ایک پتھر دیا، جو اس قدر صاف وشفاف تھا کہ جواہر پارہ معلوم ہوتا تھا، اس پتھر کی یہ خصوصیت تھی کہ مسافر اس کو پیر میں باندھے تو تکانِ سفر کا اثر نہ ہو، اور بھوک اور پیاس کے وقت منھ میں رکھے تو بھوک اور پیاس دور ہوجائے۔

اس پہاڑ پر تین بزرگ صائم الدھر* رہتے تھے، جن کے افطار کے لیے غیب سے دس روٹی، ایک پیالہ شربت آتا تھا، اگر کوئی مہمان آتا تو اسے بھی اس میں شریک کرلیتے تھے، ان میں سے ایک بزرگ نے حضرت سے ملاقات کیا اور بشارتیں دیں۔

یمن

آپ مِصرْ سے یمن تشریف لائے، اور ایک مسجد میں قیام فرمایا، یہاں ایک مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالغیث یمنی رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کی ملاقات ہوئی، اس سے پہلے جبل الفتح میں آپ کی ملاقات ہوچکی تھی، انھوں نے آپ کو ایک پتھربھی دیاتھا۔

حضرَتْ شیخ اَبُوالغَیثْ یمنی رحمتہ اللہ علیہ

یہ وہ بزرگ ہیں جو نوجوانی کے زمانے میں ڈاکو تھے، ایک دن قافلے کی گھات میں بیٹھے تھے کہ اچانک غیب سے ایک آواز آئی کہ ”اے شخص تیری آنکھ قافلے کو دیکھ رہی ہے اور دوسرے کی آنکھ تجھے دیکھ رہی ہے“اس آواز غیبی نے آپ کے دل کی دنیا ہی بدل دی، آپ اسی وقت تائب ہوگئے، حضرت شیخ ابن الفلح یمنی کے مرید ہوئے، تزکیہ نفس اور صفائی قلب کے بعد صاحب کشف وکرامت بزرگ ہوگئے، اور اجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے۔

حضرت شیخ ابوالغیث یمنی ایک دن اپنا خچر جنگل میں چھوڑ کر لکڑیاں جمع کرنے لگے، ادھر ایک شیر نے آپ کے خچر کو پھاڑ ڈالا، آپ لکڑی لے کر آئے تو خچر کو مُردہ پایا، شیر سے بولے تو نے میرے خچر کو مارڈالا، خدا کی قسم میں اب لکڑی کے اس گٹھے کو تیری پیٹھ پر لاد کر لے جاؤں گا، چنانچہ لکڑی کے گٹھی کو شیر کی پیٹھ پر لادکر شہر کے قریب لائے، اور آبادی سے باہر گٹھا اس کی پیٹھ سے اتارا اور شیر سے کہا اب جا جہاں تیرا جی چاہے چلا جا۔

انھیں کا ایک عجیب وغریب واقعہ مشہور ہے کہ ایک دن درویشوں نے گوشت کھانے کی خواہش ظاہر کیا، آپ نے فرمایا فلاں دن کھانا، جب وہ دن آیا تو ایک ڈاکو شیخ کے لیے ایک گائے لے کر آیا، آپ نے درویشوں سے فرمایا اس گائے کو ذبح کرو اور پکاؤ! مگر اس کا سر محفوظ رکھو! تھوڑی دیر میں ایک اور ڈاکو آیا اور اپنی ہمراہ ایک بورا گیہوں کا لایا، شیخ نے فرمایا فوراً آٹا پساؤ!اور روٹی تیار کرو! جب کھانا تیار ہوگیا تو شیخ نے درویشوں کو کھانے کا حکم دیا، ان درویشوں میں بعض عالم اور فقیہہ بھی تھے، دسترخوان پر نہیں آئے، شیخ نے درویشوں سے فرمایا تم کھاؤ! فقہاء حرام نہیں کھاتے، درویشوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھاناکھایا، اسی وقت ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ حضرت! میں ایک گائے آپ کی خدمت میں نذر پیش کرنے کے لئے لارہا تھا، راستے میں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا، شیخ نے فرمایا کہ گائے کا سر جو کہ محفوظ رکھاہے اسے اس شخص کو دکھاؤ! دکھایا گیا تو اس نے دیکھتے ہی کہا یہ میری ہی گائے کا سر ہے، اتنے میں ایک دوسرا شخص حاضر ہوا اور بولاکہ سرکار! میں ایک بورا گیہوں آپ کی نذر پیش کرنے کے لئے لارہا تھا راستے میں ڈاکوؤں نے چھین لیا، آپ نے جواب دیا کہ درویشوں کی نذر درویشوں کو مل گئی، اس مشاہدے سے علماء حیران رہ گئے۔
ایک دن جناب حضرت ابوالغیث یمنی رحمتہ اللہ علیہ شب برأت کی صبح حضرت غوث العالم کی خدمت میں آئے اور فرمایا کہ امسال یمن پر مصائب اور بلیّات بہت ہیں جو عوام کی قوتِ برداشت سے باہرہے، حضرت غوث العالم نے فرمایا مجھے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے، شیخ نے فرمایا آؤ ہم دونوں اس کو اٹھا لیں! تاکہ عوام کو سکون واطمینان مل جائے، چنانچہ پوری رات دونوں بزرگ مصروف عبادت رہے اور سارے مصائب و بلیّات اپنے اوپر اوڑھ لیں، صبح ہوئی تو دونوں بزرگ کے چہرے زرد اور آنکھیں سُرخ تھیں، اور کمزوری کا یہ عالم تھا کہ اپنی جگہ سے جنبش کرنا مشکل تھا، لیکن یمن اس تباہی اور بربادی سے بچ گیا۔

حضرت نظام الدین یمنی رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت غوث العالم کے مرید اور خلیفۂ خاص تھے، اسی جگہ حضرت کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوئے اور اس کے بعد حضرت کی ذات پاک سے انھیں اس قدر والہانہ وارفتگی ہوگئی کہ ساری عمر جدا نہ ہوئے، آپ نے اپنی پوری زندگی حضرت کی خدمت میں وقف کردیا، آپ کو حضرت کا وہ قُرب حاصل ہوا کہ جو نورالعین کے علاوہ کسی کو نہیں حاصل تھا، غالباً ۷۵۰؁ھ یا ۷۶۴؁ھ کے درمیان حضرت سے مرید ہوئے اورتیس سال تک سفروحضر میں حضرت کے ہمراہ رہے، آپ ایک اچھے ادیب اور بہترین شاعر بھی تھے، غرؔیب آپ کا تخلص تھا، آپ نے حضرت غوث العالم کے سوانح حیات اور ملفوظات کو ترتیب دیا، اور اس کا نام ”لطائف اشرفی“ رکھا، یہ آپ کا وہ عظیم کارنامہ جس نے آپ کو زندۂ جاوید بنادیا۔

خدمات و تبلیغ دین اور اشاعت اسلام

حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دور کے اکابر علماء وفضلاء ومشائخ سے اکتساب فیض فرمایا اورجب ہرطرح سے کامل و مکمل ہوگئے تو خدمت خلق، تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کی جانب متوجہ ہوئے، اور اپنی زندگی اشاعت اسلام اور تبلیغ دین، عبادت وریاضت، | رشد و ہدایت، ارشاد و اصلاح، مخلوق خدا کی خدمت او تعلیم دین و اصلاح عقائد واعمال کے لیے وقف کردیا اور اپنے قول وعمل تقریروتحریر سے علماء وفضلاء، صوفیاء و مشائخ، امراء، فقراء، سلاطین زمانہ و طالبان معرفت وسلوک اور عوام الناس ہرایک کی اصلاح فرمائی، اورعلم وعمل، تفکروتدبر، توحید وایمان، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، رزق حلال کی اہمیت و فضیلت اور اتباع شرلیت پر بہت زور دیا۔>شد
اجو دھیا اور کاشی کے درمیان روح آباد رسول پور درگاہ کو آپ نے اپنا مرکز بنایا، ہزارہاغیرمسلموں کو داخل اسلام فرمایا اور اس پورے علاقے کو اپنی روحانی تعلیمات سے جگمگا دیا۔ آپ کی زندگی کا بیشترحصہ ہندوستان کے مختلف حصوں اورممالک اسلامیہ میں اصلاحی اور تبلیغی سرگرمیوںمیں گزرا، تمام لوگوں کو آپ نے دینی خدمات سے فیضیاب فرمایا اور بے شمار لوگوں کو دولت دین و ایمان سے مالامال فرمایا۔ جن میں اکثر وبیشتر کو درجۂ کمال تک پہنچاکر اجازت و خلافت سے سرفراز کیا اورانھیں وہاں کی تبلیغ و اصلاح اور شدو ہدایت کی ذمہ داری بھی سپرد کردی اور اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف حصوں اور دوسرے ممالک میں اپنے تربیت یافتہ صاحب کمال خلفاء کو صاحب ولایت بنابنا کر ہر طرف بھیجا، آپ کے خلفاء نے اسلام کی بڑی خدمت کی، مذہبی اور روحانی اثرات پیداکیے، اوراسلامی تعليمات پھیلائی۔

ہندوستانْ واپسی

معلوم ہوتا ہے کہ حضرت غوث العالم نے تین چار بارپنڈوہ کا سفر فرمایا۔ پہلاسفر سمنان سے بیعت کے لئے تھا۔ جب تقریباً چھ سال خانقاہ میں قیام فرمایا،اور دوسرا سفرممالک اسلامیہ اورحرمین شریفین کی واپسی پر ہوا۔ اس باربھی تین چار سال تک مرشد کی خدمت میں رہے، پنڈوہ سے رخصت ہوتے وقت پیرومرشدنے بشارت دی کہ تم کو عنقریب مرتبۂ غوثیت ملنے والاہے۔ اس وقت محمد نور (اپنے مخدوم زادے) کے لیے قطبيت کی سفارش کرنا۔ اوراس مقام کی نشاندہی بھی فرمائی جہاں آپ کا ”روضۂ مقدسہ“ہے۔

منزل کی تلاش

آپ کو بنظرکشفی دکھلایاگیا کہ ایک گول تالاب ہے اورا س کے درمیان ایک نقطہ تِل کے برابرہے اور ارشاد ہوا کہ جس جگہ یہ تل ہے وہی تمہاری منزل خاک ہے۔ حضرت پنڈوہ شریف سے رخصت ہوکرجونپور پہونچے، اور اس جگہ کی تلاش شروع کردی جو آپ کو دکھائی گئی تھی، اوراپنے اصحاب کوساتھ لیکر اودھ کی سمت روانہ ہو ئے۔

موضع کرمینی

موضع کرمینی پہونچے، یہاں فرمو دۂ شیخ کے موافق زمین معلوم ہوئی، دوتین دن آپ نے یہاں قیام فرمایا۔ حضرت غوث العالم نے موضع کی سیر کیا اورحوض و تالاب سب دیکھا تومعلوم ہوا کہ یہ وہ مقام نہیں ہے تو آپ نے یہاں سے فوراً کوچ کا حکم دیا۔

حضرت ملک محمود رئیس موضع بدھڑ رحمتہ اللہ علیہ

کرمینی سے موضع بدھڑ آئے، آبادی کے باہرایک باغ تھا۔ اسی باغ میں قافلہ اترا۔ سب سے پہلے اس موضع کے ایک معزز اور با اثر رئیس کو جن کا نام ملک محمودتھا، حضرت کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت کو دیکھتے ہی آپ کے شیدائی ہو گئے۔ اور حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے، اس کے بعد ان کا پورا گھراور خاندان حضرت سے مرید ہوگیا۔ حضرت نے ان پربڑی شفقت فرما ئی اور انھیں ملک الامراء کے خطاب سے نوازا، اُن کا شمار حضرت غوث العالم کے اجلّۂ خلفاء | میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد قرب وجوار کے لوگ زیارت کے لیے ٹوٹ پڑے۔

دوپہر کو قیلولہ اور آرام کا وقت ہوا تو حضرت غوث العالم باغ کے ایک سایہ دار آم کے درخت کے نیچے محوِخواب ہوئے، آفتاب کے ڈھلنے کے وقت وہاں دھوپ آجاتی تھی؛ لیکن درخت کی شاخ آفتاب کے ساتھ چلتی رہی یہاں تک کہ پورب کی شاخ دوپہر ڈھلنے پر پچھم کی سمت ہوگی۔ اورحضرت غوث العالم سے درخت کا سایہ نہیں ہٹا۔

عبداللہ

 

نمازظہر سے فارغ ہو کر ملک محمود کے ہمراہ اپنے مرشد کے فرمودہ مقام کی تلاش میں نکلے اور فرمایا پیرومرشد نے مجھے یہاں قیام کا حکم دیا ہے، تمہاری کیا رائے ہے؟ یہاں کون سی جگہ ہمارے رہنے کے لیے مناسب ہے؟ ملک محمود نے عرض کیاکہ یہاںایک بڑی اچھی جگہ ہے، وہاں درپن ناتھ نام کا ایک جوگی اپنے پانچسو چیلوں کے ساتھ رہتاہے اور وہ بڑا جادوگربھی ہے۔ اگر اسے یہاں سے نکال دیا جائے تو بہت عمدہ جگہ ہاتھ آجائے۔ آپ نے آیت کریمہ پڑھی:۔
قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا
کہہ دیجیے کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کومٹناہی تھا۔
اور فرمایاکہ بس یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد کچھ ہمراہیوں اور ملک محمود کو لے کر اس مقام پر تشریف لے گئے وہ ایک ٹیلہ تھا۔ اوراس سے متصل ایک چھوٹا سا تالاب تھا۔”لطائف اشرفی“ میں اسے”گول“ کانام دیا گیا ہے۔ حضرت غوث العالم نے فرمایا بس یہی جگہ ہے، جس کی حضرت شیخ نے نشاندہی فرمائی ہے، جوگی کو جب آپ کا ارادہ معلوم ہوا تواس نے کہا کہ کوئی روحانی طاقت ہی ہمیں یہاں سے ہٹا سکتی ہے۔ ان کے علاوہ ہمیں یہاں سے کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ آپ نے اپنے ایک مرید جمال الدین کو جو اسی دن مرید ہوئے تھے۔ اپنی عصائے مبارک دیکر جوگی کے مقابلے کیلیے بھیجا، یہ مقامی تھے، جوگی سے بخوبی واقف تھے۔ ان پر خوف دہشت سے لرزہ طاری ہوگیا۔ حضرت نے انھیں اپنے پاس بلایا اورپان کی ایک گلوری چباکر اپنے دست مبارک سے اُن کے منھ میں ڈال دیا۔ پان کھاتے ہی لرزہ براندام جمال الدین اشرفی کچھارکے شیر ہو گئے۔ جمال الدین جوگی کے پاس گئے اور اس سے کہا اپنے چیلوں کے ساتھ اس مقام کو چھوڑ کسی دوسری طرف چلے جاؤ، اب یہاں اللہ کے ایک ولی غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی کا قیام ہو گا۔ جوگی نے کہا ”ہم بغیران کی روحانی طاقت آزمائے ہوئے یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتے“ جمال الدین نے کہا ہمارے صوفیاء اور درویش اپنی روحانی طاقت کا مظاہرہ اس طرح نہیں فرماتے۔ البتہ تم لوگ اگر روحانی طاقت دیکھنا چاہتے ہو تو تم میں جس قدردم خم ہے اپنے سارے جادو کا زورہم پرآزمالو، اورمقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ، تو تم خود ہی سمجھ جاؤ گے“ چنانچہ جوگی نے کچھ منتر پڑھے اور جمال الدین کی طرف پھونکا۔ ہرسمت سے کالی چیونٹیاں اُبل پڑیں، زمین سیاہ ہوگئی اور چیونٹیوں کایہ ریلاجمال الدین کی طرف بڑھا۔ جمال الدین نے حضرت کی طرف توجہ فرمائی اور بے ساختہ یہ شعر پڑھا؎
سلیمانے رسيدہ باچنیں زور
تو بکشائی بر وبر درلشکرِ مور
بود معلوم ہمت موریبے قیل
در ان وقتے کہ افتد در پے فیل
یعنی سلیمان علیہ السلام جب اس زور اور طاقت کے ساتھ پہونچے تو تو نے ان چیونٹیوں کے لشکر پرآشکارا کر دیا۔ اس وقت بے زبان | چیونٹی کی ہمت کاپتہ چلتا ہے، جب کہ وہ ہاتھی کے پیر کے نیچے پڑتی ہے۔
اس کے بعد جوگیوں نے اپنا دوسرا جاد وچھوڑا اورغضبناک شیروں کی فوج جمال الدین کی طرف دھاڑیں مارتی ہوئی بڑھی، جمال الدین نے شیروں پر ایک نگاہ پُر جلال ڈالی، سارے شیر میدان چھوڑ بھاگے، اب جوگی خود جمال الدین کے مقابلے کو آگیا اور اپنے سونٹے کو ہوا میں اڑایا، ادھر جمال الدین نے بھی عصائے مخدومی کو فضا میں چھوڑ دیا۔ عصائے مخدومی نے جوگی کے سونٹے کوٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین پر گرادیا۔ اپنا سارازور آزمانے کے بعدجوگی کے سمجھ میں بات آگئی اور کہاکہ مجھ کو حضرت کے پاس لے چلو، جمال الدین جوگی کاہاتھ پکڑ کر لائے اورحضرت کے قدموں پر ڈال دیا۔ جوگی قدم بوس ہوا۔ اور مشرف بہ اسلام ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت غوث العالم نے اسے کلمۂ شہادت پڑھایا اور داخل اسلام فرمایا، اور اس کا نام عبداللہ رکھا، اسی وقت اس کے چیلے بھی مسلمان ہوگئے، حضرت نے اس کے بعد سب کو داخل سلسلہ فرمایا اور تالاب کے کنارے ان کے رہنے کے لیے ایک جگہ مقرر کردی۔ یہ وہی تالاب ہے جیسے آپ نے وسعت دی اور نیر شریف کے نام سے مشہور ہوا۔ اور سب کو ریاضت اور مجاہدے میں مشغول کردیا اور روحانیت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔

ایک شبہ کاازالہ

اکثرکتابوں میں اور عوام میں درپن ناتھ جوگی کے بجائے کمال پنڈت کے بارے میں جو روایتیں مشہور ہیں وہ غلط اور بے بنیاد ہیں۔ اس غلطی کی بنیادیہ ہے کہ ”ملٹن“ نے ”فیض آباد گزیٹیر“ میں درپن ناتھ اور کمال پنڈت کو ایک شخصیت قرار دیا ہے۔ لطائف اشرفی میں”کمال جوگی“ کانام ضرور آیاہے؛ لیکن وہ کمال پنڈٹ نہیں ہیں۔ بلکہ کمال نام کے ایک”ایرانی مجوسی“ کا تذکرہ ہے، جس نے مجو سیت سے جوگ اختیار کر لیا تھا۔ وہ راہب کی شکل میں سیروتفریح کرتا ہوا قسطنطیہ پہونچا، لطائف اشرفی میں اس کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے:۔
”کمال جوگی اول از طائفۂ ثنویہ بود بعدہٗ بجوگیاں صحبت گرفت
چوں درروم شرف ملازمت قدوۃ الکبریٰ مشرف شدہ از مقتداں
جوگیاں بروں آمد ومسلماں سنی شد وحضرت ایشان را مرید
شداویکے از خلفائے مآثر ایشاں شد“
ترجمہ: کمال جوگی شروع میں ثنویت پرستوں میں تھا بعد میں جوگیوں کی صحبت اختیار کیا، جب روم میں حضرت قدوۃ الکبریٰ کی ملازمتسے مشرف ہوا توجوگیوں کا عقیدہ ترک کر کے سنی مسلمان ہو گیا، اور آپ کا مرید اور آپ کے بڑے خلفاء میں ایک ہوا۔

روضۂ مقدسہ

انتہائی خوبصورت جزیرہ نمابنا ہوا ہے۔ جو دور سے اچھاخاصاقلعہ معلوم ہوتا ہے۔ گول ٹیلے کے اوپر روضۂ مقدسہ ہے، تین سمت سے نیر شریف احاطہ کیے ہوئے ہے، مشرق کی جانب ایک راستہ ہے۔ اسی طرف صحن بھی ہے، صحن سے روضۂ مقدسہ کے اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اورنیچے سیڑھیوں کے داہنی طرف مردانی مسجد ہے اور بائیں جانب زنانی مسجد ہے۔ اوراوپربیچ وبیچ ایک گنبد بنا ہواہے، جس میں آپ کا مزار پرانوار ہے، آپ کے بائیں پہلو میں پورب کی جانب آپ کے فرزند معنوی حضرت نورالعین کا مزار پاک ہے، گنبد کے باہر سامنے آپ کے سجادہ نشینوںکے مزارات ہیں، مغربی سمت ایک تاریخی مسجد ہے جومسجد اولیاء کے نام سے مشہور ہے۔

تعمیر روضۂ مقدسہ

روضۂ مقدسہ کی تعمیر کا کام حضرت غوث العالم کی حیات طیبہ میں ہوا۔ جوگی کے ہٹنے کے بعد حضرت اپنے اسباب و اصحاب کے ساتھ اسی جگہ قیام فرما ہو گئے، اور ملک محمود نے روضہ کی تعمیر کا کام شروع کردیا۔ روضۂ مقدسہ اسی گول ٹیلہ پر بنایا گیا جس کے اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، اس جگہ کی ابتدائی تعمیر میں تین سال لگے۔ اس کانقشہ آپ کی پہلی ہی آمد میں بن گیا تھا۔ روضہ کے اوپرحضرت کے لیے ایک حجرہ تیار کیا گیا تھا۔ اس کانام”وحدت آباد“ رکھا گیا۔ اس حجرے کی تعمیرمیں الله والوں نے کام کیا، ایک معمار تھا اور اینٹ اورگارا دینے والے آپ کے خلفاء ومریدين تھے، اوراس تعمیر میں چھوٹے بڑے سبھی مریدین نے ہر طرح حصہ لیا، تقريباً دس بارہ سال میں یہ روضہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ باہر ملک محمودنے ایک خانقاہ بنوادی تھی،جس میں مریدین اکٹھا ہوتے تھے، اس کانام ”کثرت آ باد“ رکھا۔

نیر شریف

ٹیلہ کے پاس جو تالاب تھا اس کی تو سیع اور نیر”شریف“ کی کھدائی کا کام ملک محمود کے سپرد کیاگیا، اور در ویشوں کی بہت بڑی جماعت یہاں رہنے گی، جن کا کام فرائض و نوافل سے فارغ ہونے کے بعد”نیر شریف“ کاکھودناتھا، نیر کی کھدائی اس اہتمام سے ہوئی کہ پھاوڑے کی ہرضرب ضرب حدّادی اور ذکر لا إلہ إلا اللہ کے ساتھ لگتی تھی، جس میں اولیاء اللہ اور در ویشوں کے ساتھ خود آپ اور آپ کے خلفاء بھی شامل ہوتے تھے۔ آپ کے عدم موجودگی میں آپ کی نیابت آپ کے خلیفہ حضرت شیخ کبیر کے سپرد ہوئی، جب نیر شریف کی کھدائی روضۂ مقدسہ کے تینوں طرف ہوگئی تواس میں سات بار آب زم زم کافی مقدار میں ڈالا گیا۔ نیر شریف کا پانی پاگل، مسحور، آسیب زدہ اور مریضوں کے لیے آب حیات کا کام کرتا ہے۔ حضرت عبد الرحمن چشتی ”مرأۃ الاسرار“ میں نیر شریف کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
”آب آں حوض ہرگز گندانمی شود و آسیب زدہ شقایابد“
یعنی اس حوض کاپانی کبھی گندا نہیں ہوتا اور اس سے آسیب زدہ شفاپاتے ہیں۔

روح آباد رسول پور درگاہ شریف

یہ ضلع فیض آباد (اب امبیڈکر نگر) تحصیل ٹانڈہ کا ایک موضع ہے، جو بسکھاری اور کچھوچھہ کے درمیان واقع ہے اس کا ریلوے اسٹیشن اکبر پور او ر بس اسٹیشن بسکھاری ہے۔ یہ علاقہ پہلے ضلع جونپور میں شامل تھا اور اسکا کچھ نام نہ تھا، صرف جوگیوں کامسکن تھا، روضۂ مقدسہ کی تعمیر اور نیر شریف کی کھدائی کے بعد حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کا نام روح آباد رکھا۔ اورحضرت غوث العالم کے وصال کے بعد آپ کے بھانجے اور فرزندمعنوی حاجی الحرمین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ جو آپ کے پہلے سجادہ نشین ہوئے اور وہاں کچھ آبادی ہوگئی تو آپ نے رسول پور نام رکھا۔ اس موضع کا پورا نام ”روح آباد رسول پور درگاہ“ہے، اور یہ جگہ مرجع خلائق اور قبلہ حاجات ہندوستان ہے۔ حضرت عمران چشتی”مرأۃ الاسرار“ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
”آں مقام بہشت آراستہ گشت و تا امروز قبل حاجات ہندوستان است“

وہ جگہ جنت نشان ہے جو آج تک ہندوستان کا قبلۂ حاجات ہے۔


حضرت کو اس جگہ سے قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت تھی، اس کا اندازہ حضرت کے اس شعر سے ہوتاہے:۔
اشرف از دل بدرکن میل سمناں
کہ روح آباد سمنان است مارا
اے اشرف اپنے دل سے سمنان کی محبت کو باہرنکال دو؛ اسلئے کہ روح آبادہمارا سمنان ہے۔

دارالامان

روضۂ مقدسہ سے کچھ دورپو رب کی سمت جہاں آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اسرار و معارف کی باتیں کرتے تھے یہاں ایک بڑا تالاب ہے اور یہ جگہ بڑی پُر سکون ہے اس کانام دارالامان رکھا گیا۔ اب یہ نام عوام میں بگڑ کر ”دلّمواں“ سے مشہور ہے اوریہیں حضرت نورالعین کی بلی کامزاربھی ہے۔

رُوح افزا

روضۂ مقدسہ سے کچھ فاصلے پر اُتّر کی سمت ایک عبادت گاہ ہے، اس کانام روح افزا رکھاگیا، یہ وہی جگہ ہے جو چہارگذر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ جگہ بھی اس بڑے تالاب کے کنارے ہے اور بڑی پُرفضا اور سکون بخش ہے۔ ایک چھوٹی سی عمارت بنی ہوئی ہے، جس کے چاروں سمت دروازے ہیں، اور عمارت کے اوپر چھوٹا سا گنبدبناہے۔ اب اس عمارت کے چاروں طرف پچھم کی سمت کچھ بڑھاکر چیوترہ قناتی مسجد کے انداز میں بنادیاگیاہے۔ یہ جگہ عبادت کے لیے بہت موزوں ہے، حضرت غوث العالم اس جگہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:۔
”با یاراں واصحاب خود میگفتند کہ درین جا رونق باشد کہ مردم اطراف نہ باشد وا کابر روزگار و اصاغز دیار درين جا آیند و رجال الغيب و اوتار و اخیار و دیگر اولیاء روز گار ہمہ درین جا بیایند وفیض گیرند زنہار زنہار اصحاب واجباب ما ازیں جافیض برند“۔

حضرت غوث العالم اپنے یاروں اوراصحاب سے فرماتے تھے کہ اس جگہ وہ رونق ہو گی جواطراف کے لوگوں کو نصیب نہیں ہے، رجال الغیب،اوتار و اخیار و اولیاء روزگار اس جگہ سب آتے ہیں اور فیض حاصل کرتے ہیں۔ میرے اصحاب واحباب ضرور بالضروراس جگہ سے فیض یاب ہوں۔

بسکھاری وکچھوچھہ

بسکھاری روح آباد رسول پور درگاہ شریف سے تقریباً ایک کلو میٹر جانب شمال اور کچھوچھہ ایک کلو میٹر جنوب میں واقع ہے، اور درمیان میں حضورغوت العالم کا بافیض آستانہ ہے، ان دونوں بستیوں میں سادات کرام خانوادۂ اشرفیہ کی آبادیاں ہیں، اور یہ پورا علاقہ پہلے ضلع جونپورمیں شامل تھا؛ لیکن اب ضلع فیض آباد (اب امبیڈکر نگر) تحصیل ٹانڈہ میں واقع ہے۔
کہاجاتاہے کہ فرز ندان نورالعین میں حضرت شاہ شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا اور حضرت شاہ فريد رحمتہ اللہ علیہ دریاآبادضلع بارہ بنکی چلے گئے۔ اور حضرت شاہ حاجی احمدرحمتہ اللہ علیہ نے جائس ضلع رائے بریلی میں سکونت اختیار کر لیا اور حضرت سید شاہ حسن رحمتہ اللہ علیہ وسید شاہ حسین رحمتہ اللہ علیہ روح آبا د رسول پور درگا ہ رہ گئے،اورمختلف حکمرانوں سے جومعافیات ملی تھیں اپنے مقبوضات کو ترقی دی او را نھیں کی اولادوں نے بسکھاری اورکچھوچھہ کو آباد کیا۔ چنانچہ بسکھاری، کچھوچھہ،روح آباد رسول پور درگاہ کاایک حصہ ہمیشہ ان کے قبضے میں رہا۔باقی ہنسور اور مکرہی کے تعلقداروں کی ملکیت میں تھا۔ 

بسکھاری میں غالباً پہلے حضرت سید شاہ علی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشیں آستانۂ غوث العالم قیام پذیر ہوئے۔بسکھاری میں اب بھی ایک چک اور آبادی علی پور کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے علاوہ حضرت سید شاہ محامد شہید سجادہ نشین آستانۂ غوث العالم رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت کا واقعہ بسکھاری ہی ان کے مکان میں پیش آیا۔ اور ابھی ۱۹۲۰؁ء میں راقم الحروف کے دادا حضرت سید شاہ خلیل اشرف رحمتہ اللہ علیہ اور بابو کملاپتی پرشاد سنگھ میں کسی معاملہ پر تنازعہ ہوا اوربسکھاری کے بٹوارے کا مقدمہ چلا۔

عنوان مقدمہ بابو کملا پتی پرشادسنگھ بنام سیدخلیل اشرف تھا، ۱۹۲۰؁ء میں اس مقدمے کا فیصلہ ہوا اور بسکھاری کا بٹوارہ ہوگیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بسکھاری میں سادات کرام آباد ہوئے۔ اوراس پربحیثیت مالکانہ قابض ودخیل تھے۔

اسی طرح کچھوچھہ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ علاقہ بھروں کے قبضے میں تھا۔ اور اس کانام کنوچھہ تھا۔ حضرت شاہ جعفر عرف شاہ لاڈ کنہ نواز سجادہ نشین آستانۂ غوث العالم رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں ایک مکان تعمیر فرمایا اور ایک بازار کی بنیاد رکھی، جس پرتنازعہ ہوا اور حضرت شاہ لاڈ رحمتہ اللہ علیہ کو ان سے جنگ کرناپڑی اورحضرت نے اس طرح کچھوچھہ باطمینان اپنے قبضے اور دخل میں لے لیا اور یہاں سادات کرام آباد ہو گئے۔ بازار شاہ لاڈ اور ایک مسجد اورکنواں ان کا بنوایاہواآج بھی موجود ہے۔ اس کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی حضرت سیدشاہ محمدرحمتہ اللہ علیہ نے اس کا نام اشرف پور رکھا۔ اس موضع کا پورا نام اشرف پور کچھوچھہ ہے۔
بسکھاری اور کچھوچھہ شریف کا نام اوراس کا ذکر طائف اشرفی میں نہیں آیا ہے اور نہ ہی لطائف اشرفی میں کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے جس سے ان پر روشنی پڑتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں مواضعات حضرت غوث العالم رحمتہ اللہ علیہ کے ایک صدی بعد عالم وجود میں آئے اور حضرت نورالعین رحمتہ اللہ علیہ کے فرزندوں بلکہ ان کے پوتوں پرپوتوں نے انھیں آباد کیا۔ اور ہندؤںو مسلمانوں کو یہاں بسایا اور ہندومسلم باہم اتحاد کے ساتھ رہنے لگے۔

روح آباد

حضرت غوث العالم نے اگر چہ ا پنے پہلے سفرمیں روح آباد زیادہ دنوں نہیں قیام فرمایا؛ لیکن اس دوران پانچ ہزار (۵۰۰۰) سے زائد غیرمسلموں نے آپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا۔

اجودھیا

حضرت روح آباد قیام کے دوران اکثر فرمایاکرتے تھے کہ ”اودھ سے ایک دوست کی خوشبوآتی ہے“ حضرت ایک مرتبہ روح آباد سے اجودھیا تشریف لے گئے اور وہاں حسب دستورمسجدمیں قیام فرمایا۔ اہل شہر ملاقات کے لیے حاضر ہوئے ان میں ایک نوجوان عالم دین حضرت مولانا شمس الدین بھی تھے۔

حضرت مولانا شمس الدین اودھی رحمتہ اللہ علیہ

آپ اودھ کے رہنے والے تھے، علوم ظاہر کے بعد معرفت الٰہی اور راہِ سلوک کی تحصیل وتکمیل کے لیے مرشد کی تلاش میں تھے، حضرت سے اجودھیا میں ملاقات ہوئی۔ حضرت نے انھیں دیکھ کر فرمایا کہ فرزند شمس الدین میں تمہارے لیے یہاں آیا ہوں۔ حضرت کے یہ جملے تیر بہدف تھے۔ سنتے ہی شمس الدین بیتاب ہو گئے اور آپ کے قدموں پر گرپڑے۔ قلب میں حرارت پیدا ہوئی اور شمس الدین پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی، چند دنوں خلوت میں بٹھایاگیا، دس دن کے اندرشمس الدین پر واردات صوفیہ کا نزول ہونے لگا، شمس الدین ضبط نہ کرسکے، اضطراب اتنابڑھاکہ خلوت سے باہرنکل آئے، خدام کھینچ کرخلوت میں لے گئے اور دروازہ مضبوطی سے بند کر دیا گیا۔ جب منزل خلوت پوری ہوگئی تو حضرت نے انھیں خرقہ اور خلافت سے نوازا اور ولایت کے اس بلند مقام پر پہونچے کہ حضرت ان کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
”اشرف شمس وشمس اشرف از ہم جدانہ اند“۔
اشرف شمس ہیں اور شمس اشرف ہیں دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔
یہی شیخ شمس بعد میں ”فریادرس“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اجودھیا میں ان کا مزار حاجت روائی خلق ہے۔

صاحب بحرذخّار نے لکھا ہے کہ ”جس شخص کو کوئی حاجت پیش آئے وہ شیخ شمس الدین کے مزار کی طرف رُخ کر کے روزانہ فاتحہ پڑھے تو اس کی حاجت پوری ہو جائے۔ ترکیب فاتحہ یہ ہے:۔

”ایک بار سورۂ فاتحہ تین بار سورۂ اخلاص ایک بار آیۃ الکرسی اور ایک بار درودشریف“۔

ایک دن حضرت اجودھیا میں شیخ شمس الدین کی خلوت گاہ میں تشریف فرماتھے۔ سدھور کے ایک عالم حضرت مولاناخیر الدین انصاری آپکی خدمت میں حاضر ہوے، مولانا کو اصولِ فقہ کے کچھ مسائل میں اشتباہ تھا، قرب وجوارکے علماء سے ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کیا؛ لیکن کو ئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ حضرت کی خدمت میں آئے، مولانا نے کچھ کہا بھی نہیں اور حضرت نے ان مسائل پرگفتگو شروع کردی اور ایسی آسانی کے ساتھ ان مسائل کو حل کردیا کہ مولانا کو پوری تسلی ہوگئی۔اور حضرت سے بہت متاثر ہوئے اور آپ کی عقیدت دل میں گھرکرگئی،چنانچہ دوسرے ہی دن پھر حاضر ہوئے اور مرید ہو گئے، حضرت مولانا | شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری کی اولاد سے تھے، حضرت نے ان سے چار سال تک سخت ریاضت اور مجاہدات کرائے، ایک دن مولانا وضو کررہے تھے اچانک ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ خادم پانی دیتے دیتے تھک گئے تب وضو پورا ہوا، کسی نے اعتراض کیا کہ وضو کے پانی میں اتنا اسراف ناجائز ہے۔

حضرت نے فرمایا کہ فرزند خیرالدین پروہ کیفیت طاری ہے کہ اگرتمام دنیا کے سمندر اورموتی نچھا ور کر دیے جائیں تو بھی اسراف نہ ہو گا۔ اس کے بعد حضرت نے انھیں اجازت وخلافت عطا فرمائی۔

سدّھور

حضرت مولانا خیرالدین کی عزت افزائی کے لیے آپ سدّھور تشریف لے گئے، مولانانے اکا برین شہر کے ساتھ جن میں وہاں کے ایک جلیل القدر عالم حضرت مولانا قاضی حجت بھی تھے۔ شہر کے باہر بڑی گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا،حضرت نے قاضی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس خاندان سے ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ میراتعلق خانوادۂ مخدوم سے ہے، حضرت نے فرمایاکہ جب پروردگار عالم کسی کوخصوصی شرف سے نوازنا چاہتا ہے تو اسے کسی صاحب نعمت کے پاس پہنچا دیا ہے۔
قاضی محمد بکمال ادب وعقیدت اس انداز سے اپنے مکان لے گئے کہ حضرت کی پالکی کا ایک سرا اپنے کاندھے پر رکھا اور دوسراسرا مولانا خیرالدین کے کاندھے پر تھا اور حضرت کی بڑی خدمت وضیافت فرمائی۔ دوسرے دن حضرت نے انھیں داخل سلسلہ فرمایا اور راہِ سلوک ومعرفت کے دروازے ان پر کھول دیے، یہاں اور بہت سے لوگ داخل سلسلہ ہوئے، حضرت نے سدھور کے مریدوں کو مولانا خیرالدین کی | تربیت میں دیا اورسدھور سے جائس کے لئے روانہ ہوئے۔

جائس

حضرت سدھور سے قصبہ جائس تشریف لائے،یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ حضرت کے اصحاب ذکرجہر کررہے تھے۔ جائس کے ایک صاحب علم حضرت مولانا اعلام الدین نے جب اس ذکرجہر کی آواز سنی تو بولے یہ غوغائی کہاں سے آ گئے ہیں؟ | علم وفضل کے با وجود چندمسائل مولانا کے لیے عقدۂ لاينحل بنے ہوئے تھے۔ ایک بزرگ کے مکان پر زیارت کے لیے گئے تھے۔ وہاں حضرت غوث العالم بھی اپنے اصحاب کے ساتھ موجود تھے۔ مولانا نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ حضرت نے فوراً جواب دیا ہم سب غوغائی ہیں، مولانا | اپنے جملے پر بہت شر مندہ ہوئے اور بہت معذرت کی۔ حضرت نے فرمایا کہ ہم نے اس سے بھی زیادہ ملامتیں برداشت کیں ہیں۔ دورانِ گفتگو حضرت نے بڑے فصیح وبلیغ انداز میں ان مسائل کو بھی حل فرمادیا جن کو مولانا لاینحل سمجھتے تھے۔ حضرت کے اس تبحر علمی اور روحانی تصرف کا مولانا |کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ اور حضرت کے بے پناہ عقیدتمند ہو گئے۔ اور اپنے جملے پر بار بار حضرت سے اظہارِ ندامت فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت کا دل ان کی طرف سے صاف ہو گیا۔ دوسرے دن حضرت سے مرید ہوگئے اور پھر اپنے بیٹے کو بھی حضرت سے مرید کرایا اور بیان کیا کہ آج سے تقریباً تین سال پہلے حضرت شیخ سلیمان ردولوی رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے یہ خوشخبری دی تھی کہ اہلِ جائس کی ہدایت ایک سید زادے کے سپرد ہوئی ہے جوسیروسیاحت کرتے ہوئے یہاں تشریف لائیں گے اورقرأت سبعہ سے حافظ قرآن ہوں گے۔
قصبہ جائس کے بہت سے لوگ حضرت سے مرید ہو ئے۔ حضرت نے مولانا کو خلافت عطا فرمائی اور جائس کے مریدوں کی تعلیم و تربیت ان کے سپرد فرمائی۔ مولانا نے اپنے انتقال سے پہلے حضرت کے ایک خلیفہ شیخ کمال کو اپنا نائب بنایا۔

 

ایک مرتبہ قصبہ میں حضرت شیخ کمال نے دعوت کا اہتمام کیا، جس کے لیے کچھ سامان فراہم کرنے کی خدمت لوگوں کے سپرد کی گئی؛ لیکن وقت پرلوگ سامان نہیں پہنچا سکے۔ حضرت شیخ کمال کو جلال آگیا اور بد دعادی کہ جن لوگوں نے وعدہ نہیں پورا کیا وہ جل جائیں۔ آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہی قصبہ کے اندربڑی بھیانک آگ لگ گئی اور بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ جلنے والوں میں اکثریت وابستگان سلسلۂ اشرفیہ کی تھی۔ بعد میں شیخ کمال کوبڑی شرمندگی ہوئی اورطلب معذرت کے لیے حضرت کی خدمت میں روح آباد گئے، جب حضرت کے سامنے آئے تو حضرت نے فرمایا تونے میرے فرزندوں کو جلا دیا ان کے مکانات تباہ و برباد کر دیئے۔شیخ کمال نے چاہا کہ حضرت کے قدموں پر گر کر معافی مانگ لیں؛ لیکن حضرت نے انھیں اپنے سامنے سے ہٹادیا اور وہ خانقاہ کے پیچھے کئی دن پڑے رہے، مدت کے بعد نورالعین کی سفارش پر ان کو معاف فرمایا۔

 

لکھنؤ

حضرت غوث العالم کے ایک مرید ابوالمظفرمحمدلکھنؤ کے رہنے والے تھے، اس دور کے مشہور عالم وفاضل اورکہنہ مشق شاعر تھے، ان کے ہمراہ حضرت لکھنؤ تشریف لے گئے اور جامع مسجد میں قیام فرمایا۔ حضرت شیخ قاضی ابوالمظفر نے حضرت کی شان میں ایک قصیدہ لکھا تھا وہ سنایا، حضرت نے اس کی بڑی تعریف کی، شیخ خیرالدین سدّھوری بھی یہاں موجود تھے۔ انھوں نے بھی حضرت کی شان میں کچھ قصیدے لکھے تھے، انھیں قاضی ابوالمظفر کواصلاح کے لیے دیا حضرت نے فرمایایہ اشعار | دردیشانہ ہیں جوجوشِ عقیدت میں کہے گئے ہیں ان کی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اَجُودھیا

لکھنؤکی واپسی میں حضرت نے دوبارہ اجودھیاقیام فرمایا۔ وہاں ایک مجذوب تھے جن کا نام ابراہیم مجذوب تھا۔ بڑے گرم مزاج تھے اور بظاہر نماز کے پابندبھی نہ تھے، حضرت ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے آپ کے ایک مرید بھی ساتھ تھے۔ حضرت بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں کوئی چیز مجذوب کے کھانے کے لیے آئی وہ کھانے لگے۔ کچھ دیر کے بعد حضرت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا اشرف تم بھی کھاؤ! حضرت کھانے میں شریک ہو گئے، جب کھانا تھوڑاباقی | رہ گیا تو مجذوب نے کہا اپنے مرید کو بلالو تاکہ وہ بھی کھانے میں شریک ہو جائے، مر ید بڑے متقی اور پریزگار تھے، انھوں نے کہا جو نماز نہیں پڑھتا میں اس کے ساتھ نہیں کھا سکتا ہوں۔ یہ سن کر مجذوب بہت خفا | ہوئے اور عالمِ جلال میں ان کو مارنے کے لیے تکیہ اٹھالیا، حضرت درمیان میں آگئے اور معذرت کی، مجذوب نے کہا مجھے اپناغصہ اتارنے کے لیے کوئی چیز چاہئے۔ حضرت نے ایک بلند مینار کی طرف اشارہ کیا مجذوب نے تکیہ مینار کی طرف پھینکا تومینار گر گیا۔

رُوح آبَاد

حضرت روح آباد تشریف لائے تو اودھ کے ایک منصب دار رئیس سیف خاں جن کو صوفیائے کرام سے بے پناہ عقیدت تھی، اپنے مصاحبوں کے ساتھ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اورپہلی ہی ملاقات میں بندۂ بے دام ہو گئے اور مرید ہونے کی خواہش ظاہر کی؛ لیکن حضرت نے کوئی توجہ نہیں فرمائی، حضرت رئیسوں اور امیروں کو مرید کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ادھر سیف خاں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ اور عزم کرلیا کہ حکومت اور ریاست چھوڑ کر حضرت کی غلامی کا شرف حاصل کروں گا، حضرت کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو سیف خاں کو بلوایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ بعض طالبوں کو اپنے قربِ خاص سے اس طرح سرفراز فرماتا ہے کہ کثرتِ کام اورہجومِ اَنام بھی ان کی توجہ باطنی میں رکاوٹ نہیں ہوتے، اور یہ آیت کریمہ پڑھی:۔
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ٭

یعنی ایسے لوگ بھی ہیں جو خرید وفرخت دنیا کے سب کام کرتے ہیں لیکن یادِ حق سے غافل نہیں ہوتے۔

حضرت کے ان نصیحت آمیزکلمات سے سیف خاں کو کچھ تسکین ہوئی۔ ایک رات سیف خاں کو حضرت نے اپنے خیمے میں بلایا، سیف خاں نے دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت ادرحسین دوشیزہ حضرت کے پہلو میں بیٹھی ہے اور صراحی اور پیالہ اس کے ہاتھ میں ہے، سیف خاں نے جب اچھی طرح سب کچھ دیکھ لیا توحضرت نے حکم دیا باہر چلے جاؤ۔ سيف خان اپنی آنکھوں سے یہ تماشادیکھ کر چلے آئے؛ لیکن ان کی عقیدت میں کوئی فرق نہیں آیا، بدستور حاضری دیتے رہے۔ کچھ دن کے بعد حضرت نے ان سے فرمایا کہ تم نے مجھے گناہ کبیرہ کا ارادہ کرتے ہوئے دیکھا ہے پھر بھی میرے پاس اپنا وقت ضائع کرنے آتے ہو۔ سيف خاں نے عرض کیا حضور غلام کو آقا کے کام میں کیا دخل؟ میں جانتا ہوں کہ وہ عورت جنّیہ تھی اور صراحی میں شراب نہ تھی؛ بلکہ شربت تھا۔اگرواقعی وہ شراب ہوتی تو بھی اولیاء کے لیے عصمت شرط نہیں ہے۔ البتہ انبیاء کے لیے شرط ہے۔ میری عقیدت تواب پہلے سے دس گنی ہوگئی ہے۔

اس امتحان کے بعد حضرت نے سیف خاں کو مرید کر لیا اور راہِ سلوک و معرفت کی تعلیم فرمائی، سیف خاں اس کے بعدا پنے منصبی فرائض میں بہت کم وقت صرف کرتے تھے، زیادہ تر یادِ حق اورعبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے، انھیں کے اصرارپر حضرت نے اودھ میں اپنے لیے ایک خانقاہ بنوائی، جس میں حضرت کبھی کبھی جاتے اور قیام فرماتے تھے۔ اس خانقاہ کو مستقل طورپر حضرت کے خلیفہ شیخ شمس الدین آبادر کھتے تھے،حضرت نے اصول شریعت اورطریقت کے بیان| میں ایک رسالہ ”بشارت الاخوان“ کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس ر سالے کے مقدمہ میں سیف خاں کا بھی ذکر ہے،سیف خاں نے عبااور چوغہ اتارکر لباس درویشی اختیارکرنا چاہا توحضرت نے انھیں روک دیا اور فرمایا:۔

حاجت بہ کلاہِ بَرے کی داشتنت نیست
درویش صفت باش وکلاہ تتری دار
درویشی کے لیے بَرکی ٹوپی پہننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ درویش صفات کاحامل ہو اور تاتاری ٹوپی پہن۔

کنتور

ایک بارحضرت کنتور تشریف لے گئے اور اپنے ایک خلیفہ شیخ محمود کے مکان پر قیام فرمایا انھوں نے آپ کی اور آپ کے احباب کی بڑی مہمان نوازی کی۔ راستہ میں ایک گاؤں ”سنجولی“ نام کاتھا، وہاں کے سالارسيف الدین نے ایک نئی عمارت بنوائی تھی اس کے جشنِ افتتاح کے سلسلہ میں دعوت کا اہتمام کیاتھا،جس میں قرب وجوار کے شرفاء، روساء اور اکابرین سبھی مدعوتھے، باصرار حضرت کو اپنے مکان لے گئے وہاں کھانے کے بعدمحفل سماع منعقد ہوئی۔ درمیان سماع حضرت پرکیفیت طاری ہوگئی اوراس قدر روئے کہ آپ کے رونے کی آواز مکان کی عورتوں تک پہونچ گئی اورعورتوں نے ایک دوسرے سے کہنا شروع کیاکہ یہ بد شگونی ہے کہ اس عمارت کی ابتداء رونے سے اور آنسو بہانے سے ہوئی ہے۔ حضرت کی کیفیت جب دورہوئی اورمحفل ختم ہوئی تو آپ نے سیف الدين سے کہاکہ عورتوں سے کہہ دو شکوک وشبہات میں نہ پڑیں،مطمئن رہیں میں نے اپنے آنسوؤں سے تمہاری اولاد کی جڑ مضبوط اور مستحکم بنادی ہے۔ انشاء اللہ جلد اس کے آثارظاہر ہوں گے۔
اس کے بعد حضرت کنتور واپس تشریف لائے اور یہاں چند دن ”شیخ محمود“ کے یہاں قیام فرمایا،دورانِ قیام سادات کنتورآپ سے ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ سادات صحیح النسب ہیں، اور انھیں نصیحت فرما ئی کہ اپنے نسب کی حفاطت کا خیال رکھنا۔

روح آباد

حضرت کنتورسے ردح آبادتشریف لائے، اس وقت روح آباد میں کوئی مسجدنہ تھی،حضرت نمازجمعہ کے لیے موضع سنجھولی جایا کرتے تھے، جوروح آباد سے تقریباً پندرہ میل دور موجودہ اکبر پور کے پاس ایک گاؤں ہے حضرت کا معمول تھا کہ نماز جمعہ سفروحضر میں ترک نہ فرماتے تھے۔ روح آباد جب قیام ہوتا تو جمعرات کو روح آباد سے نکلتے اورسنجھولی سے بعدنمازجمعہ وا پس تشریف لاتے۔>شد
ایک مرتبہ سنجھولی جامع مسجدمیں بعدنماز جمعہ ایک مولوی صا حب نے حضرت سے علم کلام کا ایک مسئلہ پوچھا کہ بندے کو اپنے فعل کااختیار ہے یا نہیں؟اگر اختیار کہا جائے توقدری ہو جاتے ہیں اور عدم اختیار کہاجائے تو جبری۔ ان دونوں کے درمیان کیا ہے جس پر عقیدہ رکھا جائے۔ حضرت نے فرمایاکہ اختیار”صوری“ ہے اورعدم اختیار ”معنوی“ ہے، مولوی حضرت کے اس جواب باثواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور حضرت کی گفتگو سننے اور سمجھنے کے بجائے زورِعلم دکھانے لگے، اوربحث طویل ہوگئی۔ حضرت نے فرمایا کہ”تیری زبان ابھی تک چل رہی ہے“ادھر یہ جملہ حضرت کی زبان سے نکلا ادھرمولوی صاحب کی زبان منھ سے باہر نکل پڑی اور بولنے کی ساری صلاحیت ختم ہوگئی۔ حاضرین جلالِ جہانگیری کا یہ مظاہرہ دیکھتے ہی لرزا ٹھے۔ مولوی صاحب کی بوڑھی ماں کو معلوم ہوا تو وہ روتی پیٹی،ہانپتی کا نپتی مسجدمیں آئی اور حضرت کے قدموں پرگرپڑی اور زارو قطار رونے لگی اور فریاد کیا کہ حضور میرا یہی لڑ کا ہے اسے معاف فرمادیں اور اپنی زبان میں کہا”یامیر پوت بھیک د ے“ بوڑھیا کی زبان سے نکلا ہوا زبانِ ہندی کا یہ جملہ لطائف اشرفی میں لکھا ہوا ہے، جب بوڑھیا کی عاجزی حد سے بڑھ گئی توحضرت نے فرمایا تیرے دل دہی کے لیے کہتا ہوں اس کی زبان درست ہو جائے گی؛ لیکن لکنت اس زبان میں اور اس کی نسل میں قیامت تک باقی رہے گی۔

ایک مرتبہ حضرت نمازجمعہ کے بعد سنجھولی سے روح آباد تشریف لارہے تھے، جب سکندرپور کے قریب سے آپ کا گذر ہوا تو فرمایاکہ اس گاؤں سے سیادت کی خوشبو آتی ہے، وہاں سید جمال الدین نام کے ایک بزرگ زمیندار تھے، انھیں جب یہ بات معلوم ہوئی تو فوراًحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت نے فرمایا بہت دنوں کے بعد سید کی خوشبو ملی ہے، سیدجمال الدین کوحضرت سے بڑی عقیدت ہوگئی اور برابرحضرت کی خدمت میں آتے رہے، سیدجمال الدین کے خاندان میں دوتین پشت سے صرف ایک ہی لڑکا ہوتا تھا۔ ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس سلسلے میں حضرت سے دعا کی درخواست کریں، حسنِ اتفاق کہ ایک دن وہ موجودتھے، حضرت پر کیفیت طاری ہوئی، اسی عالم میں دست بستہ کھڑے ہوکر طالب دعا ہوئے،حضرت نے فرمایا کہ مبارک ہو تمہارے اولادبھی بہت ہو گی اور مال و دولت میں بھی اضافہ ہو گا۔ ابھی یہ گفتگو ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ایک بوڑھی عورت اپنے بچے کو لے کر آ ئی جوحالتِ نزع میں تھا۔ اور حضرت کے قدموں سے لپٹ گئی کہ یہ میری اکلوتی اولاد ہے خدا سے اس کی صحت کے لیے دعا کیجیے آپ نے فرمایا ماں تیرے بچے کی عمر ایک دم سے زیادہ نہیں ہے، میں مجبور ہوں یہ سن کر عورت رونے لگی اور بولی کہ اگر میرالڑ کا مرگیا تو میں اسی جگہ خودکشی کرلوں گی، حضرت نے فرمایا ٹھہرجا خدانے مجھے جو عمر دی ہے اس سے دس سال تیرے لڑکے کو دیتا ہوں دس سال پورا ہونے کے بعد یہ مر جائے گا۔

نورالعَین کی بلّی

ایک دن حضرت کے مرید خاص قاضی رفیع الدین اودھی کے دل میں خیال آیا کہ اگلے زمانے میں ایسے بزرگ ہوتے تھے کہ وہ اگرجانوروں پر ایک نگاہ ولایت اثر ڈال دیتے تھے تو جانوربھی اللہ والے ادرصاحب کشف و کرامت ہوجاتے تھے، معلوم نہیں اس زمانے میں کوئی ایسا بزرگ ہے یا نہیں؟ حضرت ان کے اس خیال سے آگاہ ہو گئے۔ نورالعین کے پاس ایک بلی تھی جوکبھی کبھی | حضرت کے پاس آتی تھی، حضرت نے حکم دیا کہ نورالعین کی بلّی کو میرے پاس لاؤ فوراً لائی گئی تو حضرت نے کچھ معارف وحقائق بیان کیے، بلی حضرت کی تقریرسنتی رہی، پھر چہرۂ مبارک پر تغیر پیدا ہوا جسے دیکھ کر اصحاب خوفزدہ ہو گئے اور اسی عالم میں ایک نگاہ ولایت بلّی پر ڈال دیا، بلّی کچھ دیر بے ہوش پڑی رہی، جب اسے ہوش آیا توحضرت کے قدم چومنے لگی، اس کے بعداس بلی کی یہ عادت ہوگئی کہ حضرت جب اسرار و رموز بیان فرماتے تھے تو مجلس کے قریب ہی بیٹھی رہتی تھی۔ اس واقعہ کے بعد خانقاہ کی یہ خدمت بلّی کے سپرد ہوئی کہ روزانہ خانقاہ میں آنے والے مہمانوں کی تعداد باورچی خانے میں جاکر بتائے، خانقاہ میں جتنے مہمان آنے والے ہوتے تھے بلی باورچی خانہ میں جاکر اتنی ہی بار آواز دیتی، باورچی سمجھ جاتا کہ دسترخوان پرآج اتنے مہمان ہوں گے۔ اور اتنے مہمانوں کا کھانا پکایا جاتا۔ کھانا تقسیم ہوتے وقت بلّی کو بھی سب کے برابر کھانا دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت کو اگر کسی کو اپنی خدمت میں بلانا ہوتاتھاتوبلی بھیج دیتے تھے،بلّی اس کے پاس جاکر آواز دیتی اور وہ سمجھ جاتا کہ حضرت نے طلب فرمایا ہے۔
ایک دن خانقاہ میں در ویشوں کی ایک جماعت آئی، دستور کے مطابق بلّی نے لنگرخانہ میں جاکر آواز دی، اسی حساب سے کھانا پکایاگیا؛ لیکن جب دسترخوان پر کھانا لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ ایک مہمان کا کھانا کم ہے، حضرت نے فوراً حکم دیاکہ بلّی کو بلاؤ اور بلّی سے فرمایاکہ آج تجھ سے یہ غلطی کیوں ہوئی؟ بلّی فوراً با ہر چلی گئی اور مہمان خانے میں آئے ہوئے در ویشوں کے پاس جاکر ایک ایک کو سونگھناشروع کردیا،جب اس جماعت کے سردار کے پاس پہونچی تو اس کے اوپر پیشاب کردیا،حضرت نے فرمایا کہ بلّی بے قصور ہے یہ مرد اپنوں سے نہیں ہے بلکہ بیگانہ ہے۔ جماعت کا سردار فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور عرض کیا کہ میں دہریہ ہوں، عرصۂ بارہ سال سے درویشوں کا لباس پہن کر دنیا کاسفرکررہا ہوں، میری نیت تھی کہ جوصوفی یا عالم میرانفاق پہچان لیگا اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلوں گا؛ لیکن اب تک مجھے کو ئی نہ پہچان سکا، آج اس بلّی نے پردہ فاش کردیا۔ میں آپ کے دستِ مبارک پر صدق دل سے توبہ کرتا ہوں، حضرت نے اسی وقت اس کو مسلمان کیا اور مرید کیا اور خانقاہ میں ریاضت ومجاہدات میں مصروف کردیا، ایک مدت کے بعد جب اس کا تزکیۂ باطن ظاہر ہوگیا تو حضرت نے اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور شہر ”استنبول“ کا صاحب ولایت بناکر رخصت کیا۔

یہ بھی حضرت کے بعدبھی زندہ رہی، ایک دن حضرت غوث العالم کے جانشین حضرت حاجی عبدالرزاق نورالعین کے زمانے میں شیربرنج پکانے کے لیے دودھ سے بھری دیگ آگ پر رکھی گئی، اتفاق سے کالا ناگ دیگ میں گرپڑا، بلّی دیکھ رہی تھی، وہ دیگ کے گرد مسلسل پھرتی رہی اور بولتی رہی؛ لیکن باورچی نہیں سمجھ سکا، اس نے بلی کی حرکت سے عاجزآ کر اس کولنگرخانے سے باہر نکال دیا۔ جب بلّی نے دیکھا کہ با ورچی کسی طرح نہیں ہوشیار ہورہا ہے تو دوڑی ہوئی آئی اور دیگ میں کو دکراپنی جان دیدی، جب شیر برنج پھینکی گئی تواس میں وہ کالا ناگ نکلا اور سب کو بلّی کی اس بیقراری اور قربانی کا راز معلوم ہوا۔ حضرت نورالعین کو اس وفادار بلّی کے مرنے پر بڑا غم ہوا۔ اورفرمایاکہ اس بلّی نے اپنی جان در ویشوں پر قربان کر دی، لہٰذاباقاعدہ اس کی تجہیز و تکفین ہو اور اس کی پختہ قبر بنائی جائے، چنانچہ آستانہ عالیہ کے قریب دارالامان میں بلّی دفن کر دی گئی اور اس کی قبرپختہ بنائی گئی، اور اس کے گرد چبوترہ بنادیا گیایہ ”بی بی بلائی“کی مزار کے نام سے مشہور ہے اور زیارت گاہ عوام ہے۔

رُدَوْلی شریفْ

شیخ صفی الدین ردولوی امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد امجادسے تھے، علم وفضل، زہد وتقویٰ میں ابوحنيفہ ثانی تھے۔ ایک رات انھوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک انتہائی نورانی شکل بزرگ تشریف لائے ہیں، اس وقت شیخ کے ہاتھ میں ا صولِ فقہ کی ایک کتاب تھی۔ بزرگ نے فرمایاکہ تم نے بہت کاغذسیاہ کئے ہیں اب سیاہ کو سفید کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ سن کرشیخ نے عرض کیاحضرت پھر مجھ کو مرید کر لیجیے۔ بزرگ نے فرمایاکہ جب الله تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی بندے کوصاحب اسراربنائے، تو خضر کوحکم دیتا ہے کہ وہ اس بندے کی کسی اللہ کے ولی تک رہنمائی فرمادیں، میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یہاں عنقریب ایک بزرگ آنیوالے ہیں، تم ان کی خدمت سے فیض پاؤ گے۔
چند ہی دنوں بعد حضرت غوث العالم قصبۂ ردولی پہونچے اورجامع مسجد میں قیام فرمایا، شیخ صفی الدین کو جب آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو حضرت کی خدمت میں حاضر ہو ئے، حضرت نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ عزیزم صفی خوب آئے، پروردگار عالم جب کسی بندے کو شرفِ قبولیت سے نوازنا چاہتا ہے تو جناب خضر کو حکم دیتا ہے کہ اس کو کسی ولی تک پہونچادے، یہ سنتے ہی صفی الدین کی عقیدت بیتابی کی حدتک بڑھ گئی اوراسی وقت مرید ہو گئے، حضرت نے خادم کو حکم دیاکہ شیخ صفی الدین کو شربت سلوک پلایا جائے، اتفاق سے اس وقت شکر موجودنہیں تھی، حضرت خودا ٹھے اور مصری کا ایک ٹکڑا لاکراپنے دستِ مبارک سے کھلایا اور ان کے اور ان کی اولادکے لئے دعا فرمائی، حضرت نے ان کی خاطر چالیس دن ردولی میں قیام فرمایا تاکہ صفی الدین کو ایک چلّہ (چالیس دن) کی صحبت میسّر ہوجائے۔ جب چلّہ پورا ہو گیا تو اجازت و خلافت سے انھیں نوازا۔ ان کا ایک لڑکا | جس کا نام اسمٰعیل تھا، ابھی صرف چالیس دن کا تھا اس کو بھی حضرت کے قدموں پر ڈال دیا۔حضرت نے فرمایا کہ یہ بھی ہمارامرید ہے اوراس کو بھی ہم نے قبول کیا،یہی صاحبزادے جوان ہوکر اپنے والد بزرگوار کے جانشین ہوئے،اورمسند ارشادپر رونق افروز ہوئے۔

اجودھیا

حضرت غوث العالم ردولی سے اجودھیا تشریف لائے اور شیخ شمس الدین کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ شیخ شمس الدين نے حضرت کی بڑی تواضع کی اور حضرت کے لیے بڑی عقیدت سے خود اپنے ہاتھوں سے کھانا پکایا،اتفاق سے کھانا پکانے میں آپ کا ہاتھ جل گیا تو اس پر پٹی باندھ لی، جب حضرت کے سامنے آئے اورحضرت کو اپنے مخلص خلیفہ کی حالت معلوم ہوئی تو اپنے قریب بلایا اور فرمایا کہ غم نہ کرو، تمہارے ہاتھ پر ولایت کا داغ لگایا گیا ہے۔ اور آپ کے ہاتھ پر کچھ پڑھ کر دَم فرمایا جس سے زخم کی سوزش فوراًختم ہو گئی اور زخم بھی جلد ہی ٹھیک ہوگیا۔

عزم کعبہ شریف

اس کے بعدحضرت نے سفرکعبہ کا عزم فرمایا۔ شیخ شمس الدین نے عرض کیاکہ حضورکی عنایات جو اس ناچیز پرہیں اس کا شکریہ نہیں ادا کرسکتا؛ لیکن آپ کی جدائی میں برداشت نہیں کر سکتا ہوں، مجھ کو اپنی ہمرکابی کا شرف عطا فرمائیں،| حضرت نے فرمایا میں تمہاری یہ خواہش ضرور پوری کرتا؛ لیکن یہ ولایت میرے مریدوں سے بھری ہوئی ہے، ان کی تعلیم وتربیت کے لیے یہاں رہنا بہت ضروری ہے، شیخ شمس الدین قصبۂ ”منگلسی“ تک حضرت کو رخصت کرنے گئے، حضرت نے وہاں کچھ مناسب نصیحتیں فرمائیں اور وعدہ فرمایا کہ اس سفر میں جو نعمتیں مجھے حاصل ہوں گی اس سے تمہیں بھی حصہ دوں گا اور واپس فرمایا، حضرت شیخ شمس الدین وہاں سے بادِلِ ناخواستہ واپس ہوئے؛ لیکن مرشد کے ادب واحترام کا یہ عالم تھاکہ منگلسی سے اجو دھیاتک حضرت کی طرف پیٹھ نہیں کی، الٹے پیرواپس ہو ئے،ادھر حضرت کی شفقت کا بھی یہ عالم تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لائے تو کچھ تبرکات مختلف بزرگوں اورمشائخ سے اس سفر کے درمیان ملے تھے وہ سب شیخ شمس الدین کے حوالے کر دیے،حتی کہ ایک غار نشین درویش نے ایک فلس حضرت کو دیا تھاوہ بھی شمس الدین کو دے دیا۔

احمد آباد

حضرت غوث العالم نے سفر دکن کاعزم کیا اوراحمد آبادتشریف لے گئے،جامع مسجد میں قیام فرمایا۔ وہاں شیخ الاسلام آپ کی خدمت میں آئے، یہ بڑے عالم و فاضل اور علوم وفنون ظاہری کے جامع تھے۔ علم ہیئت ونجوم اورحکمت میں بھی انھیں دخل تھا۔چند علمی مسائل حضرت سے دریافت کیے، حضرت نے ان کے شافی جوابات دیے؛ لیکن انھوں نے بحث شروع کردیا اور دورانِ گفتگو حضرت کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ بھی کہہ گزرے، اسی شب انھوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ تشریف لائے ہیں اور فرمایا خبردارہو جاؤ تم نے سیداشرف سے گستاخانہ حجّت کی ہے۔ آج تمہارے اکابرین کی روحانیت تمہارے کام آگئی اور تم بچ گئے اگر آئندہ ایسی گستاخانہ جسارت کی تو سخت نقصان اٹھاؤ گے۔ شیخ الاسلام لرزاٹھے اورصبح ہی شہر کے ایک رئیس کواپنی سفارش کے لیے ہمراہ لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی غلطی کی معافی چاہی، اور اسی وقت شرفِ بیعت سے سرفراز ہوئے۔ خلوص وعقیدت کایہ عالم تھا کہ ایک ساعت کے لیے بھی خدمت سے جدا نہیں ہوتے تھے۔ حضرت نے کافی عرصہ گجرات میں قیام فرمایا اور ان کی تعلیم وتربیت کے بعد اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔ اس علاقے میں حضرت کے مریدین کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی، ان کی ہدایت کے لیے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کانام ”اشرف الفوائد“ رکھا۔

گُلبرگہْ شریفْ

پہلی بار آپ گلبرگہ تشریف لے گئے تو وہاں کی آب و ہوا آپ کو بہت پسند آئی اور ایک پُرفضا اور بارونق مقام پر خیمے نصب کردیے گئے۔ یہ وہی مقام تھا جہاں بعدکوحضرت شیخ بندہ نواز گیسودراز رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ تعمیر ہوئی۔

مقامِ غَوْثِیتْ

رات کے وقت آپ کے خیمۂ خاص میں کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ہاں کبھی نورالعین یاشیخ کبیر کو یاد فرماتے اور حقائق و معارف بیان فرماتے۔ ایک رات آپ نے شیخ الاسلام گجراتی کو طلب فرمایا جس وقت وہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت حضرت پر ایک عجیب و غریب اضطراب کی کیفیت طاری تھی جوحد بیان سے باہر ہے، شیخ الاسلام پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ خوفزدہ ہوکر خیمے سے باہر نکل آئے، تقریباً ایک ساعت حضرت پریہی عالم کیف طاری رہا،اس کے بعد آپ نے فرمایا ”الحمدللہ میسّر آمد“یعنی خدا کا شکرہے مل گیا، نورالعین، شیخ کبیر اورشیخ الاسلام نے حضرت کے یہ الفاظ سنے؛لیکن محوحیرت تھے کہ اس کیفیت کا سبب کیاہے؟ اوراس شکرانِ نعمت کا مطلب کیا ہے؟ کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ حضرت سے اس سلسلے میں دریافت کرے، بالآخر نورالعین نے ہمت کر کے پوچھا:حضرت غوث العالم نے فرمایا کہ آج رجب المرجب ۷۷۰ ؁ھ ہے، جس غوث زمانہ سے ”جبل الفتح“ میں میری ملاقات ہوئی تھی آج ان کا انتقال ہوگیا۔ اکابر روزگار، اولیاء با وقار اور اقطابِ نامدارمیں ہر ایک خواہش مند تھاکہ ا س عہدۂ عظیم اور منصب جلیل کے لیے اس کا انتخاب ہوجائے؛ لیکن پروردگار عالم نے اپنے لطف وکرم سے اس حقیر کے سرپرتاج غوثیت رکھا اوراس منصب بلند سے نوازا۔
ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْم

یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بہت فضل و کرم والا ہے۔

غوث کے نماز جنازہ کی امامت غوث ہی کرتا ہے، میں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی تدفین میں شریک ہوا، تمام اصحاب پر اس خوشخبری سے وجد کا عالم طاری ہوگیا اور بصد آداب حضرت کی خدمت میں مبارکباد پیش کیا، اس منصب غوثیت کے حصول کے بعدجومرتبۂ ولایت میں بلند ترین مقام ہے حضرت”غوث العالم“ ہو گئے اور چند دنوں قیام کے بعد آپ نے گلبرگہ سے کوچ فرمایا۔۔

ہندؤں کو آپ سے عقیدت

آپ نظام آباد دکن تشریف لے گئے اور مسجد میں قیام فرمایا،وہاں کے ہندؤں نے آپ کی اور آپ کے اصحاب کی بڑی تواضع کیا اور وہاں کے مسلمانوں سے زیادہ عقیدت ومحبت کا مظاہرہ کیا، ویسے بھی آپ کے عقیدتمندوں میں بہت بڑی تعداد ہندؤں کی تھی جو حضرت سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے اورا پنا دکھ درد بیان کرتے۔ اور دعائیں وتعویذات لیتے اور آپ سے فیضیاب ہوتے۔ صبح جب آپ نظام آباد دکن سے روانہ ہونے لگے تو سارے ہندو آپ کو رخصت کرنے آئے۔ آپ نے ان کی خوشحالی کے لیے دعافرمائی، کالپی ہوتے ہوئے روح آبادتشریف لائے۔ آج بھی ہندؤں کوحضرت کے آستانۂ عالیہ سے بڑالگاؤ ہے،اور بکثرت ہندو زائرین اورحاجتمند بھی یہاں آتے ہیں۔ حضرت کے گنبد کے اندرسنگ مَر مَرکا فرش اور اندرونی دیواروں پر ٹائلس بنارس کے ایک ہندو ”جوالاپرشاد“ نے لگوایا ہے۔ اس کے علاوہ آستانۂ عالیہ پر ہندی مہینے کے حساب سے ”ماہ اگہن“ میں انکا میلہ بھی ہر سال لگتا ہے، جس میں ہندو زائرین کابڑا ہجوم ہوتا ہے۔

حضرت شیخ کبیر رحمتہ اللہ علیہ کا وصال

۷۷۹ ؁ھ میں حضرت کے خلیفۂ خاص شیخ کبیر رحمتہ اللہ علیہ نے سفرآخرت فرمایا۔ ان کے صاحبزادے شیخ محمدکم سِن تھے۔ حضرت نے پہلے ان کی علوم ظاہری کی تعلیم پر زور دیا۔ علوم ظاہری کی تحصیل وتکمیل کے بعد اوّل سے آخرتک سلوک کے سارے درجات طے کرائے۔ حضرت ان پر اس قدر شفقت فرماتے تھے کہ نورالعین بھی رشک کرتے تھے۔ انہیں ”دُرّیتیم“کے خطاب سے نوازا، اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا، ”سُر ہرپور“ ان کی شادی طے کرنے خود تشریف لے گئے اور ایک تاجر کی لڑکی سے ان کی شادی کردی۔

رُوح آباد

ایک دن حضرت روح آبادمیں تشریف فرماتھے،رمضان المبارک کا مہینہ تھا ۲۵/ رمضان المبارک کو اتفاق سے شیخ الاسلام گجراتی بھی حضرت کی خدمت میں آگئے، حضرت کی خانقاہ کا یہ دستورتھا کہ بعد نمازعصرافطار اور کھانا تقسیم ہوجاتاتھا، جس وقت شیخ الاسلام گجراتی کے پاس افطار اور کھانا پہونچا وہ نمازپڑھ رہے تھے، نمازعصرپڑھنے کے بعد جیسے ہی ان کا حصہ دیا گیا فوراً کھانا شروع کر دیا اور روزہ توڑ ڈالا، سارے لوگ حیران رہ گئے کہ اتنے بڑے عالمِ دین اورعمداً روزہ توڑ ڈالا،حضرت جب مسجد میں نماز مغرب کے لیے تشریف لائے اور آپ کو معلوم ہوا تو دریافت فرمایا کہ تم نے روز ہ کیوں توڑ ڈالا؟شیخ الاسلام گجراتی نے جواب دیا کہ ایک روزے کا کفارہ ساٹھ روزوں سے ادا کرنا میرے لیے آسان ہے، یہ میں کرلوں گا؛ لیکن آپ کے حکم کی تعمیل میں تاخیر میرے لیے ناممکن تھی، جب حضور نے افطار اور کھاناعنایت فرمادیاتواس کے کھانے میں تاخیر کیوں کرتا؟

محبوب یزدانی

اس کے بعد ۲۷/ رمضان المبارک۷۸۲ ؁ھ کو اپنے تمام اصحاب کو شب قدر کی زیارت کرائی۔
صبح صادق کے وقت ہاتف غیب نے آواز دی ”اشرف ہمارامحبوب ہے“ حضرت بالعموم نمازتہجد مسجد حرام میں ادا فرماتے تھے۔ اس دن نماز کے لیے تشریف لے گئے تو شیخ نجم الدین قلندر جواس وقت قبلۂ اصحابِ حرم اور کعبۂ اربابِ کرم تھے، حضرت کو مبارکباد دی کہ آؤ اشرف سمنانی محبوب یزدانی کا خطاب تمہیں مبارک ہو، حضرت نے ادب سے سر جھکالیا اورشیخ نجم الدین سے معانقہ فرمایا، اس وقت تقریباً پانچ سو مشائخ کرام حرمِ کعبہ میں موجود تھے۔ سب پرحالت وجد طاری ہوگئی اور ہر ایک نے مبارکباد پیش کیا، اس وقت سے اکابرین زمانہ آپ کو محبوب یزدانی کے لقب سے یاد فرمانے لگے۔

دہریہ کا قبول اسلام

ایک دن حضرت کی خدمت میں ایک دہریہ فلسفی آیا، شکل وصورت اورلباس سے بڑا پکّا مسلمان معلوم ہوتا تھا۔ جب آپ کی نگاہ اس پر پڑی تو فرمایاکیوں بہروپ بنائے پھرتے ہو؟ تم اپنی حقیقت صوفیاء کی نگاہ سے نہیں چھپا سکتے، فلسفی دل ہی دل میں بڑاشرمندہ ہوا اورتائب ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا الحمدللہ خدا نے تمہیں توبہ کی توفیق نصیب فرمائی، حضرت کے اس کشف پر فلسفی کو بہت حیرت ہوئی۔ فوراً قدموں پرگرپڑا اور مرید ہوگیا۔

جہانگیر وجانگیر

ایک مرتبہ خانقاہ عالیہ میں ایک فقیر جس کانام علی قلندرتھا، قلندروں کی ایک جماعت لے کر آیا اور آپ سے پوچھا کہ آپ اپنے کو جہانگیر کیوں کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ میرے پیرکا دیا ہوا خطاب ہے۔ انھوں نے خود مجھے جہانگیر کہا، اوران کے کہنے سے سب کہنے لگے، قلندرنے پوچھا آپ کے جہانگیر ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ حضرت کو جلال آگیا اور فرمایا میں جہانگیربھی ہوںاور جانگیربھی۔ قلندرفوراً زمین پرگرا اور اس کی روح پرواز کرگئی۔

حضرت شیخ شرف الدین یحیٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ کی نمازجنازہ

اس کے بعدحضرت نے اپنے پیرومرشد کی زیارت کا ارادہ فرمایا اور بنگال کی جانب روانہ ہوئے، جس دن حدودِ بہارمیں قدم رکھا اسی دن حضرت شیخ شرف الدین یحیٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ نے وفات پائی، حضرت نے وفات سے پہلے اپنے احباب واصحاب، خلفاء ومریدین سے وصیت فرمائی کہ ایک سید صحیح النسب تارک السلطنت حافظ قرأت سبعہ تشریف لارہے ہیں وہی میری نماز جنازہ پڑھاویں گے۔ ان کے اصحاب تجہیز و تکفین کی ساری تیاری کر کے نماز جنازہ پڑھانے کے لیے حضرت کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ جب دیر ہوئی توبعض لوگ شہر کے باہر حضرت کا راستہ دیکھنے کے لیے نکلے ادھرحضرت بھی پہنچ گئے۔ حضرت سے سلام ومصافحہ ومعانقہ کے بعد آپ کا تعارف حاصل کیا تواطمینان ہوا کہ حضرت ے آپ ہی کے بارے میں وصیت فرمائی ہے اور سب نے نماز جنازہ پڑھانے کے لئے اصرار کیا۔حضرت نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیخ کوقبر میں اتارا۔ اس وقت حضرت کے دل میں خیال آیا کہ معلوم نہیں میرے پیر و مرشد کا کیاحال ہے؟ فوراً حضرت شیخ یحیٰ منیری کی روحانیت آپ پر منکشف ہوئی اور فرمایا کہ فرزنداشرف! مطمئن رہو! تمہارے پیر بصحت وسلامت ہیں، تو حضرت کواطمینان ہو گیا، تجہیز و تکفین کے تھوڑی دیربعد شیخ شرف الدین  دست مبارک قبر شریف سے باہر نکل آیا۔ سب لوگ حیرت میں پڑ گئے اورکسی کے کچھ سمجھ میںنہیں آیا۔ لوگوں نے اس سلسلے میں حضرت سے رجوع کیا، حضرت نے فرمایا کہ تمہارے شیخ کو مردانِ غیب نے ایک کلاہ دی تھی اور شیخ نے وصیت کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ ہی قبرمیں رکھی جائیگی، تم لوگوں نے وہ کلاہ حضرت کے قبرمیں نہیں رکھی، اب سب کو یا د آگیا فوراً کلاہ لاکر ہاتھ میں دی گئی، اسی وقت دست مبارک قبر کے اندر ہوگیا۔ نمازجنازہ کے بعدحضرت نیشیخ کی خانقاہ میں قیام فرمایا، رات کو آپ نے حضرت شیخ یحیٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا،آپ نے حضرت کو اپنے مکتوبات پڑھنے کی ہدایت فرمائی اور اپناخرقہ عنایت فرمایا، آپ نے مکتوبات کابڑی دلچسپی سے مطالعہ فرمایا، آپ نے ہندوستان میں فن تصوف میں لکھی گئی صرف دو کتابوں کاخاص طور پر ذکر فرمایا ہے، ایک مکتوبات شیخ شرف الدین یحیٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے ”فو ائد الفوائد“ مکتوبات حضرت نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی رحمتہ اللہ علیہ اوران دونوں سے آپ نے استفادبھی فرمایا۔ یہاں سے رخصت ہوتے وقت حضرت شرف الدین یحیٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ کی بشارت کے مطابق خرقہ طلب کیا، تو شیخ کے اصحاب نے تأ مل کیا، آپ نے فرمایا اس میں بحث کی کوئی ضرورت نہیں،خرقۂ مبارک حضرت کی قبر شریف پر رکھ دیاجائے، جس کو حضرت دیناچا ہیں گے وہ خود اٹھالے گا۔ یہ فیصلہ سب نے تسلیم کیا اورخرقۂ مبارک لاکرقبر شریف پر رکھ دیا گیا۔ سب نے باری باری اٹھانا چاہا؛ لیکن کوئی جگہ سے ہلانہ سکا،لیکن حضرت کی جب باری آئی تو آپ نے ہاتھ بڑھاکر پھول کی طرح اٹھا لیا اوراسی دقت زیب تن فرمایا اور اپنے پیر ومرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور کچھ دنوں پنڈوہ شریف شیخ کی خدمت میں رہے۔

بنارس

• آپ پنڈوہ سے واپسی میں بنارس تشریف لائے اور کچھ دنوں بنارس میں قیام فرمایا۔ ایک دن آپ چہل قدمی کیلیے نکلے ایک بُت خانہ کی طرف سے گذر ہوا وہاں ہند وپوجا پاٹ میں مصروف تھے، آپ نے سوچا ہر چیز میں عکس جمالِ خدا موجود ہے، اگر ایسا نہ ہوتاتو بتوں کی پوجا ہرگز نہ ہوتی، پجاریوں نے جب آپ کودیکھا |تو آپ کے پاس آئے اور مذہب کی فضیلت پر گفتگو ہو نے لگی اورانھوں نے اپنے مذہب کی حقانیت پر دلیلیں پیش کیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر یہی بت ہمارے مذہب کا کلمہ پڑھیں تو ایمان لاؤگے؟ سب نے وعدہ کیا، ایک بت قریب ہی تھا آپ نے اس سے اٹھالیا اور فرمایا کہ اے بت! اگردین پاک مصطفےٰ ﷺ برحق ہے تو تو کلمہ پڑھ! فوراًبت نے کلمہ پڑھا۔ لَااِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اورسب پجاری اس وقت مسلمان ہو گئے۔

سَفر عَربْ وفلسطین

جب آپ نے تیسری بار عرب کاسفرفرمایا تو شیخ بدیع الدین شاہ مدار رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہو ئی، اور وہ بہت دنوں حضرت کے ر فیق سفررہے، اس سفرمیں جب آپ فلسطین پہونچے تو بہت لوگ انگریزوں کے ڈر سے پوشیدہ طور پرآپ کے دست حق پرست پر ایمان لائے اور آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور مرید ہوئے۔ اس سفرمیں حضرت نظام الدین یمنی مؤلف ”لطائف اشرفی“بھی آپ کے ہمراہ تھے۔

دمشْق

آپ دمشق پہونچے اور جامع مسجددمشق میں قیام فرمایا، ایک ترکی عورت اپنے بارہ سالہ لڑکے کو لیکرآئی او رونے لگی،حضرت نے دیکھاتو اس میں زندگی کے آثار باقی نہ تھے، آپ نے فرمایا مردہ کو زندہ کرنا جناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا،میں اس مرتبہ کی لیاقت نہیں رکھتا۔ عورت بے قرار ہوگئی اوعرض کیا کہ اولیائے کرام کو خدا نے یہ طاقت عنایت فرمائی ہے۔ حضرت نے تھوڑی دیرمرا قبہ کے بعدسر اٹھایا اور فرمایا کہ اے بچے! تیری ماں بے چین ہے”قُمْ بِاِذْنِ الله“ یعنی خدا کے حکم سے کھڑا ہو جا۔ لڑکا فوراً اٹھ بیٹھا،سارے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی، لوگ جوق درجوق حضرت کی خدمت میں آنے لگے۔ آپ نے اپنے احباب کو حکم دیا، اب یہاں سے سامانِ سفراٹھاؤ! ورنہ ہمارے اوقات میں پڑیگا۔

قسطنطنیہ

آپ قسطنطنیہ تشریف لے گئے،یہاں کمال نام کا ایک ایرانی مجوسی جو کچھ دنوں جوگیوں کی صحبت میں رہ چکاتھا، حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوا۔ آپ نے اُسے مرید کیا اور پھر اجازت و خلافت عطافرمائی۔ اسی جگہ پورک نام کا ایک انگریزلڑکا بھی مسلمان ہوا۔ اس کے لیے حضرت نے کھانا منگوایا اور ایک لقمہ اپنے دست مبارک سے اس کے منھ میں رکھا اور اس کے ساتھ خودبھی کھانا کھایا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ:۔”مَنْ أَكَلَ مَعَ الْمَغْفُوْرِ فَھُوَ مَغْفُوْرٌ“ ”جو کسی مغفور کے ساتھ کھانا کھائے وہ بھی مغفور ہے“

سفر رومْ

آپ نے دو مرتبہ روم کا سفر فرمایا، پہلی بار روم تشریف فرماہوئے تو | حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ کے آستانہ پر سلطان ولد کے صاحبزادے سجادہ نشین تھے، حضرت نے ایک خانقاہ میں قیام فرمایا۔ صاحب سجادہ نے حضرت کو دعوت دی اور بھی بہت سے مشائخ کو اس دعوت میں مدعو کیا، ان مدعوئین میں روم کے شیخ الاسلام بھی تھے، جو بڑے ذی علم اور قابل تھے؛ لیکن حضرت کے بارے میں ان کے خیالات اچھے نہ تھے، شیخ الاسلام نے اپنے دل میں سوچ رکھاتھاکہ جب حضرت مجلس میں آویں گے توان سے ایسا مشکل سوال پوچھا جائے جس کا جواب وہ نہ دے سکیں، سارے لوگ آگئے جنھیں دعوت دی گئی تھی، اس کے بعدحضرت تشریف لائے، حضرت جب دسترخوان کے قریب پہونچے تو لوگوں نے اورخود شیخ الاسلام نے بھی دیکھا کہ حضرت کے جسم مبارک سے ایک صورت نکلی جو بالکل حضرت کے مشابہ تھی اور اس سے دوسری صورت پیدا ہوئی اور دوسری سے تیری یہاں تک کہ سو صورتیں حضرت کے مشابہ مجلس میں ظاہر ہوئیں، حضرت نے برجستہ یہ پڑھا ؎

ہر ولی کآئینۂ صورت گراست
صد ہزاراں صورت ازوے برودراست
ہرولی مصور کے آئینہ کے مانند ہے جس سے لاکھوں تصوریں ظاہر ہوتی ہیں۔
مخدوم زادہ رومی نے آگے بڑھ کرحضرت کا استقبال کیا اور اعزاز کے ساتھ آپ کا دست مبارک پکڑ کر باعزت بٹھایا، حضرت شیخ الاسلام کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ان صورتوں میں سے آپ کس سے سوال کر یں گے؟ یہ سنتے ہی شیخ الاسلام بدحواس ہو گئے اور بے اختیار حضرت کے قدموں پر گرپڑے،اور مخدوم زادے سے اپنی معافی کے لیے سفارش کی، حضرت نے فرمایا مخدوم زادے کی خاطر معاف کرتا ہوں اب آئندہ کسی صوفی کے ساتھ ایسی حرکت نہ کرنا۔ ایک دن حضرت نماز فجر کے بعد وظیفہ میں مصروف تھے۔ شیخ الاسلام ننگے سر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور اپنی غلطی کی معافی چاہی اور بتایاکہ میں رات میں اپنے مکان کی چھت پر لیٹاہوا تھا کہ اچانک دس آدمی ننگی تلواریں لیے ہوئے آئے اور کہنے لگے تو غوث العالم کی برائی کرتا ہے۔ ہم تیراسر کاٹنے آئے ہیں۔ اسی وقت ایک نورانی شکل بزرگ تشریف لائے اور فرمایاکہ میں نے اس کے گناہوں کو حضرت غوث العالم سے معاف کرا لیا ہے اب اس کو چھوڑ دو، جب ان لوگوں نے مجھ کو چھوڑ دیا اور چلے گئے تو اس بزرگ نے مجھے بہت برا بھلا کہا، اور فرمایاآئندہ کبھی مردان خدا کے معاملات میں دخل نہ دینا،فوراً جاؤ اور ان کے قدموں پر گر کر معافی مانگو،حضرت یہ سن کر مسکرا دئے،اور فرمایا | کہ وہ بزرگ تمہارے دادا تھے۔ جو صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے، ان کی روحانیت تمہارے کام آئی، آئندہ ان کی نصیحت کا خیال رکھنا اور فقراء سے بدظنی نہ رکھنا۔

روم میں قیام کے درمیان قاضی محمد کے بیٹے محمد کو طلب معرفت کا شوق پیدا ہوا، منصب صدارت وقضا چھوڑ کر حضرت کی خدمت میں رہنے لگے، حضرت ایک زمانہ تک نہ ان سے مخاطب ہوئے اور نہ اپنی محفل میں انھیں بیٹھنے کی اجازت دی بلکہ کبھی بھی بڑی سختی سے فرماتے کہ یہ قاضی زادہ بڑا بیغیرت ہے، روٹی کھانے کے لیے میرے یہاں آتاہے، مگران کے شوق و ذوق کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت باہر تشریف لے جاتے تو وہ روتے تڑپتے حضرت کے پیچھے چلتے رہتے، ایک دن مایوسی کے عالم میں اپنے حجرے میں منھ چھیائے پڑے ہو ئے تھے، دل میں خیال پیدا ہوا کہ شرف و لایت میرے نصیب میں نہیں ہے۔ اچانک قدموں کی آہٹ سنائی دی اور ایک آواز آئی محمدرومی! اطمینان رکھ!تیری کامیابی کاوقت آگیا ہے۔ سراٹھایاتو دیکھاحضرت حجرے سے باہر نکل رہے ہیں، آتش شوق اوربھی بھڑک اٹھی۔ ادھر نورالعین بہت زیادہ بیمار ہو گئے، یہاں تک کرمقامی حکیموں نے جواب د یدیا، بالآخر ایک یونانی حکیم کو بلوایا گیا۔اس نے نبض اور قارورہ دیکھا اوربتایامیں اس مرض کا کامیاب علاج کرسکتا ہوں۔ مگر دوا بنانے میں تھوڑا انسانی گوشت کی ضرورت ہوگی، جس سے تیل بنایاجائے گا، جس کی صاحبزادے کے جسم پرمالش کی جائیگی۔ سب حیران تھے کہ آدمی کا گوشت بھلاکیسے مل سکتا ہے؟ ادھر قاضی زادے کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو فوراً ایک چھری لے کر شہر کے باہر چلے گئے،اورتھوڑی دیرمیں اپنا ایک ہاتھ کاٹ کر لائے، اور ایک برتن میں رکھ کر حکیم کو دیا، حکیم نے روغن تیار کیا اور نورالعین کے جسم پر تیل کی مالش شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ صحتیاب ہونے لگے، حضرت کو اس واقع کا کچھ علم نہ تھا۔ قاضی زادے اس واقعہ کے بعد سے حضرت سے چھپ گئے۔ جب نورالعین صحت یاب ہو گئے تو حضرت کو بڑا تعجب ہوا اور آپ نے طبیب سے پوچھا روغن کیسے تیار ہو ا؟ طبیب نے بتایاکہ حضرت کا ایک مریدجو اس شکل وصورت کاہے اپنا ایک ہاتھ کاٹ کر لایا تھا، میں نے اسی سے یہ تیل بنایا ہے۔ اب حضرت کو معلوم ہواکہ قاضی زادہ رومی نے یہ قربانی پیش کی ہے۔ اسی وقت قاضی زادہ کو بلایا اور ان کی حالت پر بہت افسوس فرمایا اور تاکید فرمائی کہ اب ایسا کام نہ کرنا، اس کے بعد آپ نے قاضی زادے کو اپنے قریب بلایا اور کچھ پڑھ کر ان کے ہاتھ پر دَم فرمایا۔ دَم کر تے ہی سارا | زخم بھر گیا، اور ہاتھ اپنے اصلی حالت پرآگیا۔ اس کے بعدحضرت کی قاضی زادہ پروہ نظرعنایت ہوئی کہ اسرار ورموز صو فیا اور راہ سلوک کی ساری منزلیں آنِ واحدمیں طے کر وا دیا۔ اوراپنی اجازت و خلافت سے سرفراز فرماکرنیشاپور کا صاحب ولایت بنادیا۔

مَہدیت کا دعویدار

حضرت ایک دن جامع مسجد میں تشریف فرماتھے۔ قاضی زادہ رومی اور مخدوم زادہ | حضرت مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ بھی موجود تھے۔ لوگوں نے ذکر کیا کہ یہاں ایک شخص ایسا آیا ہے جو امام مہدی ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ حضرت نے فرمایا صحیح حدیثوں میں حضرت امام مہدی کی جو پہچان بتائی گئی ہے اس کو اس کے اندر دیکھنا چاہیے۔ میں اس شخص کو دیکھنا چاہتا ہوں، اتفاقاً وہ شخص خود حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور فرمایا کہ یہ منصب دعویٰ کرنے سے نہیں حاصل ہوگا، پروردگارعالم جس کو یہ منصب عطافرمائے گا اس کے اندرمہدی کے آثار و علامت بھی پائی جائیں گئی، تم اس جھگڑے میں مت پڑو۔
روم میں ایک شخص حضرت کے پیچھے پڑا ہوا تھا، اور لوگوں سے آپ کی برائی کرتا تھا۔ ایک دن مخدوم زادہ رومی نے حضرت سے بیان فرمایا کہ آج میں نے اپنی ظاہر آنکھوں سے دیکھا ہے کہ فرشتوں کی ایک جماعت بڑے غیض و غضب کے عالم میں آسمان سے اتری ہے، میں نے اُن سے پوچھا آپ لوگ کون ہیں؟ اور کہاں جاتے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ ملائکۂ آسمانی ہیں، ایک شخص غوث العالم کی برائی کرتا ہے،ہم اس کے ایمان کی جڑ کاٹنے جاتے ہیں۔(نعوذ بالله من ذالک)

حضرت نے نواح روم میں عرصہ دراز تک قیام فرمایا، اس کے بعد آپ نے طواف خانۂ کعبہ کا ارادہ فرمایا، حضرت بدیع الدین شا ہ مدار رحمتہ اللہ علیہ روم تک ہمراہ تھے، حضرت نے حرمین شریفین حاضری کا ارادہ فرمایاتوشیخ بدیع الدین رحمتہ اللہ علیہ نے ہندوستان واپسی کا ارادہ کیا۔ جس وقت جدا ہونے لگے آپ نے اپناخرقۂ محبت حضرت کو پہنایا اور بہت روئے اور رنجیدہ دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ ہند وستان واپس ہوئے۔

سفر حجازْ

حضرت غوث العالم ساحل روم سے بحری راستے سے بذریعۂ کشتی حجاز کے لیے روانہ ہو ئے، اثنائے راہ میں ہوا کم ہوگئی اور تین دن ہوانہ چلی، کشتی لنگرانداز ہوگئی، سارے مسافر پریشان ہو گئے۔ ادھر حضرت پر عجیب استغراق کا عالم طاری تھا۔ نماز اور وظائف کے اوقات کے علاوہ آپ کو ہوش ہی نہیں رہتا تھا، جب مسافروں کی بے چینی اور پریشانی حد سے بڑھ گئی اور ہوا نہ چلنے کی وجہ سے صورت حال تشویشناک ہی نہیں بلکہ خطرناک ہوگئی اورمسافروں کی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تو مجبوراً حضرت کو صورت حال کی خبر دی گئی۔ اور خطرے سے آگاہ کیا گیا۔ توحضرت مسکرا دئے اور فرمایا مجھ کو مجذوب شیرازی کا ایک شعر یاد آرہا ہے اس کوپڑھناچاہئے تو ہوا چل جائے گی ؎

کشتی شکشتگانم اے یاد شرط برخیز
باشد کہ بازبینم آں یار آشنارا
اے سمندری ہوا توچل پڑ اس لیے کہ میں کشتی شکشتہ ہوں ہو سکتا ہے کہ تیری وجہ سے دوبارہ میں اپنے محبوب کو دیکھ لوں۔
ابھی پوراشعر ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ہوا چل گئی اورکشتی تیزی کیساتھ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ حجازپہونچ کر آپ نے مناسک حج ادا فرمائے۔ ایک دن مشائخ حرم نے آپ سے وعظ کے لیے اصرارکیا۔ اس وقت حرم شریف میں بڑا مجمع تھا۔ آپ نے زبان عربی میں بڑی فصیح وبلیغ تقریرفرمائی،آپ کی تقریر سن کر لوگ دنگ رہ گئے اور اس قدر متأثر ہوئے کہ یہاں بہت سے لوگ آپ کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔

شام

اس کے بعد ملک شام تشریف لے گئے۔ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ اور مزارات انبیائے کرام واولیائے عظام کی زیارت فرمائی، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مزار پُر انوار پر بھی آپ کو حاضری کا شرف حاصل ہوا اور وہاں سے آپ کو خاص فیوض اور برکات حاصل ہوئے، جب آپ کوہِ طور پر تشریف لے گئے حضرت خضرعلیہ السلام بھی ہمراہ تھے۔ وہاں ابلیس لعین آپ سے ملا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے جناب آدم علیہ السلام کو کیوں سجدہ نہیں کیا تھا۔ بولامیں عاشق صادق ہوں، غیر کوکیوں سجدہ کرتا؟ آپ نے فرمایا محبت کا | تقاضہ یہ ہے کہ محبوب کے حکم میں عقل وخرد کو نہ داخل کرے۔ اگر اپنی نامرادی میں ہی محبوب کی مراد ہے تو وہی کرناچاہئے جورضائے محبوب ہو۔ اور حقیقی محبت ہے۔

سفر فارس اور حافظ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات

حضرت شام سے فارس تشریف لے گئے اور وہاں شیراز جاکرحافظ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات فرمائی اور ایک مدت ان کی صحبت میں رہ کر لطف اندوز ہوئے، حضرت فرماتے تھے کہ حافظ شیرازی سلسلۂ اویسیہ کے اعلیٰ مشرب بزرگ اور مجذوباں روزگارمیں سے ہیں، اکابرین وقت انھیں ”لسان الغیب“ کہتے ہیں، ان کے اشعار کے حقیقی قدردان صوفیائے کرام ہیں۔

سمنان

اس سفرمیں حضرت اپنے عزیز وطن سمنان بھی تشریف لے گئے، آپ کی والدۂ محترمہ کا وصال ہو چکا تھا۔ آپ کے برادری حقیقی سیدمحمد اعرف اس وقت سمنان کے سلطان تھے۔ اس سفرمیں آپ نے سمنان میں بہت کم قیام فرمایا۔

سفر ترکستان

سمنان سے آپ ترکستان میں مقام ”یسا“ تشریف لے گئے اور یہاں حضرت خواجہ احمد یسوی رحمتہ اللہ علیہ کے آستانے پر زیارت کے لئے تشریف لے گئے، صاحب سجادہ سے ملاقات ہوئی، بڑے اخلاق و محبت سے پیش آئے۔ حضرت غوث العالم کی ماں سلطان احمد یسوی کی اولاد سے تھیں، گویا یہ آپ کا نانہال بھی تھا۔ صاحب سجادہ نے حضرت سے پوچھاکہ خاندان یسوی سے قریبی قرابت اورتعلق ہونے کے باوجود آپ نے دوسری جگہ ارادت کیوں پسند کی؟ حضرت نے فرمایا خدا کی مرضی یہی تھی، اور اس سلسلے میں خضر علیہ السلام نے میری رہنمائی فرمائی، اورمیں ہندوستان گیا اور وہاں کے مشائخ سے فیوض و برکات حاصل کئے، صاحب سجادہ نے اپنے خاندان یسویہ کے اذکار و اشغال کی اسی وقت اجازت مرحمت فرمائی، صاحب سجادہ نے سیّدعبدالرزاق کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت غوث العالم نے فرمایا یہ حضرت غوث الاعظم کی اولاد سے ہیں، جیلان کے رہنے والے ہیں، اور میرے بھانجے ہوتے ہیں، میں نے ان کو اپنی فرزندی میں لے لیا ہے، شیخ نے فرمایاہم بھی قبول کرتے ہیں۔ تم ہمارے فرزند ہو، اور یہ ہمارے فرزند کا فرزند ہے۔اور اس کے لیے بارگاہ الٰہی میں دعا کرتا ہوں کہ پروردگارِ عالم اس لڑکے کو اپنے وقت کاشیخ الاسلام بنائے۔
ایک دن خانقاہ یسویہ میں صاحب سجادہ اورخاندان یسویہ کے مشائخ موجودتھے، سب نے آپ سے وعظ کے لیے اصرار کیا، آپ نے انکار کیا؛ لیکن لوگوں کے مسلسل اصرار پر وعظ کے لئے کھڑے ہو ئے۔ اگرچہ حضرت غوث العالم ترکستانی زبان جانتے تھے؛ لیکن اس میں پوری مہارت نہ تھی، اس کے باوجود آپ نے ترکستان زبان میں ایسی فصیح وبليغ تقریر فرمائی کہ سارے مشائخ جھوم اٹھے۔ تقریر ایسی مؤثر اور دل پذیر تھی کہ بہت لوگوں نے تقریر کے بعد توبہ کیا، اور پابند شریعت ہو گئے، اور ایک سو آدمیوں نے گھر بار چھوڑ کر آپ کی خدمت اختیار کرلی، اور آپ کے ساتھ ہو گئے، انھیں لوگوں میں”تنگر قلی“ بھی تھے، جن کا ذکر ”لطائف اشرفی“ میں بار بار آیا ہے۔ جن لوگوں نے آپ کی صحبت اختیار کی ان میں ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق روحانیت کے بلند مقام تک پہونچا۔

ماوَراء النہر

حضرت غوث العالم ماوراء النہر تشریف لے گئے۔ جہاں حضرت خواجہ مو د ودچشتی رحمتہ اللہ علیہ کا آستانہ ہے اور حضرت کے روضۂ مبارک کی زیارت سے فیضیاب ہوئے۔ صاحب سجادہ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تو وہ حلقۂ ذکر میں بیٹھے ہوئے ذکرجہر فرمارہے تھے، جب ذکر سے فارغ ہو ئے تو فرمایا کہ خواجہ بزرگ سے اب تک مشائخ چشت حلقۂ ذکر کے پابند رہے ہیں اور غوث العالم سے فرمایاکہ ذکر حلقہ ہمارے مشائخ کا معمول رہاہے، اس کی پابندی ضروری ہے اور ”مسبعات معشر“ پڑھنے کی تاکید فرمائی۔

حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ

اس دیار میں حضرت کی ملاقات خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی، حضرت سید عبدالرزاق کاجب تعارف حاصل ہوا تو انھوں نے بھی آپ کو اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازا۔
خواجہ نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے سالکوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار فرمایا تھا، اور اپنے مریدین اور طالبین کو اسی طریقے سے معرفت الٰہی تک پہو نچاتے تھے۔ کچھ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ مشرب کیوں اختیار فرمایا؟ آپ نے فرمایا کہ اس زمانے کے طلباء کم ہمت ہیں، جو را ہِ سلوک کے مصائب کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اس لیے میں انھیں مختصر سلوک سے مقصد تک پہونچا دیتا ہوں، آپ نے مثال دے کرسمجھایا کہ ایک شخص قافلے کے ساتھ کوہستانی راستہ سے سفرکرے اوردوسرا کشتی میں بیٹھ کر کعبہ دونوں پہونچیں گے؛ لیکن ایک جلد پہونچے گا اور دوسرا دیر میں۔

حضرت غوث العالم کے سامنے کسی نے خواجہ سے پوچھا کہ آپ کا سلسلہ کہاں تک پہونچتا ہے؟ فرمایاکہ کوئی سلسلہ کسی جگہ نہیں پہونچتا، سلوک صورت پر نہیں ہوتا، بلکہ سلسلۂ معنوی سے ہوتا ہے اور وہ ایک ہی ہے۔ ایک شخص نے خواجہ سے پوچھا کہ آپ کے طریقہ میں ذکر جہر در خلوت ہے یا نہیں؟ فرمایاکہ خلوت در انجمن ہے ظاہربخلق باطن بحق۔

دل و جانم بتومشتول نظردرچپ راست
تانہ دانند رقیباںکہ تو منظور منے
میرا دل وجاں تم پر فریفتہ ہے لیکن نگاہیں ادھر ادھر ہیں تاکہ
رقیبوں کو پتہ نہ چل سکے تو میرا منظور نظر ہے۔

امیر علی بیگ

حضرت ایک رئیس امیر علی بیگ کے مکان پر قیام فرما تھے۔یہ تیمور کی فوج کے سردار تھے، حضرت کو دیکھ کر امیر علی بیگ ایساگرویدہ ہو ئے کہ دولت و حکومت کو ٹھوکر مار کر حضرت کی خدمت میں لگ گئے، علوم ظاہر سے بالکل نابلدتھے، سخت ریاضت ومجاہدات کیا اور بارہ سال تک سلوک کے منازل طے کرتے رہے۔ ایک دن نورالعین نے حضرت سے کہا کہ امیر علی بیگ عرصۂ دراز سے ریاضت ومجاہدات میں مصروف ہیں۔ ابھی تک ان پر کوئی تصرف نہیں کیا گیا؟حضرت نے فرمایا کہ اب ان کی تربیت تمہارے حوالے کرتا ہوں تاکہ مجھ کو تمہارے تصرف پر باعتبار ہوجا ئے، نورالعین نے پہلے بطور انکسار انکار کیا، مگرحضرت کے اصرار سے مجبورہوکر تعمیل حکم کے لیے تیار ہو ئے، اور مراقبہ کیا، تھوڑی ہی دیر میں امیر علی کاسینہ معرفت الٰہی کاخرینہ بن گیا اور چہرے سے آثار و انوار ظاہر ہونے لگے۔ اس مجلس میں ایسے علماء بھی بیٹھے تھے جو در ویشوں کے تصرفات کے منکر تھے، حضرت نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا امیر علی بیگ یہیں کا باشندہ ہے اور اکھر جاہل ہے۔ آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں، اب میرا دعویٰ ہے کہ جس علم کامشکل سوال پوچھناہے وہ امیر علی سے پوچھ لیجیے،صحیح جواب دے گا۔ علماء نے چندمشکل سوالات کیے اور علم ہیئت اورمنطق کے اہم مسائل دریافت فرمایا امیرعلی نے ہر سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا اور سب کو مطمئن کردیا۔ سارے علماء دنگ رہ گئے اور در ویشوں کے تصرف کے قائل ہو گئے۔
جب امیر علی بیگ کے اندر مکاشفات اور ریاضات سے قابلیت پیدا ہو گئی توحضرت نے انھیں اجازت و خلافت عطافرمائی اور ”ابو المکارم“ کے لقب سے نوازا اور”سمرقند“ کاصاحب ولایت بنادیا۔

حضرتْ ابووفاء خوارزمیْ رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت غوث العالم کے حاشیہ نشینوںمیں تھے۔ ان کو شعر و شاعری سے بہت ذوق تھا، بڑے زودگو شاعر تھے، مدتوں حضرت کے ساتھ سفر میں رہے۔ اکثرحقائق ومعارف نظم کر کے حضرت کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے، ایک دن حضرت کی مجلس میں تذکرہ ہوا کہ انسان کوجو کچھ قدرت حاصل ہے وہ قادرمطلق کی دی ہوئی ہے، ورنہ انسان کچھ نہیں کر سکتا۔حضرت نے ابو الو فاء سے فرمایا کہ اس مضمون کو نظم کرو!. خوارزمی نے فی البدیہ یہ اشعار کہے ؎
بدکردم واعتزای بد تر وگناہ
چون ہست دری عذ رسہ دعوی تباہ
دعوی وجود و قدرت دعوی فعل
لاحول ولاقوۃ إلا بالله
میں نے بُرا کیا اور اسکاعذر بیان کرنا بدترین گناہ ہے، جیسے کہ ایک عذرمیں تین دعوے پائے جاتے ہیں۔ دعوی وجود، دعوی قدرت اور دعوی فعل خدا کے علاوہ کوئی طاقت وقوۃ والانہیں ہے۔ بداح بھی تشریف لے گئے اور وہاں مسجدیں قیام فرمایا۔

بلخ

حضرت بلخ بھی تشریف لے گئے، اور وہاںمسجد میں قیام فرمایا، چند درویش بھی حاضر خدمت تھے، یہاں ایک عجیب وغریب واقعہ ہوا، گفتگو کے دوران آپ نے اچانک اپنا عصا اٹھایا اوربڑے غیض وغضب کے عالم میں مسجد کی دیوار پر مارنے لگے۔ حاضرین کو حضرت کی اس حالت پربڑ اتعجب ہوا۔ جب یہ کیفیت ختم ہوگئی تو نورالعین نے اس غصے کا سبب پوچھا، تھوڑی دیر آپ خاموش رہے پھر فرمایا موصل میں دریا کے کنارے ایک میدان میں جنگ ہورہی تھی، اس جنگ میں میرا ایک رومی مرید بھی شریک تھا۔ اس نے مجھ سے مدد مانگی تو مجھے ا س کی مدد کرنا پڑا، پروردگار عالم نے میرے مرید کے لشکرکو کا میابی عطا فرمائی۔ کچھ لوگوں نے اس دن اور تاریخ کو لکھ لیا، چند دنوں کے بعد ایک زخمی سپاہی آیا جو اس جنگ میں شریک تھا۔ اس سے واقعہ کی تصدیق ہوگئی۔

شروَان

حضرت ”شروان“ بھی تشریف لے گئے حسب عادت کریمہ ایک مسجد میں قیام فرمایا۔ اس دن وہاں بڑی برفباری ہوئی تھی جس کی وجہ سے شدید سردی پڑرہی تھی، رات کے وقت کمال جوگی کو پاخانہ کی حاجت ہوئی مسجد کے باہر ایک جگہ بیٹھ گئے، سردی کی وجہ سے جسم میں حس وحرکت ختم ہوگئی اوراسی جگہ بیٹھے ہی رہ گئے۔ حضرت اس وقت وضوکر رہے تھے۔ آپ کو اچانک غیرمعمولی سردی محسوس ہوئی۔جسم ٹھنڈا ہوگیا۔ لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ آگ جل رہی ہے، کمرہ بھی بند ہے اور حضرت گرم کپڑے بھی پہنے ہو ئے ہیں اس کے باوجود آپ کو اتنی سردی کیوں محسوس ہورہی ہے؟ ان میں سے ایک صاحب کشف بزرگ نے کہا۔ حضرت اپنے کسی خادم کی تکلیف سے اس قدر پریشان ہیں،حضرت پراتنا شدید سردی کا اثربے معنیٰ نہیں ہوسکتا۔ ہمراہیوں کو دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ کمال جوگی نہیں ہیں، لوگ ان کی تلاش میں نکل پڑے۔ دیکھا تو ایک جگہ برف میں ڈھکے پڑے ہیں، لوگ انھیں اٹھاکر لائے، آگ جلائی گئی اور ان کو طرح گرمی پہونچائی گئی۔ جیسے جیسے ان کے جسم سے برف کی ٹھنڈک کا اثر ختم ہوتا تھا اور ان کی حالت سنبھلنے لگی حضرت کوٹھنڈک کا احساس کم ہونے لگا، اورجسم میں گرمی آنے لگی، جب کمال بالکل ٹھیک ہو گئے تو حضرت بی بحال ہو گئے۔

سیلان

اس سفر میں حضرت ”سیلان“ کے راستے سے گزررہے تھے۔ راستے میں جنگل تھا۔ لوگوں نے بتایا راستہ بہت خطرناک ہے۔ سانپ، بچھو اژدہے اور درندے بہت ہیں،آپ نے فرمایا ان شاء اللہ ہم لوگ اس خطرناک جنگل کے راستے سے بآسانی نکل جائیں گے۔ اور اسی راستے سے چل پڑے۔جس وقت جنگل سے گذر رہے تھے راستے میں ایک خوفناک اژدہا دکھائی دیا، قافلے والوں کا خوف اور دہشت سے براحال ہوگیا۔ حضرت نے اپنی عصا ئے مبارک سے اشارہ کیا۔ اژدہا فوراً را ستے سے ہٹ کردورچلاگیا اور قافلے والوں نے بڑی آسانی کے ساتھ اس خوفناک جنگل کے راستے کو عبور کیا۔

شہر ہرات

اثنائے سفر حضرت ”شہر ہرات“ پہونچے اوروہاں ایک مسجد میں قیام فرمایا، حضرت کے مرید گوہر علی ”شہرہرات“ کے بازارگئے، وہاں ایک خوبصورت عورت سے ملاقات ہوگئی،اس سے کچھ دیر باتیں کیں، پھر توبہ واستغفار کرتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور انتہائی غصے کے عالم میں فرمایا کہ اس گدھے کو دیکھو بازار میں گھومتا ہے اورخوبصورت عورتوں سے باتیں کرتا ہے۔مریدین کا احتساب دریتیم کرتے تھے، انھوں نے حضرت کے حکم کے مطابق کہا کہ گوہر علی کومحفل سے نکال دیاجائے، چنانچہ ایک درویش نے ان کا ہاتھ پکڑ کر گوہر علی کو محفل سے باہر نکال دیا اور کئی دن تک حضرت کی خدمت میں حاضری سے محروم رہے، اس کے بعد درّ یتیم کی سفارش پرحضرت نے ان کی غلطی کو معاف کر دیا۔

در ویش وہی کھاتاہے جوحلال ہو

ایک دفعہ ایک امیر نے جو حضرت سے کچھ بدگمان ہوگیاتھاحضرت کو دعوت دی اور دسترخوان پر طرح طرح کے کھانے لگائے گئے۔ ایک قاب میں دومرغ مسلّم تھے، جس میں ایک مرغ خریدا گیاتھا اور دوسرا مرغ زبردستی چھین لیاگیا تھا۔ حضرت نے کھاتے وقت ان مرغوں پر کوئی توجہ نہیں فرمائی تو امیر نے اصرار کیا کہ حضور مرغ بھی تناول فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا درویش وہی کھائیں گے جو ان کے لیے حلال ہواور قاب کے اندر سے ایک مرغ اپنے اور اپنے اصحاب کیلیے نکال لیا۔ اور دوسرامرغ امیر اور اس کے ساتھیوں کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا جو ہمارے لئے مناسب تھا ہم نے لے لیا، یہ دوسرا تمہارے لیے ہی مناسب ہے۔ امیر بہت شرمندہ ہوا اور اسکی بدگمانی عقیدت میں تبدیل ہوگئی۔

مردود بارگاہ

حضرت کے ایک مرید”پیرعلی ہزارہ“ تھے۔تعلیم معرفت و سلوک حاصل کررہے تھے۔ابھی تکمیل بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت کی طرف سے بدگمان ہوگئے اور حضرت کے بارے میں کچھ گستاخانہ کلمات کہے، جب حضرت کو معلوم ہوا فرمایا وہ مردود ہے یہاں سے نکال دو، یپر علی کو جب اپنی غلطی کااحساس ہوا تو لوگوں سے بہت عاجزی کیا کہ حضرت سے سفارش کر کے ان کی غلطی کو معاف کروا دیں، بہت کوشش کیا؛ لیکن حضرت کا دل ان سے صاف نہ ہوا۔ مجبوراً یہاں سے چلے گئے اور سید علی ہمدانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے احوال بیان کیے۔ انھوں نے فرمایا جس دروازے کو اشرف نے بند کیا ہو میں اسے نہیں کھول سکتا۔ اس کے بعد مختلف مشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ لیکن انھیں کہیں کا میالی نصیب نہیں ہوئی۔ بالآخر مکہ معظمہ گئے اورشیخ نجم الدین کی صحبت اختیار کیا، ایک مدت کے بعدا نھوں نے بھی جواب دے دیا۔ اور فرمایا اے نامراد! جس در وازے کو میرے بھائی اشرف نے بند کیا ہو میں اسے نہیں کھول سکتا،اس وقت روئے زمین پر کوئی ایسا ولی نہیں ہے جوان سے مقابلہ کرے۔

مقبول بارگاہ

حضرت کے ایک مرید کو گوشت بہت پسندتھا،آپ نے فرمایا کہ گوشت زیادہ کھانے سے مزاج میں سختی پیدا ہو جاتی ہے، حضرت کے مرید مخلص قاضی حجت بھی اس وقت دسترخوان پرموجود تھے، حضرت کی زبانِ مبارک سے یہ سن کر گوشت کھانا بالکل چھوڑ دیا، اسی طرح ایک زمانہ گذرگیا۔ ایک دن کھاتے وقت حضرت کی نگاہ قاضی پر پڑی، دیکھا کہ گوشت بالکل نہیں کھارہے ہیں۔ پوچھا کہ تم کو گوشت نہیں پسند ہے۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ قاضی حجت نے سات سال سے گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے، شاید کسی دن حضور نے گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔ اسی دن سے طبيعت گوشت سے ہٹ گئی،حضرت مسکرائے اور فرمایا کہ میں نے ان مرید کوسختی دل کی وجہ سے روکا تھا۔ دوسروں کے لیے یہ ہدایت نہیں ہے، اس کے بعد حضرت نے خوداپنے دستِ مبارک سے قاضی کو گوشت کا ایک ٹکڑا کھلایا اور فرمایا کہ طالبِ صادق کو مرشد کے امرنہی کی پابندی اسی طرح کرناچاہئے۔

یاغستان

حضرت جب”یاغستان“ پہونچے تو وہاں ترک و ازبک بہت بڑی تعداد میں داخل سلسلہ ہو ئے، اورحلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور بے شمارگھوڑے اور بکرے حضرت کو نذرپیش کیے، جگہ جگہ آپ کے فضل و کمال کا چرچا ہونے لگا۔ جہاں بھی آپ تشریف لے جاتے عقیدتمندوں کا ہجوم ہوجاتا، لوگ جوق در جوق مرید ہوتے۔

امیرتیمور

اس وقت ترکستان پر امیر تیمور کی حکومت تھی، ۷۷۱ ؁ھ میں امیر تیمور تخت حکومت پر بیٹھا، اس کے بعد اس نے سمرقند کو اپنا دارالسلطنت بنایا، اس وقت امیر تیمور سمرقند میں موجود تھا۔ لوگوں نے امیر کو اطلاع دی کہ سمنان کا شہزادہ جس کا تعلق سامانیوں سے بھی ہے۔ یاغستان کے علاقے میں پھر رہا ہے۔ اب تک کئی ہزار ازبک و ترک اس کے مر ید ہو چکے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ طاقت اور مقبولیت حاصل کر کے حکومت کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ امیر تیمور نے فوراً تفتیش کاحکم دیا تو معلوم ہواکہ غوث العالم سید اشرف جہانگیر ہیں، تو اسے اطمینان ہوگیا، وہ حضرت سے ”مشہد“ میں خودمل چکا تھا۔ اور اچھی طرح جانتا تھا کہ آپ کے اندر ہواوحوس کاشائبہ بھی نہیں ہے، اور اپنے ایک معتمد خاص کو بہت تحفہ وتحائف نذرانے کے ساتھ حضرت کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت نے وہ ساری رقم مال وسامان اسی وقت فقراء میں تقسیم کردیا اور اس علاقے سے تشریف لے گئے۔ وہیں سے ایک”ازبک جمشید بیگ“ حضرت کے ساتھ چلے آئے، ان کو سلوک کی توفیق ہوئی اورخدمت سے جُدا نہ ہوئے اور عرصے تک آپ کی صحبت میں رہے، کچھ دنوں بعد حضرت نے انھیں اجازت و خلافت سے نوازا اور روح آبادسے رخصت فرمایا تاکہ اپنے ملک میں طالبوں کی تعلیم وہدایت کے فرائض انجام دیں۔

ہندوستان تیسری بار وُرود

حضرت غوث العالم کی ہندوستان پہلی تشریف آوری ارادت شیخ کے لیے ہوئی۔ اور دوسری بار تشریف آوری میں آپ نے شرف الدین یحی ٰمنیری رحمتہ اللہ علیہ کی نمازجنازہ پڑھائی، تیسری اور آخری بار جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو اس کے بعد تیمور کا ہندوستان پر حملہ ہوا۔سیدعبدالرحمٰن بایاحسین کتابدار اوربعض دوسرے لوگوں نے حضرت کے ہمراہ اس جنگ کاتماشہ دیکھا، ”لطائف اشرفی“ اور”مکتوبات اشرفی“ میں اس جنگ کا تذکرہ اور چشم دید حالات کا بیان ملتاہے۔

اوجھ

حضرت غوث العالم روم اورممالک اسلامیہ کے سفر کے بعد دوسری بار اوجھ تشریف لائے اور یہاں جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تومخدوم جہانیاں نے ان تمام مشائخ کے نام بتائے جن سے ان کو شرفِ اجازت وخلافت حاصل ہوئی تھی۔ روئے زمین پر جتنے مشائخ اور اولیائے کرام تھے سب سے مخدوم جہانیاں نے فیض حاصل کیاتھا، وہ سارے فیوض و نعمتیں حضرت غوث العالم کوعنایت فرمادیں اور اپنی اجازت وخلات سے بھی سرفراز فرمایا۔
ایک دن حضرت آپ کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص بیعت وتلقین کے لیے آیا ۔ مخدوم نے اس کا سر اپنے زانو پر رکھا اورکلمۂ لا إله إلا الله کو اتنا طویل کھینچا کہ حاضرین کا دم گھٹنے لگا، آپ نے کلمہ پورا فرمایا ۔ اس کے بعد فرمایا حضور سیّد عالمﷺ کا فرمان ہےکہ”جو شخص لااله الااللہ پڑھے تھے اوراس کو کھینچے توجنت میں داخل ہو گا“۔

دوبارہ گلبرگہ شریف

دوسری بار حضرت گلبرگہ تشریف لائے تو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ اللہ علیہ سرزمین گلبرگہ پر اقامت فرما چکے تھے اور اسی جگہ اپنی خانقاہ بنوائی تھی جہاں حضرت نے پہلی بار قیام فرمایا تھا، حضرت غوث العالم نے انھیں کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ دونوں بزرگ ایک دوسرے سے بڑے تپاک سے ملے، بندہ نوازنے حضرت کی بڑی خاطر و تواضع فرمائی، حضرت ان کے اس خلوص ومحبت سے بے پناہ متاثر ہوئے۔ اور چار مہینے وہاں قیام فرمایا۔ ایک دن حضرت شیخ نظام یمنی، نورالعین اور کچھ دوسرے لوگ سیروتفریح کے خیال سے خانقاہ سے باہر نکلے اور ایک باغ میں پہونچے وہاں دیکھا کہ چند نوجوان فسق وفجور میں مبتلاہیں۔ ناچ و گانے کی محفل سجی ہوئی ہے، سامنے شراب و کباب رکھا ہے، دور پر دورچل رہا ہے۔ ادھر یہ حضرات ذکرِ جہر کرتے ہوئے باغ میں داخل ہوئے، وہ سب عیاش نوجوان دم بخود ہو گئے اور انکے دلوں پرایساخوف الٰہی طاری ہوا کہ اسی وقت توبہ کر کے آہ وزاری عجزوانکساری کرنے لگے، یہ لوگ اُن کو حضرت غوث العالم کی خدمت میں لائے۔حضرت نے ان کے حال پر توجہ فرمائی اورمریدکر لیا اور سب عبادت الٰہی میں مصروف ہو گئے۔ اور فیضیاب ہوکر اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔

دوبارہ سفر گجرات

حضرت گلبرگہ شریف سے دوبارہ گجرات تشریف لے گئے،اور وہاں قصبہ ”دمرق“ میں ایک پُر فضا مقام پر قیام فرمایا۔ اہل قصبہ سے ایک شخص نے حضرت کی شان میں گستاخی کی اور کچھ نازیبا بات کہی، آپ نے فرمایا جس جگہ ایسے لوگ ہوں وہاں آگ کیوں نہیں لگا کرتی؟ چنانچہ قصبہ میں کئی بار آ گ لگی اورکئی بار قصبہ جلا، مجبور ہوکر لوگوں نے پتھر کے گھر بنائے۔ آپ وہاں سے ایک اورقصبہ میں تشریف لے گئے جہاں ہر سال سیلاب سے کھیتی خراب ہو جاتی تھی، اتفاق سے اس سال زیادہ باڑھ آگئی تھی، مسلمانوں کی ایک جماعت نے حضرت سے سیلاب کی شکایت کی، آپ نے ایک کاغذ لیا اور اس پر لکھا کہ اے پانی! تم کو اللہ کے بندے اشرف سمنانی کی طرف سے معلوم ہو کہ تیرا سیلاب خدا کی طرف سے ہے، تو جو تیری حد اللہ کے حکم کے مطابق ہے، وہ میں مقررکرتا ہوں تو اس سے آگے نہ بڑھنا، خادم نے وہ پرچا لے جاکر پانی میں ڈال دیا۔پانی بس اسی جگہ ساکن ہوگیا اور اس سے آگے نہ بڑھا۔

بہرائچ شریف

حضرت غوث العالم بہرائچ بھی تشریف لے گئے۔ایک مرتبہ حضرت سیّدسالار مسعودغازی رحمتہ اللہ علیہ کے آستانے پرتشریف فرما تھے۔ ایک دن میں ستر بار حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، حضرت اکثر فرمایاکرتے تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام سے جتنی ملاقاتیں بہرائچ شریف میں ہوئی ہیں روئے زمین پر کہیں نہیں ہوئی ہیں، اس کے بعد آپ سیدجعفر بہرائچی کی خدمت میں گئے اور ان سے ملاقات فرمائی۔

گروہ ملامتیہ

حضرت فرماتے تھے کہ فقراء میں ایک گروہ ملامتیہ ہے، جو فرائض و واجبات اور سنن توبجائے خود اہم ہیں وہ لوگ نوافل اور مستحبات کی پابندی بھی بیحد ضروری جانتے ہیں، مگر اس کے با وجود وہ اپنی عادتوں کو اس طرح چھپاتے ہیں جیسے ہر آدمی اپنی بدکرداری کو چھپاتا ہے۔ ان کی کوشش رہتی ہے کہ انکے حسنِ عمل سے کوئی باخبرنہ ہونے پائے،اور ان کا عمل اس شعر پر رہتا ہے ؎
چوں روئے رستیندنت در خداست
اگر جبرئیلت نہ بیند رواست
یعنی جس وقت تم مصروف عبادت ہو تو تمہارے اعمال کی جبرئیل علیہ السلام کوبھی خبرنہ ہونی چاہیے۔
آپ نے فرمایا کہ روم کے سفرمیں میرے ساتھ ایک ایسا شخص تھا جس کے متعلق بظاہرنہ معلوم ہو تاتھا کہ کس مذہب کا آدمی ہے، کچھ دنوں کے بعد صرف مجھے معلوم ہوا کہ وہ گروہ ملامتیہ کے ایک عارف کامل بزرگ تھے۔

آپ نے فرمایا میں ”سبزاوار“ جارہاتھا، را ستے میں مجھے ایک نہایت خوبصورت باغ ملا،جس کے بیچ و پیچ شاندارخیمہ نصب تھا، جس میں ایک نوجوان اور ایک خوبصورت وحسین دوشیزہ پہلو بہ پہلو بیٹھے تھے، سامنے شراب رکھی تھی، حسینہ اپنے ہاتھ میں شراب کا پیالہ لیے ہوئے اس نوجوان سے خوش مذاقی کر رہی تھی۔ میں نے جب ان کی طرف دیکھا تو خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ نفس کے غلام ہیں؛ لیکن جب میری اور ان کی نگاہیں چارہوئیں تو روشن ہوا کہ عورت ان کی منکوحہ بیوی اورصراحی میں شراب کے بجائے شربت اور خود وہ گروہ ملامتیہ کے بلند مرتبہ بزرگ تھے۔

خاصان خدا کی توجہ باطنی

ایک دن حضرت غوث العالم خانقاہ میں مسئلہ توحید پر گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ کے خلفاء ومریدین کا ہجوم تھا۔ شیخ الاسلام گجراتی نے عرض کیا کہ حضورخاصان خدا کی توجہ باطنی اور اثر اندازئ نگاہ کے سلسلے میں کچھ ارشاد فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ جب کسی عار ف میں شہود کی آگ روشن کی جاتی ہے اوراس کے شعلے بھڑکتے ہیں اس وقت وہ اگر کسی پر ایک نگاہ کیمیا اثر ڈال د ے تو ضرور اثر انداز ہوگی۔ اس کے بعد فرمایا کہ ایک دن حضرت شیخ نجم الدین رحمتہ اللہ علیہ اپنی محفل میں اصحاب کہف کاواقعہ بیان فرمارہے تھے، حضرت شیخ سعد الدین حموی جو حضرت نجم الدین رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے اوراس محفل میں موجود تھے ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس زمانے میں بھی کوئی ایسا بزرگ جس کی صحبت کا اثرکتے پرپڑسکے؟ حضرت نجم الدین نے اپنے نوربصیرت سے ان کے دل کی بات سمجھ لی، اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی خانقاہ کے دروازے پر آئے۔ اتفاقاً اس وقت وہاں ایک کتا بھی پہونچ گیا اور کھڑا ہو کردُم ہلانے لگا۔ حضرت نجم الدین نے اس پر توجہ ڈالی تھوڑی دیرمیں کتے پر حیرانی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اورپھر اس پرعجیب بے خودی طاری ہوگئی اور اسی جگہ لوٹتا رہا، جب نجم الدین خانقاہ میں چلے گئے تو وہ کتا بھی وہاں سے ہٹا اور سیدھا قبرستان کا رُخ کیا، وہاں زمین پرسر پٹختا تھا اور روتا تھا۔ بعد میں دیکھاگیاکہ پچاسوں کتے اس کے گرد جمع ہوجاتے اور خاموشی سے بیٹھے رہتے۔ چند دنوں بعد وہ کتا مرگیا لوگوں نے اسے دفن کر دیا۔

سلطان المرشدین رحمتہ اللہ علیہ کا وصال

تقریباً ۸۰۰ ؁ھ میں آپ کے پیرومرشد حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی رحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہوا۔ آپ وصال کے بعد فوراً پنڈوہ شریف پہونچے، یہ بنگال کا آپ کا آخری سفرتھا، اس وقت پنڈوہ کے اندر اکابرین روزگار موجود تھے، حضرت نے اپنے دست مبارک سے محمد نور قطب عالم کے سر پر دستار جانشینی باندھی اور مراسمِ سجادہ نشینی ادا فرمائی۔ اس وقت ہجوم اولیاء و اکابرین اصفیاء کے درمیان قطب بنگال کامسئلہ زیربحث تھا،بعض اولیائے کرام کا خیال تھا کہ حضرت شرف الدین جو بنگال ہی کے ایک بزرگ تھے انھیں قطب بنگال بنا دیا جائے۔ اس وقت حضرت غوث العالم نے فرمایاکہ قطب بنگال میرے مخدوم زادے محمد نور ہیں۔ حاضرین نے پوچھا اس کا ثبوت کیا ہے؟ تو آپ نے مخدوم زادے سے فرمایا کہ سامنے والی پہاڑی کو حکم دو کہ یہاں آجا ئے۔ اور اس کی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ حضرت کے خادم بابا حسین جواس وقت حاضر مجلس تھے بیان فرماتے ہیں کہ جیسے ہی یہ الفاظ حضرت کی زبان مبارک سے نکلے پہاڑی حرکت میں آگئی، حضرت نے فرمایا ابھی ٹھہر جا! میں پیرزادے سے باتیں کر رہا ہوں، پہاڑی کی حرکت فوراً ختم ہوگئی،اسکے بعد مخدوم زادے نے پہاڑی کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہاں آجا! فوراً پہاڑی حرکت میں آگئی، سارے حاضرین نے اپنی آنکھوں سے یہ کرامت دیکھا اور اس کے بعدمخدوم زاد ے کو بالاتفاق قطب بنگال بنادیا گیا اورشیخ محمد نور اب نورقطب عالم پنڈوی کے لقب سے مشہور ہوگئے۔ اس کے بعدمحفل سماع کا اہتمام کیاگیا جس میں چھوٹے بڑے سارے مشائخ جمع تھے، اس کے علاوہ عوام کا اس قدر ہجوم ہوا کہ اپنی جگہ سے حرکت کرنا مشکل ہوگیا۔ مخدوم زادے نے یہ ہجوم دیکھ کر دوسرے مقام پر ایک مخصوص محفلِ سماع کا حکم دیا جس میں صرف خاص خاص مشائخ شریک ہوں تاکہ سماع سے پورا لطف حاصل کریں، چنانچہ یہ مخصوص محفلِ سماع شروع ہوئی تو قوالوں نے پورا زورفن استادی صرف کردیا؛ لیکن حاضرین میں کسی پر کچھ اثر نہیں ہوا، مخدوم زادے نے پھر مکان تبدیل کرنے کا حکم دیا اور ایک اور مکان میں احباب کے ساتھ تشریف لے گئے اور محفلِ سماع ہوئی۔ وہاں بھی سماع میں کوئی لطف نہیں آیا۔ اس وقت حضرت غوث العالم نے فرمایا کہ سماع کے لیے پیرومرشد کی خانقاہ سے زیادہ موزوں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی، وہاں مکان کی برکات کے آثار ظاہر ہونگے، مخدوم زادہ حاضرین کو اپنے ہمراہ لے کر خانقاہ میں تشریف لائے۔ اورمحفلِ سماع کا آغاز ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں حاضرین جھوم اٹھے اورسب پرحالتِ وجد طاری ہوگئی۔

حضرت نور قطبِ عالم پنڈوی رحمتہ اللہ علیہ

آپ ہندوستان کے مشہور ومعروف اولیاء میں شمار ہوتے ہیں اور صاحب عشق ومحبت، ذوق وتصرف اور صاحب کشف وکرامات بزرگ تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ مجھ میں سجّادہ شیخ پر بیٹھنے کی قابلیت نہیں ہے، اس پروہ بیٹھے جو داہنے بائیں نہ دیکھے، آپ کمبل نہیں پہنتے تھے، فرماتے تھے کہ گلیم پوشی اس فقیر کو رواہ ے جو تمام خواہشات نفسانی سے پاک ہو، کوئی شخص اگراپنی حاجت لے کر آپ کے پاس آتا تو پہلے فاتحہ اس کے بعد بعد یہ مصرعہ پڑھتے ؎
”قفل مہمات رافاتحہ آمد کلید“ یعنی فاتحہ مشکل کشا ئی کی چابھی ہے۔
سلطان غیاث الدین بنگال کا بادشاہ آپ کا بڑا معتقدتھا۔ اوراس صوبے کے تمام لوگ آپ کے نیاز مند تھے۔

ایک دن آپ ایک بڑھیا کے مکان پر تشریف لے گئے۔ بڑھیا نے دین کے بارے میں کچھ سوالات کیے، بڑھیا کے گھر سے آپ روتے ہوئے نکلے اور فرمایا کہ میری بخشش اس بڑھیا کے طفیل سے ہو گی۔
آپ فرما تے تھے کہ مشائخ نے سلوک کی تکمیل کے لیے نناوے منازل اسمائے الٰہی کے اعداد کے مطابق قرار دی ہیں۔ پیروں نے پندرہ معین کی ہیں؛لیکن اس فقیر نے صرف تین منازل اختیار کی ہیں۔ اول: حَاسِبُوْا قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا یعنی سالک رات دن میں حساب کرے کہ کتنے اعمال نیک اس نے کئے ہیں اور کتنی غفلت ہوئی؟ اور کوشش کرے کہ ہر گھڑی عنایت میں اضافہ ہو اور برائیاں ختم ہوں۔

دوم: من استوى يوماه في الدين فهو مغبون یعنی جس کے دو دن یکساں گذرجائیں اور کارخیر میں پہلے دن سے زیادتی نہیں ہوئی ہوتو وہ نقصان میں ہے۔
سوم: عبادۃ الفقيرففى الخواطر یعنی ہر ساعت دل کا نگراں رہیکہ غیر کا تصوربھی اس میں نہ آئے اور کوئی ساعت ذکر و فکر اور یاد خدا سے خالی نہ ہو اور ہمہ وقت خواب و بیداری میں خدا کی طرف ہی مائل رہے۔
ایک دن حضرت پالکی پر سوار تھے۔ لوگوں کا ہجوم آپ کے ساتھ تھا۔ لوگ عقیدت ومحبت سے آپ کے قدم مبارک کوچومتے تھے۔ یکایک آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا اورروتے روتے بے ہوش ہو گئے، آپ کے مرید خاص حضرت شیخ حسام الدین قریب گئے اور رونے کا سبب پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے اپنی مخلوق کو ہمارے لیے مسخر کردیا ہے وہ ہمارے قدم چومتی ہے، ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن ہمارا سران کے قدموں سے پامال ہو۔
آپ ۸۰۴ ؁ھ میں اپنے عزیز مرید شیخ حسام الدین مانکپوری کوخرقہ عطا فرمایا اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرماکر قصبۂ مانکپور کا صاحب ولایت بنایا اور رخصت کے وقت وصیت فرمائی کہ”سخاوت میں آفتاب، تواصنع میں پانی، تحمل میں زمین کے مثل رہو،اورجفائے خلق برداشت کرو“۔
آپ اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں کہ:
”بیچارہ نورمسکین عمرازشصت گذشتہ تیر از شست جستہ و ازشر نفس یک ساعت نہ رستہ باد بر دست آتش درجگر آب در دیدہ خاک بر سر“
ترجمہ: بیچارہ نور مسکین جس کی عمرساٹھ سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ تیرکمان کے حلقے سے نکل چکا ہے اور سانس لینے سے ایک لمحہ بھی چھٹکارا نہیں ہے۔ ہاتھ پر ہوا، جگر میں آگ اور سر پرخاک۔
یہ بھی فرمایا کہ:۔
”قرار در ویش دربے قراری عبادت در ویش از غیر حق
یعنی فقیرکا آرام بے چینی میں ہے اورفقیر کی عبادت غیرخدا
بیزاری مشغول بغیر حق گرفتاری ظاہرآراستن بدکاری“
سے بیزاری میں ہے اوراس کے لیے خدا کے سوا کسی جانب لو لگانا قید ہے اور ظاہر کو سنوارنا بُرا کام ہے۔
وفات غالباً۱۰/ذیقعدہ ۸۱۸ ؁ھ کو ہوئی، مادۂ تاریخ وصال ”نور بنورشد“ (۸۱۸)

جونپور کا آخری سفر

حضرت نے چند دنوں پنڈوہ شریف میں قیام فرمایا، پھر روح آباد کے لیے روانہ ہو گئے اور یہاں سے جو نپورپہونچے۔ اس بار آپ کا قیام جونپور جامع مسجد میں ہوا، مسجد کے اتر کی جانب آپ کا”چلہ خانہ“ اب بھی زیارت گا ہ نام ہے۔ اس وقت جونپورپر سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی، سلطان ابراہیم بڑا علم دوست، نیک دل، دین پسند،فقراء ودرویش نواز تھا۔ سادات کرام کی بڑی عزت کر تاتھا، یہی وجہ تھی کہ اس وقت جونپور علماء، فقراء، اہل علم اور سادات کرام کا مرکز بن گیا تھا، اور جونپور کو شیرازِ ہند کہا جاتا تھا۔
جب آپ کی تشریف آوری کی اطلاع بادشاہ کو ہوئی توفقیر دوست بادشاہ نے حضرت کا شرفِ دیدار حاصل کرنے کا ارادہ کیا، اس وقت ملک العلماء حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی بھی موجود تھے، جو اس زمانے کے اکا بر روزگار، بلند پایہ اور مایۂ ناز عالم تھے۔قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز تھے، بادشاہ نے جب حضرت غوث العالم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو قاضی شہاب الدین نے فرمایاکہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں۔۔۔ صاحب کشف و کرامت اور سید صحیح النسب بزرگ آئے ہیں، مناسب یہ ہے کہ پہلے میں دیکھ آؤں کہ حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ پہلے ملک العلماء اور امرائے سلطنت اور علماء کی جماعت کے ساتھ مز اج پرسی کے لیے حاضرہوئے، ملک العلماء نے اپنے رفقاء کو ہدایت کردی کہ خبردار! کوئی علم وفضل کا اظہار نہ کرے،اور نہ ہی کوئی مسئلہ دریافت کرے۔ اس لیے کہ یہ ایسے بزرگ ہیں جن کی شان میں قطعاََ کوئی گستاخی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد سواری سے اتر کر جامع مسجد کے اندر تشریف لے گئے۔ دیکھا تو آپ کی پیشانی سے نورِ ولایت چمک رہاہے، انتہائی ادب واحترام سے ملنے کے لیے آگے بڑھے،حضرت بھی استقبال کیلیے چند قدم آگے بڑھے۔ اس وقت ملک العلماء قاضی شہاب الدین نے برجستہ یہ شعر پڑھا ؎
چہ خورشیدیست تاباں ازجبینش
کہ خورشید فلک زد ذرّہ گردد
بگوہرسید است دریائے امواج
کہ دریائیجہاں چوں قطرہ گردد
ان کی پیشانی کیسی روشن سورج ہے اس کے سامنے آسمان کا سورج اک ذرّہ ہے،موتی کی قسم سيدامواج سے پروہ سمندرہیں کہ دنیا کا سمندر اس کے سامنے ایک قطرہ ہے۔
اس وقت شیخ ابو الوفاء خوارزمی (متوفی ۸۳۸ ؁ھ) بھی حضرت کی خدمت میں موجودتھے، جو متبحر عالم تھے، اور جن کے بارے میں حضرت نظام الدین یمنی نے ”لطائف اشرفی“ میں لکھا ہے کہ:۔

”شیخ ابوالوفاء خوارزمی بجمیع علوم وفنون آراستہ بو دند“

یعنی حضرت ابو الوفاء خوارزمی تمام علوم وفنون سے آراستہ تھے۔
حضرت کی گفتگو کا یہ انداز تھاکہ وہ جس طبقہ سے ملاقات کرتے تھے، اس کے معیار اور ذوق کے مطابق گفتگو فرماتے تھے۔ ملک العلماء نے ہر چندعلماء سے سوالات کرنے سے منع کر دیا تھا؛ لیکن علماء کے سینوں میں چندمشکل سوالات تھے جن کو پوچھنے کے لیے ان کے دل تڑپ رہے تھے، شیخ ابو الوفاء نے اپنے نورِ فراست سے ان کی تڑپ کو بھانپ لیا۔ حضرت علمی مسائل پرگفتگو فرمارہے تھے، اس سلسلے میں ملک العلماء اورشیخ خوارزمی سے بھی تبادلۂ خیالات ہوا، شیخ خوارزمی نے دورانِ گفتگووہ تمام مسائل حل کر دئیے، جو علماء کے دلوں میں تھے، اورہر سوال کے تشفی بخش جوابات دئیے، ملک العلماء نے بادشاہ کی باریابی کی اجازت طلب کی، حضر ت نے فرمایا میرے نزدیک تم سلطان سے افضل ہو، مگر بادشاہ آئیں توحاکم وقت ہیں ملاقات سے انکار نہیں کرسکتا۔ ملک العلماء جب چلے گئے تو حضرت نے فرمایا کہ ہندوستان میں ایساعالم و فاضل کم دیکھا ہے۔

دوسرے دن حضرت اپنے معمولات میں مصروف تھے کہ سلطان، ملک العلماء کے ہمرہ بڑے ادب سے مسجد میں داخل ہوا، اوربکمالِ ادب حاضرِ خدمت ہوکر شرف ملاقات حاصل کیا۔ اس سے قبل بادشاہ قلع جنادہ پرچڑھائی کرنے کے لیے فوج روانہ کرچکا تھا، اس کے بارے میں اسے ترددتھا؛ لیکن اظہار مدعانہ کر سکا، حضرت نے اپنے نورِ باطن سے ا سکے تردد کو دریافت کرلیا اور اسے اس سلسلے میں بہت تسلی دی اورکامیابی کے لیے دعا فرمائی۔ اور ایک مسند جوحضرت اپنے ہمراہ ولایت سے لائیےتھے سلطان کو عنایت فرمایا۔ تین دن کے بعد بادشاہ پھر حاضر خدمت ہوا،حضرت نے نان وشربت سے اس کی تواضع فرمائی۔ اسی وقت قلعہ جنادہ کے فتح کی خبرآئی سب نے بادشاہ کو مبارکباد دی۔ بادشاہ نے کہاحضرت کو مبارکباد دی جائے۔ اس لئے کہ انہیں کی نظرعنایت سے یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے، اس کے بعد بادشاہ کی عقیدت بہت بڑھ گئی، وہ خودحضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا مرید تھا؛ لیکن اپنے تین شہزادوں کو اسی دن حضرت کی خدمت میں لایا اور انھیں مرید کرایا۔ بادشاہ نے آپ کے جونپورہی رہنے پراصرارکیا۔ آپ نے فرمایا میں سلطان کے حدودسلطنت سے باہر نہیں جاؤںگا، ادھر ملک العلماء کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ بار بارحاضر خدمت ہوتے اور اپنی تصنیفات ”نحو ارشاد،بدیع البيان،تفسیر بحر مواج، جامع الصنادید“ وغیرہ حضرت کی خدمت میں پیش کیا، حضرت نے علم نحو میں”نحوارشاد“ اور علم بیان میں ”بدیع البیان“ کی بہت تعریف فرمایا۔ تفسیربحر مواج کے بارے میں فرمایاکہ اس میں طول بہت ہے،حضرت نے بھی ”ہدایہ کاوہ نسخہ“ دیا،جس پر آپ نے حاشیہ لکھا تھا اور ایک عرصہ بعد ملک العلماء کوخرقہ عنایت فرمایا۔جونپور قیام کے دوران ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا، یہ واقعہ آپ کے شطحیات سے متعلق ہے۔ اس واقعہ کا ذکر”لطائف اشرفی“ اور ”مکتوبات اشرفی“ دونوں میں پایا جاتا ہے۔ ایک دن آپ جامع مسجدجونپور میں تشریف فرما تھے۔ آپ کی خدمت میں شیخ ابوالمکارم،خواجہ ابوالوفاء خوارزمی، قاضی رفیع الدین اودھی وغیرہ بھی موجود تھے۔آپ پر اچانک ایک جذب اور وجدکی حالت طاری ہوئی اسی عالم میں آپ نے فرمایا کہ:۔
”الناس کلھم عبد لعبدی“ یعنی سارے لوگ میرے بندے کے بندے ہیں۔

جاں نثاروں نے ہر چند کوشش کیا کہ حضرت کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ جملہ غیروں تک نہ پہونچے اس لیے کہ علماء ظاہر اس راز سے ناواقف ہیں،لیکن کسی طرح یہ خبرشہر کے علماء میں پھیل گئی اور شہر میں حضرت کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، ہر طرف اس قول کی مخالفت میں باتیں ہونے لگیں، بعض علماء، تو آپ سے بحث کے لیے تیار تھے، قاضی شہاب الدین کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ کسی کو علم نہیں کہ درویش نے کس حالت اورکس وجہ سے یہ جملہ کہا ہے؟ تمہیں اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے، لیکن لوگوں نے کہاجس شہر میں بڑے بڑے عالم و فاضل اور درویش موجود ہوں کوئی ایسا متکبرانہ جملہ کہہ کر چلاجائے ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ اس پران سے بحث واعتراض کرنا ضروری ہے۔ چنا نچہ ایک چرب زبان طالب علم جس کا نام محمودبہیہ تھا،آپ سے بحث کے لئے تیار کیا گیا۔ قاضی صاحب نے کہا کہ یہ طالب علم سخت مزاج اورچرب زبان ہے۔ ابھی مشائخ کی مجلس کے آداب سے نا آشنا ہے، ممکن ہے کہ کوئی ایسی بات کہہ دے جو حضرت کو ناگوار گذرے۔ ان شاء اللہ میں کل خود ہی جاؤں گا اور اس قول کا مفہوم دریافت کروں گا، دوسرے دن قاضی صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہو ئے، حضرت کا یہ دستورتھا کہ آنے والے کے معیار اور ذوق کے مطابق گفتگو فرماتے تھے۔چنانچہ آپ نے فقہ کے مسائل سے گفتگو شروع فرمائی، اس کے بعد حقائق ومعارف بیان کئے، حاضرین حضرت کی گفتگو سنتے رہے۔ قاضی صاحب کو حضرت سے کچھ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی، اور رخصت ہونا چاہا، حضرت کو نور باطن سے معلوم ہوگیا تھا۔ فرمایا شاید آپ کوئی بات پوچھنے آئے تھے؟ قاضی صاحب نے عرض کیا کہ علماء نے مجھے بتایا کہ کل مسجد میں آ پ کی زبان مبارک سے ایک جملہ نکلا تھا ”الناس كلهم عبد لعبدی“علماء شہر میں آپ کے قول پربڑی بحث ہے، اسی کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایاکہ اس کامفہوم بہت آسان ہے۔ الناس پرالف لام عہد کا ہے، مفہوم یہ ہے کہ اکثرلوگ ہوا وہوس کے بندے ہیں۔ اور خدانے ہوا وہوس کومیرا بندہ اور غلام بنادیا ہے۔ چونکہ اکثر لوگ ہوا وہوس اور خواہشاتِ نفسانی کے بندے ہیں اس لیے لوگ میرے بندے کے بندے ہیں اور میرے غلام کے غلام ہیں۔ اس کے بعد حضرت غوث العالم نے حضرت علّامہ جامی رحمتہ اللہ علیہ کے دوشعرپڑھے،جو انھوں نے بادشاہِ مصر کے جواب میں لکھا تھا ؎
از حرص و ہوا دوبندہ دارم
در ملک خدائے پادشاہم
توبندۂ بندگان مائی
از بندۂ بندگان چہ خواہم
حرص وہوس ہمارے دو غلام ہیں۔ اور میں اپنے خدا کے ملک میں باشاہ ہوں۔ جب تم ہمارے غلاموں کے غلام ہوتو میں اپنے غلام سے کیاچاہوں؟۔
قاضی صاحب کو اطمینان ہوگیا اور بہت خوش ہو کرواپس ہوئے۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ میرا یہ جملہ کس رو سیاہ* نے علماء کی محفل میں بیان کیا؟جس نے لوگوں کو بتایاتھا اتفاق سے وہ بھی موجود تھا، حضرت کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ قاضی صاحب حضرت سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ اور حضرت بھی قاضی صاحب کوبہت چاہتے تھے، حضرت نے قاضی صاحب کو ملک العلماء کے خطاب سے نوازا۔

سفر کے فوائد

ایک دن مسجد کے اندرفقراء کی ایک جماعت حضرت سے ملاقات کے لیے آئی اور عجائبات عالم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھتے رہے اورحضرت جوابات دیتے رہے، دوران گفتگو ایک فقیر بولا”رزق چوں مقدراست گرد یدن چیست“ یعنی روزی جب مقدر میں لکھی ہے تو ضرور ملے گی اس کے لیے پھرنے کی کیا ضرورت ہے؟
حضرت نے اسی انداز سے فوراً جواب دیا ”رزاق چوں گرداند پرسیدن چیست یعنی جب روزی دینے والا خود پھرائے تو کیا چارہ ہے۔ حضرت نے فرمایا یہ عجیب درویش ہیں، ان کو سفر میں طلب رزق کے علاوہ کوئی فائدہ نظر نہیں آتا حالانکہ سفرمیں بے انتہا فائدے ہیں۔

امراء اور بادشا ہوں سے تعلقات

عام خیال یہ ہے کہ فقیر اور صوفی کو امراء اوربادشاہوں سے نہ ملنا چاہیے؛ لیکن حضرت غوث العالم ایک فقیراور صوفی کا بادشاہوں او ر امیروں سے ملنا ضروری سمجھتے تھے؛ اس لئے کہ فقیروں اور صوفیوں کا بادشاہوں سے نہ ملنا انھیں اپنے سے کمتر سمجھناہے اوراس سے غرور و جہالت اور خودستائی کی بٗو آتی ہے۔ اور یہ عمل ابلیس ہے، اور نفس امارہ کا دھوکا ہے۔ پھر بالفرض اگر انھیں کمتر ہی سمجھا جائے تو نیکو کاروں کی نیکیاں بدکاروں کے نامۂ اعمال میں نہیں لکھی جاتیں اور نہ بد کاروں کے گناہ نیکوں کاروں کے نامۂ اعمال میں درج کیے جاتے ہیں۔ بادشاہوں اور امیروں کے درجہ کا گھٹاؤ اور ان کے عبادت کی کمی کامل صوفیوں کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتی۔
آپ فرماتے تھے کہ بادشایا عادل ہو گایا ظالم، اگر بادشاہ عادل و عابد ہے تو اس سے ملنا باعث برکت اورموجب سعادت ہے۔ اس لیے کہ احادیث کریمہ میں آیا ہے کہ عادل بادشاہ سے ملاقات کے وقت خدا کی رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن خدا کے نزدیک سب بندوں سے افضل عادل بادشاہ ہوگا۔

حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم نے فرمایاکہ ایک ساعت کا عدل ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے۔

اور اگر بادشاہ ظالم وفاسق ہے تو اس سے ملنا اور اس کی ہدایت کرنا علماء وصو فیا پر فرض ہے۔
حضرت نے فرمایاکہ فقراء بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:۔
(۱) شرعی (۲)اورطریقی۔
فقراء شرعی کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی، ایسے فقراء اگر بادشاہوں اورامیروں سے ملاقات کر کے زکوٰۃ وصدقات جوفقراء اور مساکین کا حق ہے ان سے حاصل کریں اور اپنے بال بچوں کی پرورش کریں اور بے فکرہوکر نماز و روزہ میں مشغول ہوں توان کو بادشاہوں اور امیروں سے ملنا جائز اورمباح ہے۔
فقراء طریقی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں:۔
(۱) کامل(۲)ا ور مکمل۔
فقیر کامل: وہ فقیر ہے جو دائرۂ وحدت سے باہر نہیں نکل سکتا، جو اس مرتبہ پر فائز ہو اس کے لیے بادشاہ اور امیرکا کیا ذکر ہے؟ اپنے احباب واصحاب سے ملنا بھی مضر ہے، ایسے فقیروں کے لیے بس خلوت اورگوشہ نشینی ہی بہتر ہے۔
فقیر مکمل: وہ فقیر ہے جو عالم کثرت میں بشر کی شکل میں دکھائی دیتاہے،لیکن وہ بحر وحدت کا تیراک ہوتا ہے، فقیر مکمل عارف کامل ہے، اس کی نظر میں سارے موجودات اسمائے الٰہی کا آئینہ اور صفات باری کامظہر ہیں، وہ بادشاہ ہویا فقیرسب کواسی نظر سے دیکھتا ہے۔

حضرت نے فرمایا کہ بعض لوگ حضرت مولائے کائنات کایہ قول بھی دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ ”امیر کے دروازے پرفقیر برا ہے اور فقیر کے دروازے پر امیر اچھا ہے“ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ امیر کے دروازے پر اگر فقیر دولت دنیاوی اور خواہشات نفسانی کے حصول کے لیے جاتا ہے تو وہ فقیر ہی نہیں ہے، اس لیے کہ فقیر کی پہلی منزل توکل اور ترک ہوا وہوس ہے، ایسے فقیر پر امیر نے توجہ کیا تو امیر کی سعادت ہے، فقیر برا ہے،ا میراچھا ہے۔ لیکن دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جانا یا بادشاہ و امیر کی ہدایت کے لیے جانا اور بات ہے۔

حضورﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ:
”اگرکسی ذمی کو ابوجہل کے دروازے پرکوئی حاجت ہو اور وہ میرے پاس سفارش کے لیے آئے تومیں ننگے پاؤں جاؤں گا تاکہ اس ذمی کی ضرورت پوری ہو“
شیخ علاء الدین سمنانی فرماتے تھے کہ ”پروردگار عالم نے اس زمین کو حکمت اورمصلحت سے پیدا فرمایا ہے، اور خدا اس کو آباد ومعمور اور اس سے مخلوق کا فائدہ چاہتا ہے، تو اگر مخلوق دنیا کی عمارت فائدے کے لیے کرے اوراس میں فضول خرچی کا دخل نہ ہو تو یہ آخرت کے لیے بھی فائدہ مند ہے، زمین کو بےکار چھوڑنا گناہ ہے۔ مثال کے طور پراگر کسی کے پاس اتنی زمین ہے کہ ہر سال ہزار من غلّہ پیدا کر سکتا ہے مگراپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے صرف نو سومن غلّہ پیداکیا توسومن غلّہ کی کمی کے بارے میں اس کو جواب دینا پڑے گا، توجو شخص دنیا کی تعمیروترقی میں حصہ نہ لے اور کاہلی سے اس کانام زہد وعبادت رکھے تو وہ شیطان کا تابع ہے۔

حضرت غوت العالم نے فرمایاکہ ”اب ذرا چشمِ بصیرت سے دیکھو بادشاہ، امراء، مخلوق خدا، اہل صنعت و حرفت سب کے سب حقیقت میں عبادت وسلوک کی منزل طے کر رہے ہیں۔ گویا یہ دنیا جو دائرۂ عمل ہے ایک خانقاہ ہے۔ جس کاشیخ خدا ہے اور انبیائے کرام شیخ کے خلیفہ ہیں، اور اولیاء خلفاء کے نائب ہیں اور بادشاہ وامراء اولیاء کے خادم ہیں تاکہ خانقاہ کے لیے ضروریات کے سامان اکٹھاکریں، کسان اورلوگ اس جماعت کے کارکن ہیں۔ اہل صنعت لباس اوراہل حرفت اجناس وغیرہ مہیاکر نے پر متعین ہیں۔

الغرض کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جس کے کام کا فائدہ خانقاہ والوں کونہ پہونچتا ہو۔ حد یہ ہے کہ کافروں اور مشرکوں سے بھی دو فائدے حاصل ہوتے ہیں جو اور کسی دوسرے سے نہیں حاصل ہو سکتے، کافر میں دو صفت ایسی ہے جو کسی نبی اور ولی میں بھی نہیں پائی جاتی۔
۱۔ کافر کا قتل کرنے والاغازی ہوتا ہے۔
۲۔ اورجس مؤمن کوکافرنے قتل کر دیا ہو تو وہ شہید ہو تا ہے۔
تو اگر کافر و مشرک نہ ہوتے تو غازی شہید کامرتبہ کیسے حاصل ہوتا؟ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مریدوں اور عقیدت مندوں میں اگر ایک طرف سلطان تیمور وسلطان ہوشینگخاں غوری اور سلطان ابراہیم شرقی جیسے سلاطین زمانہ شامل تھے، اور آپ کے مرید تھے تو دوسری طرف سيف خاں ابن نوا، جمشیدبیگ ازبک و امیر علی بیگ اور ملک الامراء محمود جیسے امراء اور جاگیرداربھی آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔

اُمراء اور بادشاهُوں کی اصلاح

حضرت غوث العالم نے امراء و بادشاہوں و سلاطین زمانہ اور اربابِ اقتدار کی اصلاح بھی فرمائی ہے اور انہیں ضروری ہدایات دی ہیں۔ چنانچہ”لطائف اشرفی“ کے ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں کہ جہاں داری اورشہریاری | کو چار چیزوں سے نقصان پہنچتا ہے:
(۱) سلاطین زمانہ کالذت دنیا میں غرق ہو جانا۔
(۲) اپنے مقربین سے بداخلاقی سے پیش آنا۔
(۳) سزا میں زیادتی کرنا۔
(۴) رعایا پر ظلم کرنا۔
آپ نے بادشاہوں اورحکمرانوں کے اوقات کے نظم وضبط کی تفصیل بھی بتائی ہے کہ وہ اپنے روزمرہ کے مشاغل کوکس طرح ترتیب دیں؟ اور بعض ضروری اور مفید ہدایتیں بھی دی ہیں۔”لطائف اشرفی“ میں ہے کہ:
”بادشاہ اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیں کہ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد اشراق تک وظیفہ کریں، پھر علماء وصلحاء کے ساتھ صحبت رکھیں اور چاشت کے وقت تک ان سے عدل و انصاف سے متعلق قرآنی آیتوں کے مطالب پوچھیں، اسی جگہ وزیروں اورندیموں کو بلائیں اوریہ لوگ فوجوں کے جومعروضات پیش کریں ان کا مناسب جواب دیں، ہر شخص کی مدعا کو پورا کریں، اس کے بعد در بارعام ہو، جس میں رعایا اور مسلمانوں کے قضایا اور دعاوی پیش ہوں اورشریعت کے مطابق انصاف کیے ساتھ فیصلہ ہو، مشائخ اور ملوک کے معروضات کو حتی الوسع کسی کے توسط سے سنیں، سادات قضاۃ اورمشائخ کی درخواستوں کو صدر پہونچائے، اس گروہ کے لیے ایک ایسے شخص کو صدرمقرر کریں جو متدین اورہمدردہو، بلکہ اس کو صوفی مشرب بھی ہوناچاہیے، وزیر تمام علوم وفنون سے آراستہ ہونے کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ دیندار ہو، وکالت کا منصب ایسے شخص کو دیں جو پسندیدہ اخلاق کا حامل ہو، نہایت عقلمند، سریع الفہم اورحاضر جواب ہو، اس قسم کے ہر شخس کو کوئی نہ کوئی مناسب جگہ دیں،حکومت کو چلانے میں تخلیط مناصب سے کام نہ لیں، ایک کے کام کے متعلق دوسرے سے نہ پوچھیں، قیلولہ کے وقت آرام کے لیے چلے جائیں، قیلولہ کے بعد نماز پڑھیں اورکبھی نماز نہ چھوڑیں، ظہر کی نماز کے بعد جس قدر ہو سکے قرآن مجید کی تلاوت کریں، خصوصاً سورۂ قد سمع اللہ کی مواظبت کریں؛ کیونکہ سلاطین اس سورہ کی مواظبت کرتے آئے ہیں، سلطان محمودغازی انار اللہ برہانہ* برابر اس سورہ کوپڑھا کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ مجھ کو دولت اور شوکت اسی سورہ کی بدولت نصیب ہوئی، حضرت ابراہیم شاہ بھی ایسا ہی فرماتے تھے، خود میں نے جو سلطنت چھوڑی تو پہلی چیز میں نے اپنے برادرعزیزمحمد شاہ سے کہی وہ یہ تھی کہ اس سورہ کی برابر تلاوت کریں۔ اور رجال الغیب کے مقابلے سے اجتناب کریں، اور کوئی کام شریعت کے خلاف انجام نہ دیں، اور عدل و انصاف کے اصول میں ایک نقطہ سے بھی انحراف نہ کریں تاکہ سلطنت میں خلل واقع نہ ہو“۔
”لطائف اشرفی“ کے ایک اورملفوظ میں فرماتے ہیں کہ:۔
”تمام ارکانِ دولت اوراعوانِ حکومت ایک نہ ایک عضو اور ایک نہ ایک حاسہ یا قوت کے مرتبہ میں ہیں مثلاً:مستوفی، مشرب، ناظر، عارض، تغرائی، منشی، دبیر، حاجب، خازن، استادالدار اور دوسرے عہدیدار، حواس خمسہ اور قوی بشری مثلاً آنکھ، کان، ناک زبان، لمس، فکر، خیال، وہم، حافظہ، ذاکرہ اور حس مشترک کے مانند ہیں، امرائے سلطنت اپنی قوت، شوکت، ہمت رجولیت وغیرہ کے ساتھ اعضائے رئیسہ ہیں،اور ادنی درجے کے امراء مثل ہاتھ، بازو، ران، پنڈلی اور پاؤں کے ہیں، حاشیہ نشیں قوم اورعام رعایا وغیرہ اپنے مدارج کے مطالق رگ اور پٹھے وغیرہ ہیں،جس طرح ایک انسان اپنے ہرعضوکا محتاج ہے اور ایک کے بغیر اس کے جسمانی نظام کو نقصان پہونچ جاتا ہے۔ اسی طرح ایک بادشاہ کو چاہیے کہ ارکان دولت واصحاب مناصب کو ان کی اہلیت و استعداد کے مطابق ان کی دیانت اور نیک سیرت کو معلوم کر کے اوراچھی طرح پرکھ کر مختلف حصوں میں مقرر کرے، اوراختیا ر دے تاکہ وہ اپنے کاموں کو پورے شرائط کے ساتھ ملک کی مصالح اور دربار کی بہبودی کے مطابق انجام دیں اور بادشاہ ان کے کاموں سے باخبر رہے“۔
حضرت غوث العالم کی ان تعلیمات کا اثر ان کے مرید مخلص سلطان ابراہیم شاہ شرقی پر نہایت گہرا پڑا۔ چنانچہ انھوں نے حضرت کی تعلیمات پرعمل کر کے اپنی حکومت کو گلزار بنادیا۔

مؤرخین اورتذکرہ نویسوں نے اس بادشاہ کو ”دین پناہ“ ”علمائے شریعت کا قدردان“ ”درویش دوست“ اور”رعیت پرور“ لکھا ہے۔تاریخ فرشتہ میں ہے:۔
”ابراہیم شرقی کے زما نہ میں جونپور کاہر چھوٹا بڑا بادشاہ کے وجودکو باعث برکت سمجھتا اور بیحد عیش و آرام کے ساتھ زندگی بسرکرتاتھا۔ شاہ و گدا سب خوش و خرم تھے، ملک میں حزن اندوہ کا نام ونشان نہ تھا“۔
صاحب مرأۃ الاسرار نے لکھا ہے:۔
”سلطان ابراہیم بادشاہ نیک و درویش ورعیت پرور بود، خلائق بعہداودر عہد امن و آسائش قرار گرفت“
سلطان ابراہیم نیک،در ویش دوست اور رعیت پرور تھا، مخلوق اس کے زمانے میں امن وآرام و سکون کے گہوارے میں تھی۔

علم شریعت کی اہمیت اور شریعت کی پابندی

حضرت غوث العالم کسی حالت میں جادۂ شریعت سے تجاوز کرنا پسند نہیں فرماتے تھے، تمام علوم وفنون میں علم شریعت کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، آپ نے حضرت خواجہ مودودچشتی رحمتہ اللہ علیہ کے اس قول کی تائید فرمائی ہے کہ ”علم کے بغیر ایک زاہد شیطان کا مسخرہ ہے“ اس لیے راہِ سلوک میں توحید، معرفت، ایمان،شریعت وطریقت وغیرہ سے پوری واقفیت رکھنا ایک سالک کے لیے ضروری قرار دیا ہے، فرمایا کہ اگرکسی کو معلوم ہو کہ اس کی زندگی کی صرف سات دن باقی رہ گئے ہیں تو اس کوعلم فقہ حاصل کرناچا ہیے، علم دین کا ایک مسئلہ جاننا ہزار رکعت نفل سے بہتر ہے“۔
اور علم کے ساتھ اس کی متابعت اورعمل کی بھی پوری تاکید فرمائی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک ولی نہیں ہو سکتا جب تک وہ ظاہراً، با طناً، قولاً، فعلاً، اعتقاداً اورحالاً شریعت کاپابند نہ ہو۔

”لطائف اشرفی“ میں حضرت نظام الدین یمنی نے آپ کایہ ارشاد گرامی نقل فرمایا ہے:۔

”اولیاء بہ فنا فی اللہ والبقاباللہ نمی رسند، مگر بمتابعت آں پیشوائے قوافل اصفیاء و مقتدائے طوائف اولیاء یعنی محمد مصطفےٰ ﷺظاہراً، باطناً، قولاً وفعلاً اعتقاداً وحالاً ہر کسے در ظلمات نفس عادی ودرکات اسویہ باطلہ ہادی گشتہ ودر اسفل السافلین طبیعت مقید شہوت واسیر ضلالت واخلاق ناپسندیدہ شدہ، اگر اہل علم است بمقتضائے علم وعمل نمی کند وبشرط علم در مجموع اوقات واحوال متابعت شریعت نمی نماید بدرجات رفیعہ جنانی واعلی علیین معارف ربانی ومقعد صدق عرفانی عیانی نرسند واز مشرب عذاب آبِ معرفت رحمانی کہ چوں آبِ حیات در ظلمات طبیعت انسانی ست شربتے پخشد وجام شیریں شراب وجدانی بکام ایقانی نکشد“۔

اولیائے کرام، سردار اصفیاء و پیشوائے اولیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی ظاہراً وباطناً قولاً وفعلاً،اعتقاداً وعملاً اتباع و فرمانبرداری کے بغیر راہِ سلوک میں فنا فی اللہ وبقا باللہ کے مرتبے تک نہیں پہونچ سکتے، اگر کوئی شخص عالم ہے اور علم کے موافق عمل نہیں کرتا اور ہوائے نفسانی کا شکار، برائیوں میں گرفتار، فطری خواہشات میں ملوث اور بے راہ روی وکج خلقی میں مبتلا ہے اور علم ہونے کے باوجود تمام اوقات واحوال میں شریعت کی پابندی نہیں کرتا تو وہ جنت کے اعلی علیین جیسے بلند درجے رب کی معرفت اور سچائی کی قیام گاہ تک نہیں پہونچ سکتا ہے اور معرفت رب کے چشمۂ شیریں کا کوئی قطرہ (جو کہ فطرت انسانی کے ظلمات میں آب حیات کے مانند ہے) اور شراب معرفت سے وجدان ویقین کا کوئی میٹھا جام نہیں چکھ سکتا(یعنی بغیر عمل خدا کی معرفت نہیں حاصل ہوسکتی)

آپ کی زندگی کا زیادہ ترحصہ سیروسیاحت میں گزرا لیکن آپ نے سفرمیں بھی شریعت کی پابندی کا التزام رکھا،حتی کہ نماز جمعہ تک ترک نہیں ہوئی۔
”لطائف اشرفی“ میں ہے:
”حضرت قدوۃ الکبریٰ را قاعدہ مقررہ و قانون مستمرہ بود کہ جمعہ در سفر و حضرمتروک نشدہ است“
حضرت غوث العالم کا معمول تھا کہ نمازجمعہ سفر وحضر میں نہیں چھوٹتی۔
حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ”پیروں اور مرشدوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مریدوں اور طالبوں کے دل کی حالت سے آگاہ رہیں تا کہ شریعت اور طریقت کے خلاف کوئی شبہ بھی ان کے دل میں نہ آئے اور وسوسۂ شیطانی دور ہو جائے“۔
ایک شخص حضرت کے پاس آیا اور سوال کیا کہ طریقت شریعت پر مقدم ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ”یہ صوفیاء پراتہام ہے۔ انھوں نے کوئی ایسالفظ استعمال نہیں کیا جو کتاب وسنت میں نہ ہو۔طریقت عین شریعت ہے، اورشریعت طریقت سے جدا نہیں، آپ نے فرمایا کہ تربیت اخلاق اورتصفیۂ قلب و روح کے لیے قرآن میں جو کچھ لکھا ہے مشائخ نے اسی سے طریقت کے مسائل نکالے ہیں“۔
حضرت فرماتے تھے کہ”میں نے ملفوظات مشائخ بغور پڑھا اور اولیائے روزگار کی خدمت میں حاضری دی؛ لیکن یہ بات مجھے معلوم نہ ہوسکی کہ راہِ سلوک کی کو ئی منزل ایسی بھی ہے جہاں عبادت معاف ہو جائے۔ ان خاصانِ خدا نے مرتے دم تک کارخیر کا کوئی پہلو بھی نہیں چھوڑا۔ فرائض و واجبات تو بہت اہم ہیں،ان سے سنت کا کوئی ادب تک نہیں چھوٹا“۔
حضرت نے فرمایا”جناب شبلی رحمتہ اللہ علیہ پر جب نزاعی کیفیت طاری ہوئی۔ اس وقت شیخ کبیر دینوری رحمتہ اللہ علیہ بھی موجود تھے، حضرت شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا مجھے وضو کرادو۔ چنانچہ میں نے وضو کرایا، لیکن داڑھی میں خلال کرنا بھول گیا، اس وقت ان کی زبان بے قابو ہوگئی تھی مگر آپ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میرا ہاتھ اپنی ڈاڑھی تک لے گئے اور داڑھی میں خلال کرنے کا اشارہ کیا اور روح پرواز کر گئی۔

اخلاق و عادات

حضرت غوث العالم کی زندگی اخلاق نبوی اور شریعت مصطفوی ﷺ کا عملی نمونہ تھی۔ آپ کی زندگی کا کوئی حصہ عبادت اور ذکرسے خالی نہیں رہتا تھا۔ آپ کایہ معمول تھاکہ رات کا دو حصہ عبادت الٰہی میں گذارتے تھے اوربیچ کے ایک حصہ میں سوتے تھے۔ آپ نے اپنے ایک مریدکو خط کے ذریعہ عبادت الٰہی پر زور دیا اور اس سلسلے میں چند ہدایات فرمائیں جن پرعمل کرنے کی تاکید فرمائی، جس سے خود حضرت کے اخلاق و عادات پربھی روشنی پڑتی ہے۔حضرت نے اس خط میں تحریر فرمایاکہ:۔
”جو اپنانصیب جگا نا چاہے تو اسے چاہیے کہ آنکھوں میں نیند حرام کرلے، اصول الی اللہ کا خواب دیکھنے کے لیے چند چیزوں کا التزام کرنا ضروری ہے۔

اول یہ کہ دن میں کچھ جسمانی محنت کر کے بدن کو ہلکا کر لینا چاہیے تاکہ رات کو قیام کرنے میں آسانی ہو۔

دوسرے یہ کہ رات میں قیام کرنے کے لیے دن میں معدہ کو غذا سے خالی رکھے۔

تیسرے یہ کہ دن کو قیلولہ کر کے رات کے قیام کے لیے اپنے کوتیار رکھے۔

چوتھے یہ کہ نفس کو روزانہ کے گناہوں سے محفوظ رکھے۔
جس نے دنیا میں ان چاروں چیزوں کو اختیار کرلیا۔ وہ تمام کامیابیوں سے آراستہ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا کہ”عبادت کے احترام میں نیند اور غذا سے بے پرواہ ہوکر بیداری سے مجھے یہ دولت وصال حاصل ہوئی ہے۔
آپ جہاں تشریف لے جاتے مسجدمیں اعتکاف کی نیت سے قیام فرماتے، یا خانقاہ میں قیام فرماتے تھے۔ بالخصوص نماز کی بڑی پابندی رکھتے تے اور کسی حالت میں بھی آپ کی نماز قضا نہیں ہوئی تھی۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد حلقۂ ذکر ہوتا تھا، اس کے بعد اپنے تمام اصحاب ومریدین کا محاسبہ فرماتے تھے، نماز تو اہم فرائض اسلام سے ہے۔ اگر کوئی نوافل کی ادائیگی میں بھی سستی کرتا یا کسی کار خیر میں تساہلی برتتا توحضرت بڑی سختی سے پیش آتے اورسخت تنبیہہ فرماتے تھے۔
آپ کے پاس جو نذرانے آتے تھے اسے آپ نے کبھی ایک دن سے زیادہ نہیں رکھا،جو کچھ ملتا ایک ہی دن میں اسے خرچ کردیتے تھے، سفر میں بس تین دن کا خرچ ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ دوسروں کی حاجت پوری کرنے میں آپ کو بڑا سکون ملتاتھا۔ آپ کے اندر کبروغرور کا شائبہ تک نہ تھا۔ آپ کی خاکساری کایہ عالم تھاکہ اگرچہ آپ ولایت کے بلند ترین مرتبہ مقام غوثیت پر فائز تھے۔ اور علمی اعتبار سے بھی کسی سے کم نہ تھے؛لیکن جب بھی کسی عالم، صوفی یابزرگ کا نام لیتے توبڑے ادب کے ساتھ لیتے۔ آپ کے اندراستغناء حد درجہ تھا۔ بہت سے امراء نے آپ کو جاگیر یں لکھنا چاہیں لیکن آپ نے انکار کردیا اور قبول نہیں فرمایا۔
آپ کے پاس جب کوئی آتا اورمرید ہونے کی خواہش ظاہر کرتا تو آپ فرماتے اب نہ مرید رہ گئے اورنہ پیر رہ گئے۔ اور جب وہ کہتا میں توبہ کر نا چاہتا ہوں توفوراً بخوشی اس کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے بھائی! آؤہم تم دونوں توبہ کریں۔ اس کے بعد ریاضت اور مجاہدے کی تعلیم و تاکید فرماتے۔ اور جب اس کی تعلیم وتربیت مکمل ہوجاتی تو اس کے لیے کوئی جگہ مقرر فرمادیتے تاکہ وہ وہاں جاکر لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کے فرائض انجام دے۔
حضرت غوث العالم اپنی مجلسوں میں اکثر وبیشتر علمی مسائل اور روحانی اسرار و رموز بیان فرمایاکرتے تھے۔ اورآپ کی زبانِ مبارک میں وہ حلاوت و اثر تھا کہ آپ کے کلام کی تا ثیر سے حاضرین مجلس پروجد وکیف کا عالم طاری ہوجاتاتھا۔
تعویز لکھنے میں آپ بڑی کراہت محسوس فرماتے تھے لیکن مریدین کی دلجوئی اور لوگوں کے اصرارپر کبھی تعویذ بھی لکھ دیتے تھے، جس جگہ لوگ صرف تعویذ کے لیے آپ کی خدمت میں آتے تو وہاں سے آپ فوراً دوسری جگہ کے لیے روانہ ہوجاتے اور فرماتے اصل چیز شریعت پر عمل اور قربِ الٰہی کی طلب ہے، اور یہ چیزیں اس مقصد کے حصول میں مانع ہوتی ہیں، اسی طرح جس جگہ آپ کی ولایت اور کرامت کاچرچا عام ہوجاتا تو وہاں سے بھی آپ فوراً دوسری جگہ چلے جاتے۔ شیخ کی فرمانبرداری اور ادب کایہ عالم تھاکہ آپ کے شیخ آپ سے کوئی کام نہیں لیتے تھے؛ لیکن آپ شیخ سے چھپا کر شیخ کا پیشاب پھینک دیا کرتے تھے، آپ نے پوری زندگی پنڈوہ شریف کی طرف پاؤں نہیں پھیلائے۔ اورنہ ہی پنڈوہ شریف کی طرف منھ کر کے کبھی تھو کا۔ حد یہ ہے کہ شیخ کی گلی کے کتے سے بھی پیار کرتے تھے۔
آپ نے کبھی کوئ مشکوک غذا نہیں کھائی۔ لوگوں نے بارہا کوشش کی اور طرح طرح سے کھلانا چاہا؛ لیکن پروردگار عالم نے آپ کو مشکوک غذا سے محفوظ رکھا۔ آپ کبھی کبھی عالم حیرت میں ہوتے تھے، اس عالم تحیّر میں جس پر آپ کی نظر پڑ جاتی وہ صاحب کمال ہوجاتا تھا۔ یہی خصوصیت حضرت نجم الدین کبریٰ رحمتہ اللہ علیہ میں بھی پائی جاتی تھی، حضرت نظام یمنی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مسند عالی سیف خاں کہتے تھے کہ عین اسی عالم تحیر میں حضرت غوث العالم کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی۔ مجھے جو کچھ بھی حاصل ہوا وہ بس اسی ایک نگاہ کا فیضان ہے۔
نہ تخت و تاج میں نہ لشکروسپاہ میں ہے
جو بات مردقلندر کی اک نگاہ میں ہے
اگرچہ آپ نے بادشاہی بھی فرمائی؛ لیکن مزاج ہمیشہ درویشانہ رہا، اور امور سلطنت کی مصروفیتوں کے باوجود فرائض و واجبات، سنن و نوافل کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔غریبوں سے ہمدردی، محتاجوں کی حاجت روائی، مظلوموں اور دردمندوں کی دادرسی، سخاوت و فیاضی، خلق خدا کی خدمت اورمحبت آپ کے جزو اخلاق تھے۔

امرتبۂ علمی

علمی حیثیت سے بھی حضرت غوث العالم کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ آپ اپنے دور کے جیدعالم اور پائے کے محقق تھے۔ معقولات ہو یا منقولات، تفسیر ہو یا حدیث، فقہ ہو یا کلام، فلسفہ ہو یا منطق، ادب ہو یا تاریخ جملہ علوم و فنون میں آپ کو پورا عبور حاصل تھا۔ اور اپنے دور کے اکابر علماء کی صف اول میں شمار ہوتے تھے۔ عرب و عجم میں آپ کی تبحر علمی اور خداداد قابلیت کی ایسی شہرت ہوئی کہ ممتاز علماء اور نامور فضلاء بغرض استفادہ و شاگردی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔آگے چل کر آپ کے روحانی مراتب د درجات کی بلندی کے ساتھ ساتھ آپ کا یہ تبحرعلمی بھی بڑھتاگیا۔ آپ نے اپنی طویل حیات مبارکہ میں دنیائے اسلام کے گوشے گوشے کا سفر کیا اور بڑے بڑے جید علماء و مشائخ سے سابقہ پڑا؛ لیکن ہر ایک کو آپ کے تبحر علمی کا لوہا ماننا پڑا، اور عرب وعجم ہر جگہ اورہر خاص وعام نے آپ کی قابلیت کا اعتراف کیا، آپ کے مریدین وخلفاء میں بہت بڑی تعداد علماء وفضلاء کی تھی۔ حضرت شیخ الاسلام گجراتی، حضرت شیخ الاسلام رومی، حضرت شیخ کبیر، حضرت شیخ نظام یمنی، حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی، حضرت مولانا خیرالدین انصاری، حضرت مولاناقاضی حجت، حضرت مولانا اعلام الدین جائسی، حضرت شیخ سلیمان محدث حضرت مولانا رفیع الدین اودھی، حضرت شیخ ابو الوفاء خوارزمی جیسے صاحب علم و فن اور مایۂ نازعلماء کا آپ کے تبحر علمی سے متأثر ہونا اور آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہونا اورعلمی مسائل میں آپ سے استفادہ کرنا اور راہِ سلوک میں آپ سے رہنمائی حاصل کرنا اور آپ کی غلامی اختیار کرنا آپ کی غیرمعمولی علمی قابلیت اور روحانی بصیرت کی روشن دلیل ہے۔
بعض علماء نے آپ کو آٹھویں صدی ہجری کا مجدد قرار دیا ہے۔ رتبۂ مجددیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم جس کو الله تعالیٰ اس مرتبۂ بلند پر فائز فرمائے ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے شروع میں علمی شہرت رکھتا ہو اور اس کے علمی اور دینی فیض سے اس صدی کے لوگ بھی اور آنے والی صدی کے لوگ اس کی حیات ظاہر میں بھی فیضیاب ہوں اور اس کی وفات کے بعد بھی اس کی تعلیمات سے مستفید ہوں۔ حضرت غوث العالم کے علمی اور روحانی فضیلت کی ۷۰۰؁ھ کے آخر اور ۸۰۰ ؁ھ کے ابتدامیں دنیا کے گوشے گوشے میں دھوم مچی ہوئی تھی، اور ہر ملک میں لوگوں نے بہت بڑی تعدادمیں فیض حاصل کیا۔ اور آپ کے علمی دھاک کاسکّہ پوری دنیا پر بیٹھ گیا اورجس قدر فائدہ آٹھویں صدی ہجری کے مسلمانوں کو آپ کی ذات گرامی سے پہونچا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔

محدثین نے آٹھویں صدی ہجری کے مجد دین میں حافظ زین الدین عراقی، علامہ شمس الدین جزری اور علامہ سراج الدین بلقینی کو شمار کیا ہے۔ لیکن حضرت غوث العالم کوعلمی اور روحانی فضیلت ان حضرات سے زیادہ حاصل تھی، جن کاشمارآٹھویں صدی ہجری کے مجددین میں کیاگیاہے۔
آپ وعظ وتقریر سے حتی الامکان پر ہیز کرتے تھے؛ لیکن لوگوں کے ضد و اصرار پرچند تقریریں بھی فرمائیں جن کا ذکرگذشتہ صفحات میں ہو چکا ہے۔ ان تقریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ فن خطابت میں بھی بے مثال تھے۔ اوراس فن میں بھی آپ کوعبورحاصل تھا۔

لطائف اشرفی

آپ کے خلیفۂ خاص نظام الدین یمنی الملقب بہ حاجی نظام غر یب الیمنی نے ترتیب دیا، تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔یہ حضرت غوث العالم کی سوانح عمری بھی ہے اور ان کی تعلیمات کا آئینہ بھی،جس میں تصوف اور اس دور کے تمام پیچیدہ مسائل کی عالمانہ انداز سے تشریح کی گئی ہے۔ اس میں تصوف و اصطلاحا تِ تصوف کی تشریح و توضیح بھی ہے، اور ذکر وفکرکی تفصیلات بھی ہیں، غوامض صوفیاء پر مباحث بھی ہیں اور صوفیائے کرام کے مختلف خانوادوں کی تاریخ بھی ہے، رسول اور اہل بیت رسول ﷺ نیز خلفائے راشدین اور ائمہ کبار کے حالات بھی ہیں، اور صوفی شعراء پر دلچسپ تبصرہ بھی ہے، غرضیکہ اس کو تصوف کا ایک ”قاموس“ کہا جاسکتا ہے۔
اس میں جو آپ کے حالاتِ زندگی ہیں، انہیں خود نوشت سوانح حیات کا درجہ حاصل ہے؛ اس لیے کہ اس کتاب کے مقدمے میں حضرت شیخ نظام الدین یمنی لکھتے ہیں کہ:۔

”میں ہر روز جو کچھ آپ سے سنتا اسے لکھ لیتا، اور روز یادوسرے یا تیسرے دن حضرت غوث العالم کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی صحت کی سند حاصل کرلیتا تھا“

اس کے علاوہ اس کتاب میں آپ کے اکثرو بیشتر ملفوظات وارشادات حضرت نظامی نے قال الاشرف کے تحت بلفظہٖ جمع کئے ہیں۔ اس کتاب سے آپ کی بے پناہ وسعت علمی اور قابلیت کا اظہار ہوتا ہے۔

آپ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ صوفیانہ رموز ونکات بھی علمی اندازمیں بیان فرماتے تھے۔

شعرو ادب سے بھی آپ کا بڑا لگاؤ تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنی تحریروں میں بعض شعراء کے اشعار کی توضیح وتشریح بھی فرمائی ہے، اور مختلف شعراء کے موزوں اشعاربھی موقع اورمحل کی مناسبت سے جگہ جگہ نقل فرمایا ہے۔ آپ خودبھی ایک صاحب ذوق اور زود گو شاعر تھے، آپ کا تخلص اشرف تھا۔ آپ کا دیوان تو نایاب ہے،لیکن ”لطائف اشرفی“ اور ”مکتوبات اشرفی“ میں آپ کے سیکڑوں اشعار موجود ہیں۔

یہاں بطو رنمونہ آپ کے دو کلام نقل کیے جاتے ہیں:۔

غزل
وصل چوں دست داد ملک جہاں گو میاش
لعل تو چوں حاصل است جوہرجاں گو مباش
آیت حسن ترا حاجت تفسیر نیست
صورت خورشید را شرح بیاں گو مباش
صف شکن عاشقان فتنۂ آخر زماں
غمزۂ ابروئے تست تیر و کمان گو مباش
عاشق روئے تو نیست طالب دنیا و دیں
آرزوئے جاں توئی کون و مکاں گو مباش
گردش گردوں اگر قطع شود گو بشو
حاصل فطرت توئی دور زماں گو مباش
و آتش عشق ار بسوخت خرمن ما گر بسوز
اشرفِ شوریدہ را نام ونشاں گو مباش

دیگر
روح دلہا روح افزا را حبیب دیگراست
بہر بیمارئ دلہا را طبیبِ دیگر است
ہر طبیب را نصیبے از دوا آمد ولے
حضرت مخدومی مارا را نصیبے دیگر است
بر منا بر ہر خطیبے خطبہ می خواند ولے
خطبۂ عشق کہ می خواند خطیبے دیگر است
از غرائب اولیاء گربسے دیدم ولے
در عجائب اصفیا مارا غریبے دیگر است
درسپاہ بے حدت گرچہ نقیبانند ولے
اشرفِ سمناں بدرگاہست نقیبے دیگراست
آپ نظم ونثر دونوں پریکساں قدرت رکھتے تھے، ”لطائف اشرفی“ اور”مکتوبات اشرفی“ اور دیگر تصانیف آپ کی نثر نگاری کابہترین نمونہ ہیں۔ مختلف علوم وفنون پر آپ کی گرانقدرتصانیف بھی ہیں جن میں کچھ اس وقت دستیاب ہیں اور کچھ نایاب ہیں۔

گرانقدر تصانیف

ا۔ نحواشرفیہ: یہ کتاب علم نحومیں عربی زبان میں ہے۔
۲۔ شرح ہدایہ: یہ علم فقہ میں ہے۔
۳۔ شرح فصول الحکم: شرح
۴۔شرح عوارف المعارف: شرح
۵۔ فوائد العقائدفارسی: اس میں تصوف کے مسائل واسرار
ومعارف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
۶۔ قواعد العقائد: (ترجمہ فوائد العقائدعربی)۔
۷۔فتاویٰ اشرفیہ: اس میں مسائل فقہ بڑی بڑی
کتابوں سے منتخب کر کے لکھے
گئے ہیں۔
۸۔ دیوانِ اشرف: آپ کے شعروشاعری کا مجموعہ ہے۔
۹۔ مناقب سادات: یہ کتاب سادات کے فضائل و
مناقب میں ہے۔
۱۰۔مناقب اصحاب کاملین ومراتب خلفائے راشدین: یہ کتاب خلفائے راشدین اورصحابۂ کرام کیفضائل ومناقب پر مشتمل ہے
۱۱۔ مکتوبات اشرفی: (مرتبہ: حاجی عبدالرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ) آپ کے خطوط کاگرانقد مجموعہ ہے۔

۱۲۔ مکتوبات اشرفی: (مرتبہ: حضرت درّ یتیم رحمتہ اللہ علیہ)جس میں صوفیانہ رموز و

نکات اور تصوف کا گراں قدر ذخیرہ ہے۔
۱۳۔ تحقیقات عشق: اس میں عشق کی تحقیق صوفیانہ انداز
سے کی گئی ہے۔
۱۴۔رسالہ وحدت الوجود: اس میں مسئلہ وحدۃ الوجود پر بحث کی
گئی ہے۔
۱۵۔ بشارۃ الاخوان: ان میں مسائل و اصول طریقت
۱۶۔ ارشاد الاخوان: اورتصوف کے رموز و اسرار بیان
۱۷۔ تنبیہ الاخوان: کئے گئے ہیں۔اور اور ادواشغال
۱۸۔ فوائد الاشرف: مشائخ چشت کا بیان ہے۔
۱۹۔ اشرف الفوائد:
۲۰۔ اشرف الانساب: اس میں سلاطین و مشائخ وصلحاء کے
کے نسب نامے درج ہیں۔
۲۱۔ رسالۂ غوثیہ: ذکر مردان اہل خدمات ابدال،
اوتاد، وغوث وقطب وغیرہ میں ہے۔
۲۲۔ بشارۃ المریدین، اس میں مریدوں کے لئے یپند و
رسالۂ قبریہ: نصائح ہیں، اور حالات قبر بیان
فرمایاہے اور اپنے عقیدے کا
اظہارواعلان فرمایا ہے۔
ریح سامانی:
۲۴۔ تفسیر نوربخشیہ: تفسیر۔
۲۵۔ترجمہ قرآن عظیم: ترجمہ۔
۲۶۔ بحر ذاکرین: اس میں ذکر پر بحث کی گئی ہے،اور
۲۷۔ حجۃ الذاکرین: اذکار اور ان کا طریقہ اور نتائج
۲۸۔بشارۃ الذاکرین: پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
۲۹۔بحرالحقائق: معرفت وحقیقت کے اسرار بیان
فرمائے ہیں۔
۳۰۔ کنز الدقائق: فن تصوف میں ہے۔
۳۱۔رسالہ تجویزیہ: یزید پر لعنت کے جواز میں ہے۔
۳۲- رسالہ خلاق و جیسا کہ تاریخِ ادب اردو کے بعض
تصوف (اردو): محققین نے لکھا ہے،اس تحقیق کے
اعتبارسے شمالی ہندوستان میں
زبان اردو کے نثرنگاروں میں سب
سے پہلا نام آپ کا آتا ہے۔

مرتبۂ ولایت

حضرت غوث العالم صوفیائے کرام میں امام السالکین، برہان العاشقین، قطب الربانی، غوث الانام اورمحی الاسلام کے القاب سے یاد کئے جاتے ہیں۔”لطائف اشرفی“ کے مؤلف حضرت نظام الدین یمنی رحمتہ اللہ علیہ نے”قدوۃ الکبریٰ“ کا لقب استعمال کیا ہے۔
صاحب”اخبار الاخیار“ رقم طرازہیں:۔
”از کامان است صاحب کرامات وتصرفات“
یعنی وہ صاحب کشف وکرامات اور اولیائے کاملین میں سے تھے۔
خزینۃ الاصفیاء میں ہے:۔
”از عظمائے اولیائے وکبریٰ اتقیائے خطّۂ ہندوستان است“
یعنی ہندوستان کے بزرگ ترین اولیائے کرام اوربڑے متقیوں میں آپ کا شمار ہوتاہے۔
”مرأۃ الاسرار“ کے مصنف لکھتے ہیں:۔
”آن سلطان مملکت الدنیا و الدین آں سرحلقۂ عارفانِ اربابِ علم و یقين آں محب و محبوبِ خاص ربانی غوث الوقت حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ از بینظیرانِ روزگاربود وشان بغایت رفیع وہمتے بلند وکرامت وافر داشت“
ترجمہ: آپ دین دنیا کے تاجدار اربا بِعلم ویقین و صوفیائے کرام کے سردار اور اللہ کے محبوبِ خاص غوثِ وقت حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدّس سرہ النورانی یکتائے روزگار اور عالی ہمت اور بلندمرتبہ بزرگ تھے۔ اور بے شمار کرامات آپ سے ظاہر ہوئیں۔

”مرأۃ الاسرار گلزار ابرار“ کے مصنفمحمدغوثی نظامی تحریر فرماتے ہیں:

”کشف و کرامات اور منازل و مقامات کے آپ مالک تھے۔ آپ کے بیان سے عرفان کا آبِ حیات بہتاتھا اور آپ کے دل سے شوق و محبت کے آگ کے شعلے اٹھتے تھے۔

آپ سمنان کے تاجدار تھے؛ لیکن عشق الٰہی سے سرشار ہوکر اشاعت اسلام اورتبلیغ دین کی خاطر آپ نے تاج شاہی کو اتار دیا۔ اورتخت وسلطنت کو ٹھوکر مار دیا۔یہ ترکِ سلطنت بھی ایک کرامت ہے۔ چنانچہ مخدوم الملت حضرت محدثِ اعظم ہند کچھوچھوی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:۔

”ترکِ سلطنت ایک خرقِ عادت اور کرامت ہے اور بشریت کی قوت سے بالاتر ہے اس کے لیے اس بر گزیدہ ہستی کی ہمّت درکار ہے جس کی جہانگیری کا آوازہ ملاء اعلی میں بلند ہو چکا ہو اور جس کاطائر ہمّت عرش پر پرواز کر رہا ہو اور افواج قدس جس کی نگہبانی کر رہی ہو اورقلعۂ ولایت جس کی حفاظت کے لیے ہو،قصر قطبیت اس کامسکن ہو اورخزانۂ کرامت پراس کا اقتدارہو، تخت اقتدار جس کا پامال ہو، اورتاج غوثیت جس کے سر پر جگمگا رہا ہواور محبوبیت کاجامہ جس کے بدن پر زیب دیتاہو“۔
اوراسی کرامت کی تو ضیح ملک محمد جائسی کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:۔
”درصدیقین امت محمدیہﷺ دو کس بسبب ترکِ سلطنت بر جمیع اولیاء اللہ فضیلت دارند اول سلطان التارکین خواجہ ابراہیم ادھم رضی اللہ عنہ دوم سلطان سیّد اشرف جہانگیرسمنانی“
یعنی امت محمدیہ ﷺ میں دو بزرگ ترک سلطنت کی وجہ سے تمام اولیاء الله پر فضیلت رکھتے ہیں ایک سلطان التارکین حضرت خواجہ ادھم رضی اللہ عنہ دوسرے سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی رحمتہ اللہ علیہ۔
آپ نے ترک سلطنت فرماکر اور اپنے رب کریم کی بارگاہ میں قربت حاصل کر کے وہ شہنشاہی حاصل فرمائی جس کی حیرت انگیز حکمرانی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ آپ نے ایک ملک ظاہر کی سلطنت ترک فرمائی تو پرور دگار عالم نے سلطنت ظاہری اور باطنی دونوں کاتاجدار بنادیا۔ اور تمام عالم کو آپ کے قبضے اور تصر ف میں دیدیا، اب سلاطین زمانہ آپ کے خادم ہو گئے اور آپ سے طالب امداد ہوئے ؎
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کے ٹھوکرمیں زمانہ ہے
آپ کے روحانیت کی بشارت خود حضور سیّد عالم ﷺ نے آپ کے والد کودی۔ ابراہیم مجذوب نے آپ کی بزرگی و عظمت کا مژدہ سنایا۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے آپ کو راہِ سلوک کی تعلیم دی اور رہنمائی فرمائی۔ سلطان المرشدین حضرت شیخ علاء الحق رحمتہ اللہ علیہ آپ کے استقبال کے لیے پنڈوہ سے باہر آئے اور اپنے ہمراہ سواری پر خانقاہ میں لائے اور مرید کیا، اور اسی وقت خرقۂ خلافت عطاکردیا اور فرمایا کہ فرزنداشرف! تمہارے آنے کی خوشخبری حضرت خضر علیہ السلام نے مجھے ستر باردی تھی اورسفرکی ہر منزل پرمیری روحانیت تمہارے ساتھ تھی۔
شیخ کبیرعباسی، شیخ صفی الدین ردولوی، مولانا اعلام الدین جائسی اور بہت سے لوگوں کو آپ کی ولایت کی خبر خواب میں ملی۔ اور بیداری کے بعد حاضر خدمت ہو کر مرید ہوئے۔

جملہ سلاسل کی اجازت وخلافت

آپ نے ایک سو نوّے (۱۹۰) اولیائے کرام سے شرف ملاقات اورنعمتیں حاصل فرمائیں اور اس کے علاوہ بیشمار اولیائے روز گار اور مشائخ کبارسے ملاقات فرمائی۔ آپ نے جملہ مقامات مقدسہ کی زیارت فرمائی،اور مختلف ممالک میں مزارات مشائخ اولیاء پرحاضری دی اور ان سے فیوض و برکات حاصل کیے۔ آپ نے اجلۂ مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضری دی اور خرقہ و دیگر تبرکات حاصل کیے۔ اوربعض مشائخ کی خدمت میں چند دنوں رہے۔ اگر چہ آپ کو سلسلہ چشتیہ بہشتیہ میں بیعت خاص تھی؛ لیکن آپ نے جملہ سلاسل میں بیعت عامہ حاصل کی۔ اور ہر سلسلہ کے برکات سے مستفید ہوئے، سلسلۂ نقشبندیہ کی بیعت ونعمت تو خود صاحب سلسلہ شیخ الشیوخ خواجۂ خواجگان حضرت بہاء الدین نقش بند رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کوملی، سلسلۂ قادریہ وسہروردیہ کی بیعت ونعمت آپ کو حضرت مخدوم جہانیاں قدس سرّہ العزیز سے حاصل ہوئی، آپ دوسری بار جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس مرتبہ آپ کو چودہ خانوادوں کی اجازت و خلافت عطافرمائی، اور جتنے مشائخ سے جوبقیدحیات تھے یا واصلِ بحق ہو چکے تھے ان کی روحانیت سے حضرت مخدوم جہانیاں کو جو نعمتیں حاصل ہوئی تھیں وہ سب آپ نے حضرت غوث العالم کو عنایت فرمادیں،یہی وجہ ہے کہ آپ نے جملہ سلاسل میں جس کو جہاں چاہا مرید فرمایا اور جوشخص سلسلۂ اشرفیہ میں مرید ہوا گویاوہ جملہ سلاسل میں مرید ہے۔

منصب غوثیت ومحبوبیت

آپ کے روحانی مقام کا یہ عالم ہے کہ صوفیائے کرام میں صرف تین ہستیاں ایسی گذری ہیں جو مقام محبوبیت سے سرفراز ہوئیں۔ اول محبوب سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ دوم حضرت شیخ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہ سوم محبوب یزدانی حضرت شیخ سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللہ علیہ۔ یہ ولایت کا ایک بلند مقام ہے، آپ محبوب یزدانی کے منصب بلند پر فائز ہوئے۔
لیکن منصب ولایت میں بلند ترین منصب مقام غوثیت ہوتا ہے، غوث ساری دنیا میں ایک وقت میں صرف ایک ہی ہوتاہے۔ اس سے پہلے جو غوث تھے وہ جبل فتح میں مقیم تھے۔ اور آپ نے جب جبل فتح کا سفر کیا تھاتوان سے ملاقات بھی فرمائی تھی۔ ان کی وفات کے بعد ولایت کے اس بلند ترین مقام پرحضرت غوث العالم کا انتخاب ہوا۔ اور آپ”غوث زمانہ“ اور”غوث العالم“ ہو گئے۔

عام طور پرغوث پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کی قبر بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ صرف چند ایسے غوث ہوئے ہیں جن کو خدا نے اپنی مرضی سے شہرتِ دوام عنایت فرمائی۔ انھیں میں ایک غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیّد اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی ذات گرامی بھی ہے۔ سچ ہے کہ

یہ مرتبہ بلند ملاجس کو مل گیا

جلیل القدر خلفاء

 آپ کی ذات گرامی سے سلسلۂ عالیہ قادریہ، جلالیہ، اشرفیہ اورسلسلۂ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ کی ترویج واشاعت ہوئی، اورکثیر اولیا ئے روزگار و افاضل علماء ومشائخ کبار داخل سلسلہ ہوئے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ ہے،جنھیں خود آپ نے اپنی حیات طیبہ میں دنیا کے گوشے گوشے میں اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کے لیے صاحب ولایت بناکر بھیجا۔ آپ کے تقریباً سبھی خلفاء اپنے وقت کے زبردست عالم وصوفی تھے، ان خلفاء نے اسلام کی بڑی خدمت کی۔

ذیل میں ہم آپ کے کچھ ان مشہور ومعروف خلفاء کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا آپ سے گہراتعلق تھا گو کہ ان میں بعض کا تفصیلی ذکر گذشتہ اوراق میں جگہ جگہ آچکا ہے؛لیکن یہاں آپ کے خلفاء کے تعارف کے سلسلے میں اجمالاً دوبارہ ذکر کیا جا رہا ہے۔

(۱) حاجی الحرمین حضرت سید شاہ ابوالحسن عبد الرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ

آپ جیلان کے رہنے والے تھے۔ اور حضرت غوث العالم کے خالہ زادبہن کے صاحبزادے تھے۔ آپ کے والدین نے انہیں حضرت کی فرزندی میں دیا اور حضرت نے انہیں بخوشی قبول فرمایا، حضرت غوث العالم سید عبدالرزاق سے بہت محبت فرماتے تھے اور انھیں انتہائی محبت سے ”نورالعین“ کے خطاب سے نوازا۔ حضرت نور العین کو حضرت کی روحانی فرزندی کا شرف حاصل ہوا، حضرت غوث العالم نے اپنی حیات مبارکہ میں انھیں اپناجانشین نامزد فرمایا اور سارے تبرکات عنایت فرمائے۔ حضرت غوث العالم کے وصال کے بعد حاجی عبدالرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ آپ کے سجادہ نشین ہوئے۔ اور چالیس سال سجادہ نشینی فرمائی،اور رشد و ہدایت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ نے حضرت غوث العالم کے خطوط کو”مکتوبات اشرفی“کے نام سے کتابی شکل میں ترتیب دیا۔

(۲) حضرت شیخ نظام الدین غریب الیمنی رحمتہ اللہ علیہ

آپ یمن کے رہنے والے تھے، جب حضرت غوث العالم یمن تشریف لے گئے تو وہاں آپ کو حضرت سے شرف ملاقات حاصل ہوا اور پھر حضرت کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے، آپ کی عقیدتمندی کایہ عالم تھا کہ جب حضرت سے قریب ہوئے تو زندگی بھر جدا نہ ہو ئے، اوراپنی پوری زندگی حضرت کی خدمت میں وقف کردیا۔ آپ ایک اچھے ادیب وشاعر بھی تھے۔غریب آپ کا تخلص تھا۔ آپ کو حضرت سے وہ قرب حاصل حاصل تھا جو نورالعین کے علاوہ کسی کو بھی حاصل نہ تھا، حضرت غوث العالم کی سوانح حیات اورملفوظات ”لطائف اشرفی“ کے نام سے آپ نے ترتیب دیا۔

(۳) حضرت شیخ کبیر رحمتہ اللہ علیہ

آپ نواحِ جونپور میں ایک گاؤں ”سرہرپور“ ہے وہیں کے رہنے والے تھے۔ بڑے عالم و فاضل اور علم ظاہر سے پورے طور پرآراستہ و پیراستہ تھے، جب حضرت غوث العالم کے پیرومرشد سلطان المرشدین حضرت شیخ علاء الحق والدین نے آپ کو دیارِ جونپور کا صاحب ولایت بنایا تو آپ نے عرض کیا کہ آپ مجھے جونپوربھیج رہے ہیں، وہاں ایک شیر بھی رہتا ہے، آپ کے پیرومرشد نے فرمایا گھبرانے کی کوئی بات نہیں، وہاں تمہیں ایک ایسا بچہ ملے گا جو اس شیر کے لیے کافی ہو گا۔ وہ بچہ جس کے بارے میں آپ کے پیر نے پیش گوئی فرمائی تھی یہی حضرت شیخ کبیر تھے۔ آپ کو حضرت کے خلیفۂ اول ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اور حضرت غوث العالم کے احباب واصحاب میں بلند مقام رکھتے تھے۔ حضرت نے آپ کو”جوہر کان وقائق“ فرمایاہے۔ روح آباد رسول پور درگاہ کی نیابت حضرت غوث العالم کے عدم موجودگی میں حضرت شیخ کبیر کے سپرد ہوتی تھی۔

(۴) حضرت شیخ محمد دُرّ یتیم رحمتہ اللہ علیہ

حضرت شیخ کبیر رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادے تھے۔ کم سنی میں آپ کے والد گرامی کا انتقال ہوگیا۔ حضرت غوث العالم نے ان کی تعلیم تربیت خود فرمائی اور اس کے بعد اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ حضرت آپ سے بہت محبت فرماتے تھے اور پیار سے ”دُرّیتیم“ کے نام سے آپ کویاد فرماتے تھے۔ بعد میں وہ اسی نام سے مشہور ہوئے۔

(۵) حضرت شیخ شمس الدین اودھی رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت شیخ نظام الدین اودھی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند تھے۔ آپ اجودھیا کے رہنے والے تھے، آپ کے بارے میں اکثر فرمایاکرتے تھے کہ اودھ سے ایک دوست کی خوشبو آرہی ہے۔ آپ نے مولانا رفیع الدین اودھی سے علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تکمیل کے بعد بیعت کے خواستگار ہوئے تو مولانا نے کہا کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے تمہیں عطا کردیا۔ تمہاری راہِ سلوک کی تکمیل ایک سید سے ہو گی، چنانچہ جب حضرت سے ملاقات ہوئی تو فوراً مر ید ہو گئے، حضر ت نے انھیں خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔ حضرت ان کے بارے میں فرماتے تھے ”اشرف شمس وشمس اشرف“ اس جملے سے آپ کی عظمت کا اظہار ہوتاہے۔۔

(۶) حضرت شیخ قاضی حجّت رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت کے معروف ومشہور خلفاء میں تھے، مقولات ومنقولات کے زبردست عالم تھے۔ روح آباد کے قریب ہی سکونت اختیار کی اور دینی وروحانی اصلاح کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔

(۸) ملک العلماء حضرت شیخ قاضی شہاب الدین دولت آبادی رحمتہ اللہ علیہ

آپ مایۂ ناز عالم تھے، آپ کا شمار اس دور کے اکابرعلماء میں ہوتا تھا۔ سلطان ابراہیم شرقی کے دور میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائزتھے آپ جب پہلی بارحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے تبحر علمی سے بے پناہ متأثر ہوئے۔ آپ کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی اہم علمی مسئلہ پیش آتا تو حضرت کی خدمت میں اسے سمجھنے کے لیے جاتے، اورآپ کوپوری تسلی ہو جاتی، بہت سی کتابیں اورحواشی آپ نے تحریر فرمایا،جن میں شرح کافیہ، نحوارشاد، بدبع البیان، تفسیر بحر مواج، اصول ابراہیم شاہی، رسالہ در تقسیم علوم، رسالہ در صنائع مشہور ہیں۔

(۹) حضرت شیخ مولانا اعلامُ الدین رحمتہ اللہ علیہ

آپ اپنے دور کے جیدعالم تھے، چند پیچیدہ علمی مسائل مولانا کے لیے عقدۂ لاینحل بنے ہوئے تھے، مختلف علماء سے ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی؛ لیکن کوئی آپ کوتسلّی بخش جواب نہ دے سکا۔جائس میں حضرت غوث العالم سے ملاقات ہوئی تو آپ نے ان مسائل کو حضرت کی خدمت پیش کیا اور سمجھنے کی خواہش ظاہر کی،حضرت نے آپ کے ہر سوال کا ایسا اطمینان بخش جواب دیا کہ مولانا آپ کے وسعت علمی سے بے پناہ متأثر ہوئے اور مرید ہو گئے۔ اور اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔

(۱۰) حضرت شیخ الاسلام شیخ احمد گجراتی رحمتہ اللہ علیہ

آپ بڑے عالم و فاضل اور علوم وفنون ظاہری کے جامع تھے، علم ہیئت، نجوم اورحکمت میں آپ کا دخل تھا۔ انہوں نے چندعلمی مسائل حضرت سے دریافت کیے، حضرت نے ان مسائل کے ایسے شافی جوابات دیئے کہ شیخ الاسلام آپ کی علمی بصیرت پر دنگ رہ گئے۔ اور حضرت سے مرید ہوگئے۔

حضرت سے ان کی عقیدت کا یہ عالم تھاکہ ایک ساعت کے لیے بھی حضرت سے جُدا نہیں ہوتے تھے۔

(۱۱) حضرت شیخ صفی الدین ردولوی رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے تھے اور علم و فضل، زہد و تقوی میں ابوحنیفہ ثانی تھے۔ آپ بھی حضرت کے تبحر علمی سے متاثر ہوکر مرید ہو گئے اور چند دنوں بعد اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔حضرت نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:۔
”در بلا دِہند کسے را کہ بفنون درخشندہ غریب وشیوں عجائب پیراستہ دیدم دی بودہ“۔
یعنی ملک ہند میں صرف وہی تنہا تھے جنھیں میں نے مختلف علوم و فنون سے مزین اور عجیب و غریب صفات سے آراستہ وپیراستہ دیکھا۔

حضرت غوث العالم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ ان کو نورالانوار حاصل ہو اور ان کی اولادمیں تحصلی علم کاسلسلہ برابر جاری ہے، اورصرف انھیں کی خاطر ردولی میں چالیس روز قیام فرمایا، اوراس عرصہ میں ان کو سلوک کی تمام تعلیمات دیں۔ آپ کا شماربھی حضرت غوث العالم کے اجلۂ خلفاء میں ہوتاہے۔

(۱۲) حضرت شیخ رفیع الدین اودھی رحمتہ اللہ علیہ

آپ ایک ممتازعالم دین تھے، حضرت کے نامورخلفاء میں آپ کا شمار ہوتاہے، شاگرد سے استاد کیعظمت کاپتا چلتاہے۔آپ کے بارے میں اتنا جان لینابہت ہے کہ آپ حضرتشمس الدین ”فریادرس“ رحمتہ اللہ علیہ کے استاد تھے۔

(۱۳) حضرت شیخ سلیماں محدث رحمتہ اللہ علیہ

سورت کے رہنےوالے تھے ۔ بڑے عارفِ کامل زبردست عالم اور مشہور محدث تھے۔ اور حضرت کے خاص خلفا ءمیں تھے۔

(۱۴) حضرت شیخ معروف الدیموی رحمتہ اللہ علیہ

آپ بڑےصاحب حال بزرگ تھے۔ اور اکثر سفروحضر میں حضرت کے ساتھ رہتے تھے اور مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔

(۱۵) حضرت شیخ عثمان ابن خضر رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت خواجہ گیسو دراز رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان کےچشم چراغ تھے۔ آپ کی صلاحیتوں کو دیکھ کرحضرت نے خلافت عطا فرمائی۔ صاحب ”لطائف اشرفی“ نے آپ کو اجلّ السّادات لکھا ہے۔

(۱۶) حضرت شیخ راجا رحمتہ اللہ علیہ

آپ شریعت کے بڑے پابند تھے، لیا اور زہد وتقوی میں بڑی شہرت رکھتے تھے، نماز نہ پڑھنے والے سے ملناجلنا، کھانا پینا اور گفتگو کرنا کسی حال میں پسند نہیں کرتے تھے۔

(۱۷) حضرت شیخ سید عبدالوہاب رحمتہ اللہ علیہ

آپ کو اپنے پیر سے بڑا والہانہ لگاؤ تھا، ایک بار حضر غوث العالم نے ان کو کسی کام سے دہلی بھیجا۔ وہاں سے واپس آئے تو ان کے پاؤں میں آبلے پڑ گئے تھے،حضرت غوث العالم نے ان کو اپنا جوتا عنایت فرمایا، حضرت شیخ سید عبدالوہاب نے کمال احترام میں جوتے کو اپنے سر پر رکھ لیا اور اس کو اپنا تاج بناکر چالیس روزتک گھومتے رہے۔

(١٨) حضرت شیخ سماء الدین ردولوی رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت غوث العالم کے ممتاز خلفاء میں تھے، ان کے بارے میں حضرت اشرف جہانگیر فرماتے ہیں: ۔
”در طے انوارسبعہ از یاران ما دو کس را واقع افتادہ بود یکے شیخ ابوالمکارم را کہ اہتمام تمام درحق او مبذول شد تا از اں درطے مہلکہ بدر آمدہ دوم شیخ سماء الدین را از محنت بسیار وکلفت بے شمار ازاں ورطہ بدر آوردہ شد“۔
ہمارے احباب میں دوشخص انوارسبعہ کے بحر معرفت سے فیضیاب تھے۔ ایک حضرت شیخ ابوالمکارم جن کی ساری توجہ حق تعالیٰ کی طرف تھی، جس کے ذریعہ وہ (ہوا و ہوس) کی مہلک موجوں سے محفوظ رہے۔

اور دوسرے حضرت شیخ سماء الدین جن کوبڑی محنت و جانفشانی اور کدوکاوش کے بعد اس بھنور سے باہر لایا گیا۔

(۱۹) حضرت شیخ خیرالدین رحمتہ اللہ علیہ

آپ اپنے وقت کے مایۂ ناز علماء میں شمار کئے جاتے تھے۔ اصولِ فقہ کے بعض مسائل پر علمائے وقت سے سوالات کیے؛ لیکن آپ کوان کے جواب سےتشفی نہیں ہوئی۔ حضرت غوث العالم سے ملاقات کے بعد ان مسائل کی تشریح چاہی توحضرت نے ان کی اس طرح تشریح فرمائی کہ شیخ خیرالدین رحمتہ اللہ علیہ کو پوری تسکین ہوگئی اور اسی وقت حضرت کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کے ہمراہ بارہ افراد اوربھی حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔

(۲۰) حضرت شیخ قاضی محمد سدّھوری رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت شیخ خیرالدین سدّھوری رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ حضرت غوث العالم سے مریدہوئے، آپ کاشمار حضرت کے اجلۂ خلفاء میں ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں ”لطائف اشرفی“ میں ہے کہ:۔
”قاضی محمد سدّھوری بفنون علومِ غریبہ وشیون علوم عجیبہ پیراستہ بودند خصوص در علوم مشار الیہ بودہ اند“
قاضی محمد سدّھوری مختلف علوم وفنون عجیب وغریب صلاحیت کے مالک تھے بالخصوص مذکورہ علوم میں انھیں مکلہ حاصل تھا۔

(۲۱) حضرت شیخ ابوالمکارم امیر علی بیگ رحمتہ اللہ علیہ

آپ ہرات کے امیر اور سلطان تیمور کے لشکر کے افسر تھے، جب حضرت ترکستان تشریف لے گئے توحضرت سے ملے اورحضرت سے مرید ہو گئے، یہ جاہل محض تھے۔ حضرت کی خدمت میں بارہ سال تک رہے،صحبت شیخ نے علم و معرفت کے سارے دروازے کھول دئے اور عالم یہ تھا کہ بڑے بڑے علماء آپ سے اہم سوالات کرتے، اور آپ ان کاتسلی بخش جواب دیتے، حضرت نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا اور سمر قند کاصاحب ولایت بنایا۔ جہاں ان کے مریدوں کا بڑا حلقہ تھا۔
آپ اپنے مکارمِ اخلاق کی وجہ سے ابوالمکارم کہلائے۔

(۲۲) حضرت شیخ امیر جمشید بیگ رحمتہ اللہ علیہ

آپ امیر تیمور کے ایک درباری تھے، حضرت غوث العالم اپنی سیاحت کے زمانہ میں یاغستان پہونچے توامیر تیمور نے شیخ امیرجمشید بیگ کو نذرانہ دے کر حضرت غوث العالم کی خدمت میں بھیجا۔ نذرانے میں بہت سے مال واسباب تھے؛ لیکن جب یہ سامان حضرت غوث العالم کی خدمت میں پہونچا تو آپ نے تمام چیزوں کو فقراء میں تقسیم کر دیا۔ جمشیدبیگ حضرت سے مل کر اس قدر متاثر ہو ئے کہ تیمورکے دربار سے علٰیحدہ ہو کر حضرت کی غلامی اور درویشی اختیار کرلی۔ اورحضرت سے مرید ہو گئے،حضرت کے ساتھ ہندوستان آئے اور تعلیم وتربیت پوری کرنے کے بعد خلافت سے سرفراز ہوئے۔اس کے بعد حضرت روح آباد سے پھر اپنے وطن تشریف لائے، جہاں انہوں نے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری فرمایا۔

اس کے علاوہ بعض اور دوسرے خلفاء کے اسمائے گرامی یہ ہیں :۔
(۲۳) حضرت شیخ رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ
(۲۴) حضرت شیخ اصیل الدین جرہ باز رحمتہ اللہ علیہ
(۲۵)حضرت شیخ قیام الدین شہباز رحمتہ اللہ علیہ
(۲۱) حضرت شیخ جمیل الدین سفید بازرحمتہ اللہ علیہ
(۲۷)حضرت شیخ عارف مکرانی رحمتہ اللہ علیہ
(۲۸) حضرت مولانا شیخ ابو مظفر محمد لکھنؤی رحمتہ اللہ علیہ
(۲۹)| حضرت شیخ کمال جائسی رحمتہ اللہ علیہ
(۳۰) حضرت شیخ فخرالدین رحمتہ اللہ علیہ
(۳۱) حضرت شیخ تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ
(۳۲)حضرت شیخ نورالدین رحمتہ اللہ علیہ
(۳۳) حضرت شیخ مبارک گجراتی رحمتہ اللہ علیہ
(۳۴) حضرت شیخ حسین رحمتہ اللہ علیہ
(۳۵)حضرت شیخ سیف الدین مسند عالی سیف خاں رحمتہ اللہ علیہ
(۳۶) حضرت شیخ محمود کنتوری رحمتہ اللہ علیہ
(۳۷) حضرت شیخ سعدالدین گیسودراز رحمتہ اللہ علیہ
(۳۸) حضرت شیخ عبداللہ بنارسی رحمتہ اللہ علیہ
(۳۹) ملک الامراء حضرت شیخ ملک محمود رحمتہ اللہ علیہ
(۴۹) حضرت شیخ ابو محمد عرف معین متھن سدھوری رحمتہ اللہ علیہ۔

حضرت غوث العالم کے خلفاء میں کثیر تعداد علماء وفضلاء کی تھی،جو علم و فضل میں اپنا ایک ممتاز مقام رکھتے تھے، اور زہد وتقوی کے اعتبار سے اپنے زمانے کے جنیدوشبلی سمجھے جاتے تھے۔

آخری ایام

حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیّداشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی کے آخری مہینے محرم الحرام کا چاند دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ حضرت نورالعین نے آپ سے اس غیرمعمولی خوشی کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ فرزند نورالعین! ہمارے جدّ امجد حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسی ماہ میں شہادت پائی، میری خواہش ہے کہ جدّ بزرگوار کی موافقت نصیب ہو۔ اوریہی مہینہ مجھے بھی میسر آجائے۔یکم محرم الحرام کو آپ کی طبیعت خراب ہوئی جس کی وجہ سے گفتگو بہت کم کردی۔ ہروقت عالمِ حیرت وسکوت میں رہتے، توحید و معارف کا کوئی سوال پوچھتا تو دیر کے بعد جواب دیتے اور فرماتے کہ مجھے اس سے بہتر کام در پیش ہے۔ محرم الحرام کا پہلاعشرہ تمام اصحاب کے ساتھ زیادہ تر تلاوت قرآن عظیم میں گزرا۔ عاشورہ کے دن طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔ آپ کی علالت کی خبر سن کر دور دراز سے آپ کے خلفاء ، طالب ومرید، اولیاء، صلحاء عیادت کے لیے آنے لگے، آپ نے اپنی طبیعت کا حال کسی سے ظاہر نہیں فرمایا، اور اپنے اوراد و وظائف برابر ادا فرماتے رہے، اس درمیان حضرت شیخ نجم الدن پہلے آ چکے تھے ، مخدوم زادہ قطب عالم پنڈوی اور شیخ الاسلام رومی بھی آگئے اور حضرت کی یہ حالت دیکھ کرصحت و سلامتی کی دعا فرمائی۔ حضرت نے فرمایا اب صحت و سلامتی مخدوم زادے کو عطا ہو، میرے اورمحبوب کے درمیان بس ایک باریک پردہ رہ گیا ہے ۔ اب مناسب ہے کہ دوست، دوست سے مل جائے۔
۱۷/محرم الحرام سے آپ پر بے خودی کا غلبہ ہوا۔ صرف نمازکے وقت جسم میں حرکت ہوتی اور نماز کے بعدپھروہی حالت ہوجاتی، تین دن تک برابر یہی حالت رہی۔ احباب نے طبیعت کا حال دریافت کیا تو فرمایا کہ اس کا جواب نجم الدین دیں گے۔ لوگوں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ابھی تکمیل میں کچھ کمی تھی، ان تین دنوں میں وہ بھی پوری ہوگئی۔

اس عالم میں بھی رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رہا۔۲۰/ محرم الحرام سے ۲۳/ محرم الحرام تک تقریبا بارہ ہزار افراد نے آپ کے دست مبارک پر توبہ کیا ۔ اس زبان کا ذکر کرتے ہو ئے مؤلف ”لطائف اشرفی“ رقمطراز ہیں کہ :۔

”ہمہ اہالی دیار واعالی نامدرا نواحی کبار می آمدند، وہر یکے را بشارت وسعادت می دادند، دریں سہ روز چنداں خلائق بشرف توبہ وانابت وخلافت مشرف گشتند کہ شرح آں خدائے داند، اشرف الملک والی ولایت بدوازدہ ہزار کس آمدہ بشرف ارادت مشرف گشتند“

قرب وجوار اور دور دراز کے بہت سے چھوٹے وبڑے اور معزز لوگ آئے، اور ہر ایک بیعت و بشارت کی سعادت حاصل ہوئی، ان تین دنوں میں ارجوع الی اللہ اور خلافت سے اتنی زیادہ مخلوق خدا توبہ اور مشرف ہوئی جن کی تعداد صر ف خدا ہی جانتا ہے، اشرف الملک والی ولایت بارہ ہزار لوگوں کے ساتھ شرف بیعت وارادت سے مشرف ہوئے۔

ماہ محرم شروع ہوتے ہی حضرت نے روضہ کی تعمیر کا کام تیز کر دیا۔ جمشید قلندر جو پانچسو قلندروں کے سردار تھے۔ بارہ سال سے باغ تیار کر رہے تھے۔ اور مریدین اور اصحاب میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جس نے روضہ کی تعمیر میں کام نہ کیاہو، نیر شریف کو سات بار آبِ زمزم سے بھرا گیا ہے۔ اس کے کنارے جو باغ تھا اس میں بہت سے درخت حضرت نے خود اپنے دست مبارک سے لگائے تھے۔ جن میں سپاری، خرما اور مولسری کے درخت تھے۔ پھر حکم ہوا کہ روضے کے بیچو بیچ قبر بنائی جائے ، اورقبرکی لمبائی چوڑائی اتنی ہو کہ آسانی کے ساتھ نماز پڑھی جا سکے۔ چنانچہ حضرت نو را لعین ،دریتیم، شیخ معروف الدیموی اور قاضی حجت نے اس کام کو انجام دیا۔ اور قبرکی لمبائی حضرت کے قد و قامت کے مطابق اور اونچائی قد سے ایک ہاتھ سے زیادہ رکھی گئی، قبرتیار ہونے کے بعد آپ اس کے اندر تشریف لے گئے اور دیکھا۔پھر ایک مولسری کے درخت کے نیچے بیٹھ کر اصحاب واحباب کی جدائی پراظہار ملال فرمایا۔ سارے اصحاب زار و قطار رونے لگے، حضرت نورالعین کا تو بُرا حال تھا۔ روتے روتے بے ہوش ہو گئے، جب ہوش آیا تو حضرت نے انھیں اپنے سینے سے لگالیا اورتسلی دی اور فرمایا بیٹا نورالعين مجھ کو اپنے سے جدا نہ سمجھو۔ اسی طرح دوسرے اصحاب کوبھی تسلی دی اور تاکید فرمائی کہ میرےبعد نورالعین کا خیال رکھنا اور ان کی اطاعت و پیروی سے کبھی منہ نہ موڑنا ۔ اس کے بعد آپ نے نیر شریف کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ جو بھی میرے روضے پر آئے گا ان شاء الله اس کی دینی و دنیاوی حاجت پوری ہوگی اور فیض پائے گا۔
احباب و اصحاب سب جمع ہو گئے، شیخ نجم الدین بھی موجود تھے، آپ نے فرمایاکہ حق تعالیٰ نے مجھے تمہارے درمیان جب تک رکھا، رہا۔ اب واپسی کا حکم ہے میں اس کی تعمیل کروں گا۔ میرے بعد کسی ڈر اور خوف میں مبتلا مت ہونا، میں ہمیشہ تمہارے احوال کا نگراں رہوں گا، اور مجھ کو اپنے ساتھ پاؤ گے۔ پھر کچھ سادہ کاغذ لے کرقبر میں اتر گئے اوراس میں ایک دن و رات قیام فرمایا، اور”رسالۂ قبریہ“ اور”بشارۃ المریدین“ کے نام سے دورسالے لکھے۔ ”رسالۂ قبریہ“ میں عالم ارواح کی باتیں ہیں، اور”بشارۃ المریدین“ میں آپ نے اپنے عقیدے کا اظہار و اعلان فرمایاہے۔

سفر آخرت

وفات کے دن حضرت نورالعین، شیخ نجم الدین اصفہانی، شیخ محمد درّیتیم، شیخ ابوالمکارم، شیخ احمد ابوالوفاء خوارزمی، شیخ عبدالسلام ہروی، شیخ ابوالو اصل،شیخ معروف الدیموی،شیخ عبدالرحمن خنجدی، شیخ ابوسعید خرزی، ملک محمود، شیخ شمس الدین اودھی اور دوسرے اکابرکو آپ نے اپنے پاس بلاکر بٹھایا اور ان کو نصیحتیں کیں اور تبرکات کی گٹھری منگائی، اس میں چارخرقے تھے جو چار بزرگوں سے ملے تھے۔ ایک آپ کے پیرومرشد شیخ علاء الحق پنڈوی رحمتہ اللہ علیہ سے ملا تھا، دوسرا ولایت چشت کے سجادہ نشین سے ملاتھا، تیسرا شام کے شیخ الاسلام سے ملاتھا، چوتھا جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت سے ملا تھا۔آپ نے چاروں خرقے حضرت نورالعین کو عنایت فرماکر فاتحہ پڑھا اور فرمایا میرے فرزند برحق و خلیفۂ مطلق نورالعین ہیں، اور بزرگان چشت کے وہ تبرکات بھی دیئے جو ان کو ان کے مرشد کے ذریعے دستیاب ہو ئے تھے، پھر حضرت نورالعین کے فرزندوں کو بلایا اور بڑی عنایت و مہربانی فرمائی اورانھیں بھی خرقہ و تبرکات عطافرمائے اور ہر ایک کے بارے میں دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے اوران کی خوبیاں بیان فرمائیں، اسی طرح مختلف خلفاء کو بھی نصیحتیں کر کے خاص خاص ہدایتیں دیں اورتبرکات عطا فرمائے۔ یہاں تک کہ نماز ظہرکاوقت ہوگیا۔ حضرت نورالعین کو امامت کا حکم دیا اور خود حضرت نے بھی ان کی اقتداء فرمائی۔ نماز کے بعد آپ بیٹھ گئے اور قوالوں کو طلب فرمایا اور محفل سماع شروع ہوگئی، حضرت نے قوالوں کو شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کے چند اشعار پڑھنے کا حکم دیا۔ قوالوں نے جب یہ شعر پڑھا ؎
گر بدست تو آمدہ اجلم
قد رضینا بم جری القلم
(اگر تیرے ہی ہاتھ میں میری موت آنی ہے تو ہم نوشتۂ تقدیر پر راضی ہیں)
تو آپ پروجد وکیف طاری ہوا۔
اور جب قوالوں نے یہ شعرپڑھے ؎
خوب تر زین دیگر چہ باشد کار
یار خنداں رود بجانب یار
سیر بیند جمال جاناں را
جاں سپارد نگار خنداں را
(اس سے بہتر دوسرا کام اور کیا ہوگاکہ ایک عاشق اپنے محبوب کے پاس مسکراتے ہوئے جائے، آزادانہ محبوب کے جلوے کا نظارہ کرے، اور مسکراہٹیں عطا کرنے والے کو اپنی جان سپرد کردے)
تومرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے اوراسی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردے، فِيْ مَقْعَدِ صِدْ قٍ عِنْدَ مَلِيْکٍ مُّقْتَدِرٍ) وہ اپنے رب قدیر کے پاس سچائی کے مقام پر پہونچ گئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ راجِعُوْن

آخری غسل

موجودہ خانقاہ کے جنوب مغربی گوشے میں آپکو آخری غسل دیا گیا ، ا س جگہ ایک چھوٹی سی کوٹھری بنادی گئی ہے، یہ کوٹھری آج بھی لحد خانہ کے نام سے مشہور ہے ،اورعرس کے ایام میں ۲۷/۲۸/ محرم الحرام کو آپ کے سجادہ نشین اسی کوٹھری سے خرقہ مبارک پہن کر نکلتے ہیں اورصحن آستانۂ عالیہ تک جاتےہیں۔

نماز جنازہ

اس سلسلے میں میں نے بڑی تلاش وجستجو کیا لیکن کسی کتاب میں آپ کی نماز جنازہ کا تذکرہ نہیں ملتا، اورنہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ حضرت کی نمازجناہ کس بزرگ نے پڑھائی؟ البتہ حضرت نے اپنی حیات طیبہ میں نماز ظہر کے لیے حضرت حاجی عبدالرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ کو امامت کا حکم صادر فرمایا اور خود بھی اقتداء فرمائی، اسل لیے اغلب یہی ہے کہ آپ کی نماز جنازہ بھی آپ کے جانشین حضرت حاجی عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ نے ہی پڑھا ئی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہر اعتبار سےوہ نماز جنازہ پڑھانے کے مستحق بھی تھے۔

تدفین

روضۂ مبارکہ کے بیچو بیچ حضرت کے حکم اور ہدایت کے مطابق حضرت کی حیات طیبہ میں جو قبرتیار کی گئی تھی اسی قبر میں آپ کو سپردخاک کیا گیا۔

آپ کے جانشین

آپ کے وصال کے بعد آپ کی وصیت اور اعلان کے مطابق قدوۃ الآفاق حاجی الحرمین حضرت سیدعبدالرزاق نورالعین رحمتہ اللہ علیہ آپ کے پہلے سجادہ نشین ہوئے اورچالیس سال مسند سجادہ نشینی کو زینت بخشا۔ آپ کی وفات ۸۶۹ ؁ھ اور ۸۷۲ ؁ھ کے درمیان ہوئی۔
انتقال کے بعدحضرت غوث العالم رحمتہ اللہ علیہ کے بائیں پہلو میں مدفون ہوئے۔ یہ دونوں مزاریں ایک ہی گنبد کے اندرہیں۔

خانوادۂ اشرفیہ

قدوۃ الآفاق حضرت حاجی عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ کے پانچ صاحبزادگان ہوئے:
(۱) حضرت سید شاہ شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ
(۲)حضرت سید شاہ حسن رحمتہ اللہ علیہ
(۳) حضرت سید شاہ حسین رحمتہ اللہ علیہ
(۴)حضرت سیدشاہ فرید رحمتہ اللہ علیہ
(۵) حضرت سید شاہ احمد رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سیدشاہ شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ کا اٹھارہ سال کی عمرمیں انتقال ہوگیااور ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حضرت حاجی عبدالرزاق نورالعین کی بقیہ اولادوں سے سادات کرام کا وہ گھرانہ وجود میں آیا جو خانوادۂ اشرفیہ اور سادات کچھوچھہ شریف کے نام سے مشہور ہے۔

آپ کا عُرس

ہرسال ماہ محرم الحرام میں ۲۵ / تا ۳۰/محرم الحرام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندی مہینے کے ساب* سے ماہ اگہن میں ایک ماہ میلہ لگتا ہے۔ ہزارہا ہزار کی تعداد میں زائرین و حاجت مند بلا تفریق مذہب وملت ہندوستان کے گوشےگوشے نیز دوسرے ممالک سے حاضر آستانۂ عالیہ ہوکر فیضیاب ہوتے ہیں اور دینی اور دنیاوی مقاصد میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

آستانۂ عالیہ

آپ کا آستانۂ عالیہ وہ بافیض آستانہ ہے کہ یہاں جن لوگوں پربھوت، پریت، خبیث اور جن کا اثر ہوتا ہے اورمسحور، پاگل وآسیب زدہ اورمریضوں کا ہمیشہ ہجوم رہتا ہے ۔جو نیر شریف کا پانی پیتے ہیں اور اسی سے غسل کرتے ہیں اور آستانۂ عالیہ پر حاضری دیتے ہیں ۔ ہزارہا کی تعدادمیں شفایاب و فیض یاب ہوتے ہیں۔ روتے ہوئے آتے ہیں اورمسکراتے ہوئے جاتے ہیں۔ اس آستانہ پر اپنے وقت کے قطب حاضری دیتے ہیں اور رجال الله کا ہجوم ہوتا ہے۔ نیر شریف میں جناب خضر علیہ السلام کو بارہا غسل فرماتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔چنانچہ حضرت شیخ عبدالرحمن چشتی رحمتہ اللہ علیہ ۱۰۳۴؁ھ میں بعہد سجادہ نشین حضرت سید شاہ حسن شریف سجادہ نشین رحمتہ اللہ علیہ روح آباد رسول پور درگاہ شریف تشریف لائے اورآستانۂ عالیہ پر حاضری دی اورمعتکف ہوئے۔ آستانۂ عالیہ سےمتعلق اپنے مشاہدات اپنی گرانقدرتصنيف ”مرأۃ الاسرار“ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:۔

” مجھ کو حضرت خضرعلیہ السلام کی زیارت کابڑا شوق تھا، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ نےبشارت دیا کہ میر سید اشرف جہانگیر کے آستانے پر جاؤ وہاں مراد حاصل ہوگی۔ میں نے عرض کیا وہاں جانے کی کیا شرط ہے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے ہر مقام کو ایک خاص برکت اور خاصیت دی ہے اور ہر کام کے لیے ایک وقت معین ہے، ارشاد کے مطابق ۱۰۳۴؁ھ عشرۂ آخر ماہ محرم میں روح آباد گیا اور وہاں اعتکاف کیا، ایک شب حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھا کہ حوض میں غسل کر رہے ہیں۔ اور اعتکاف کی آخری شب کوحضرت خضر علیہ السلام اور تمام رجال اللہ کی زیارت ہوئی اوران سے فیض اندوز ہوا، حسن اتفاق اسی شب روحانیت پاک حضور سیدعالم ﷺ اور بعض صحابہ کرام اور روحانیت اکثر پیران چشت جیسے خواجہ معین الدین و حضرت خواجہ قطب الاسلام رحمتہ اللہ علیہ و حضرت فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان المشائخ شیخ نصیرالدین محمود رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کی زیارت سے سرفراز ہوا۔

میں نے دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام اور امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ جہ الکریم ایک خوبصورت نوجوان کو لائے اورسالت پناہ کے قدموں میں ڈال دیا۔ اور عرض کیا کہ جہانگیر بادشاہ والی ملک ہندوستان اس وقت بیمار ہے۔ اور چند دنوں میں اس کا انتقال ہو جا ئے گا۔ اس کے بیٹوں میں یہ سلطنت کے قابل معلوم ہوتا ہے ۔ حضرت نے دست مبارک اس جوان کے سر پر رکھا اور فرمایا ”قائمقام پدر باش“ اپنے باپ کا قائم مقام ہو۔
معلوم ہوا کہ وہ جوان شاہجہاں بن جہانگیر ہے ۔ اور فرمایاکہ میں اس کو خواجگان چشت کے حوالے کرتا ہوں ۔ چنانچہ سید اشرف کے حوالے کیاگیا، (غالباًیہ وہی جگہ ہے جہاں اس وقت مسجد ادلیاء بنی ہوئی ہے)

اس واقعہ کے چار سال بعدجہانگیرکاانتقال ہوگیا اور ۱۰۳۷؁ھ میں شہاب الدین محمدشاہجہاں تخت نشین ہوا۔ خلاصہ یہ کہ ولایت جہانگیری کے تصرف کا سبب اور ولایت صوری و معنوی کاعزل ونصب حضرت غوث العالم کے آستانۂ عالیہ سے متعلق ہے ۔ اور اکثر رجال اللہ کا مجمع اس جگہ ہوتا ہے “ ۔
بھوت،پریت، خبيث واجنّہ و آسیب زدہ کے لیے آپ کا آستانۂ عالیہ سپریم کورٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی  اپنی کتاب” اخبار الاخیار“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
‘ ”اجنّہ و آسیب کے دفعہ کے لیے آپ کا نام ہی لینا تیر بہدف نسخہ ہے“۔
ہے تیرے نیر کے پانی کا لقب آب بقاء
خاک درگاہ تیری سُرمہ بینائی ہے

تعلیمات

حضرت غوث العالم کی تعلیمات بالخصوص آپ کی دوکتابوں میں پائی جاتی ہیں:۔ (۱) لطائف اشرفی (۲) مکتوبات ا شرفی۔
چونکہ آپ سلسلۂ چشتیہ سے منسلک تھے۔ اس لیے آپ کی تعلیمات بھی وہی ہیں جو اکابرین چشت کی تھیں۔ یہ تعلیمات مختلف موضوعات پر ہزاروں صفحات میں پوری شرح وبسط کے ساتھ ہیں جن پر بڑی گہرائی کے ساتھ عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ آپ کی پوری تعلیمات نقل کرنا تو بڑا مشکل کام ہے۔ ہم یہاں ان میں سے کچھ تعلیمات کاصرف خلاصہ نقل کرتے ہیں ۔
توحید
حضرت غوث العالم فرماتے ہیں کہ توحیدیہ ہے کہ عاشق صفات محبوب میں فنا ہوجائے۔
توحید کی چارقسمیں ہیں:۔
(۱) توحید ایمانی (۲) توحید علمی (۳) توحید رسمی (۴) توحید حالی۔

توحید ایمانی
یہ ہے کہ بندہ جناب باری کی وحدانیت پرایمان لائے اور دل سے تصدیق کرے اور زبان سے اقرار کرے۔ یہ توحید قرآن پاک اور احادیث کریمہ کی صداقت پر اعتماد کر کے عقیدہ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔

توحید علمی
یہ ہے کہ ادراک باطن سے درجۂ یقین تک پہونچنا ،بندہ یقین رکھے کہ موحد حقیقی اور مؤثر مطلق سوائے خدا کے کوئی نہیں ہے۔ یہ توحید مراقبہ سے حاصل ہوتی ہے۔

توحید رسمی
یہ ہے کہ توحید کے معنی سن کر یاکتالوں میں دیکھ کر توحيدپرگفتگو کرے مگر اس کے دل پر اثر نہ ہو، حضرت غوث العالم کے نزدیک یہ توحید درجۂ اعتبار سے ساقط ہے۔

توحید حالی
یہ ہے کہ توحید کایقین موحد کی ذات کالازمی وصف ہوجاتا ہے، اورتقریباً سب ظلمات رسوم فنا ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ پرموحد مشاہد جمال وجود مطلق میں ایسا غرق ہوجاتا ہے کہ سوائے ذات وصفاتِ واحد کے اس کو کچھ نظر نہیں آتا، یہاں تک کہ توحید کو بھی واحد کی صفت سمجھتا ہے اور اس سمجھنے کو بھی اس کی صفت دیکھتا ہے۔ توحید دریا ہے اورموحد اس کا قطرہ جس کا کوئی اثر وظہور باقی نہیں رہا ۔
لیکن حضرت غوث العالم کے نزدیک اصلی و حقیقی توحید توحید الٰہی ہے۔

توحید الٰہی
یہ ہے کہ کوئی موحد ہو یا نہ ہو مگرخدا بذات خودہمیشہ ہمیش سے وصف وحدانیت سے موصوف ہے یعنی اول میں اللہ تھا۔ اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا، اور وہ آج بھی ہے اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں ہے اور ابد تک ویسا ہی رہے گا۔

ارادت و بیعت

جب اللہ کی رحمت وعنایت سے دل میں ذوق طلب پیدا ہوتا ہے اورجستجو کا شوق ہوتا ہے تو خدا کسی صاحب دل تک پہونچادیتاہے۔
ارادت کی بنیاد قرآن عظیم کی یہ آیت کریمہ ہے:۔
یٰاَ یُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْاتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِيْلَةَ
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اوراسکا قرب تلاش کرو ۔
اس جگہ وسیلہ سے مراد سلسلۂ بیعت اور فقراء کا قرب ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص انبیاء کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہو وہ علماء کی مجلس میں بیٹھے اورجو خدا کی مجلس میں بیٹھنا چاہتاہووہ فقیروں کے ساتھ بیٹھے۔ جب فقراء سے ارادت ثابت ہوئی تو بیعت بھی لازم ہے؛ کیونکہ ارادت بےبیعت کے دعدۂ بے بنیاد ہے۔ ارادت صوری سنت ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ اور صحابہ کے زمانے میں بیعت نہیں تھی۔ صرف صحبت اور خرقہ تھا۔ چنانچہ آنحضرتﷺنے خرقۂ مبارک خواجہ اویس قرنی کو بھیجاتھا۔

بیعت کا طریقہ شیخ جنید بغدادی کے وقت سے شروع ہو امگر ان پر بدعت کاگمان بھی نہیں ہوسکتا، وہ مقتداء اورپیشوائے کامل تھے۔ بغیر کسی مضبوط سنداور دلیل کے دہ یہ ایجاد نہیں کرسکتے تھے۔لہٰذا زیادہ صحیح یہ ہے کہ ارادت اور بیعت رسول الله ﷺ سے منقول ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ ارادت صوری اور معنوی دونوں طرح سے ہو، جس پیر کا سلسلۂ اجازت چودہ خانوادوں میں سے کسی خاندان تک پہونچے اس کی اقتداء کرنا ضروری ہے، اگر وہ فقیر یا اس کے سلسلے میں کوئی پیرمعاذاللہ ناقابلِ اعتماد ہو تو اس کا پیر مدد کو پہونچے گا۔

نیک وبد کی بیعت

حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ جوانمرد مشائخ ہرایک صالح وطالع کی بیعت قبول کرتے ہیں اورمیں کمینہ، شریف، غریب اور امیر، پست وبلند کسی سے بھی قبول بیعت میں دریغ نہیں کرتا۔

مرید اور مُراد

مرید دراصل مراد ہے؛ کیونکہ حق کی مراد نہ ہوتی تو اس کو ارادت خلعت نہ ملتا؛ لیکن مرید اور مراد میں فرق یہ ہے کہ مرید مقتدی ہے اور مرادمنتہی۔

شیخ کے شرائط

حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ شیخ کے لیے بہت شرائط اور آداب ہیں؛ لیکن دس شرطیں ضروری ہیں۔
(۱) شیخ کی اجازت
(۲) وہ یاد الٰہی سے دل میں خدا کا حضور ادر آگاہی حاصل کر چکا ہو۔
(۳) وہ مرید کے ہرنا مناسب عمل پر مواخذ کرتا ہو۔
(۴) وہ اپنے مرید سے اس کے افعال و حرکات کا محاسبہ ضرور کرتا ہو۔
(۵) وہ اپنےمریدسے پورے تقدس سے پیش آئے۔
(۶) وہ اپنے مریدوں کو دوسرے شیخ کی صحبت میں بیٹھنے سے روکے، بلکہ ان کے مریدوں کی ہم نشینی سے بھی منع کرے۔
(۷) وہ مرید کو رزق حلال کی تاکید کرے اور سمجھائے کہ خدا رزّاق ہے۔

(۸) اگر کسی شیخ کو خود سے بزرگ پاتا ہو تو اس کی صحبت اختیار کرے، اور اپنے مریدوں کو بھی اس کی خدمت کا حکم دے۔

(۹) شیخ راہ سلوک کا عالم ہو۔
(۱۰) شیخ مریدوں کے ساتھ چوبیس گھنٹے میں ایک بار سے زیادہ نہ بیٹھے ۔

مریدین کے شرائط

مریدوں کے بھی دس شرائط ہیں:۔
(۱) وہ اپنے شیخ سے کوئی بات نہ چھپائیں۔
(۲) وہ اپنےشیخ پر کوئی اعتراض نہ کریں۔
(۳) طلب شیخ میں صادق ہوں۔
(۴) بغیر شیخ کی اجازت اس کے کسی فعل کی اقتداء نہ کریں۔
(۵)شیخ کے احکام اور کلام کو درست سمجھیں اور اس کی تاویل نہ کریں۔
(۶)شیخ کےاحکام کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔
(۷) خود کو ہر شخص سے کمترسمجھیں۔
(۸) شیخ کے احکام میں خیانت نہ کریں ۔
(۹) دونوں جہاں میں سے کسی چیز کی خواہش نہ کریں۔
(۱۰) شیخ جس کوخود سے افضل سمجھے اس کو مرید بھی افضل سمجھیں۔
حضرت غوث العالم نے شیخ اور مرید کے الگ الگ آداب واصاف بھی بتائے ہیں۔

شیخ کے آداب

شیخ کے دس آداب ہیں:۔
(۱) شیخ مرید کے استعداد کو نظر میں رکھے اور اس کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق را ہِ سلوک میں اس کی تربیت کرتا ہو۔
(۲)شیخ مرید کے مال و دولت کی لالچ نہ کرے۔
(۳) شیخ صاحب ایثارہو۔
(۴) شیخ کے قول و فعل میں مطابقت ہو۔
(۵) شیخ ضعیف اور کم حیثیت مریدوں سے نرمی سے پیش آئے۔
(۶) شیخ کی گفتگو نفسانیت سے پاک ہو۔
(۷) شیخ کو مرید کے کسی مذموم فعل کی اطلاع ہو تو صاف الفاظ میں ممانعت نہ کرے؛ بلکہ اشارات اور کنایات سے کام لے۔
(۸) شیخ کے غلبۂ احوال سے اعمال صالحہ میں کمی نہ ہو، نوافل بکثرت اداکرے۔
(۹) شیخ اپنے مرید سے تعظیم کی توقع نہ رکھتا ہو۔
(۱۰)شیخ مرید سے نہ زیادہ قریب ہو اورنہ زیادہ دور ۔

مرید کے آداب

مرید کےبھی دس آداب ہیں:۔
(۱)مرید یقین رکھے کہ فتح الباب شیخ کی صحت سے ہوگا ۔
( ۲)شیخ جو کچھ فرمائے اس پر راضی ہو۔
(۳) دنیا و آخرت کا کوئی کام شیخ کی اجازت کے بغیر نہ کرتا ہو ۔
(۴) شیخ کی جگہ نہ بیٹھتا ہو۔
( ۵) اپنے خواب و بیداری کے واقعات میں شیخ سے رجوع کرے۔
(۶) شیخ کے پاس بلند آواز سے گفتگو نہ کرے۔
(۷) شیخ سے دلیرانہ کوئی بات نہ پوچھے نہ کہے۔
(۸) شیخ جو بات پوشیدہ رکھنا چاہتا ہو اس کو افشا نہ کرے۔
(۹) شیخ سے اپنے اسرار ظاہر کردیتا ہو۔
(۱۰) مرید اپنے شیخ کا قول اگر دوسرے سے نقل کرے تو سننے والے کی سمجھ کے مطابق نقل کرتا ہو۔

شیخ کے اوصاف

شیخ میں پانچ اوصاف ہونے چاہئیں:۔
(۱) وہ اللہ کے خاص بندوں میں ہو۔
(۲) اللہ سے براہ راست حصول کا استحقاق رکھتا ہو۔
(۳) اس پر اللہ کی خاص رحمت ہو۔
(۴) خدا سے علوم کی تعلیم ہو۔
(۵) علم لدنّی کی دولت حاصل ہو۔

مرید کے اوصاف

مرید کے چار اوصاف ہیں:۔
(۱) یہ کہ صحت ومرض سب اس کے لیے برابر ہو۔ہر حال میں خدا کی رضا پر رہے۔
(۲) فقروغناء میں فرق نہ سمجھے۔
(۳) یہ کہ خلق کی تعریف اور خدمت اس کی نظر میں یکساں ہو۔
(۴) یہ کہ بہشت اور دوزخ اس کے لیے برابر ہو۔

عورت شیخ ہونے کی اہل نہیں

حضرت غوث العالم فرماتے ہیں کہ بعض عورتیں ایسے بلند درجے کو پہونچی ہیں کہ بہت سے اصحابِ سلوک ان کی مدد کے محتاج تھے۔ صاحبِ فتوحات نے لکھا ہے کہ ابدال میں بعض اوقات عورتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔شیخ عبدالرحمن صاحب طبقات صوفیہ نے عارفہ و صالحہ عورتوں کے احوال میں ایک کتاب لکھی ہے، حضرت رابعہ عدویہ ایسی ہی نیک عورتوں میں سے تھیں، شیخ سفیان ثوری ان سے مسائل پوچھتے تھے، اور نصائح سننے جایا کرتے تھے۔ ام احسان کوفہ میں ایک بڑی بزرگ بی بی تھیں، سفیان ثوری ان کی زیارت کو جایا کرتے تھے، ایک دن دیکھا کہ ان کے مکان میں سوائے چٹائی کے ایک ٹکڑے کے اور کچھ نہیں ہے، تو انھوں نے کہا کہ آپ کے چچا زاد بھائی کو خط لکھا جائے تو وہ کچھ رعایت کریں گے، بی بی نے جواب دیا کہ سفیان تمہاری جو عزت میری نگاہ میں تھی وہ اس بات سے ختم ہوگئی، غور کرو جو ساری دنیا کا مالک اور قادر ومختار ہے اس سے دنیا کا سوال نہیں کرتی تو اس شخص سے کیا سوال کروں جو کوئی قدرت نہیں رکھتا، غرض عورتیں بھی اعلیٰ مراتب کو پہونچی ہیں۔ لیکن ان سے بوجہ ستر کے مریدوں کی تربیت نہیں ہوسکتی، اس لیے جس طرح وہ نبوت کے قابل نہیں ہیں اسی طرح وہ شیخی بھی قابل نہیں ہیں۔
لیکن بعض مشائخ نے ان سے استفادہ کیا ہے، شیخ محی الدین ابن عربی نے ”فتوحات “ میں لکھا ے کہ:۔

”میں نے برسوں فاطمہ بنت المثنّی کی خدمت کی ہے ان کی عمر پچانوے برس سے زیادہ تھی؛لیکن ان کے چہرے اور رخسارپر ایسی تازگی تھی کہ چودہ برس کی معلوم ہوتی تھیں، اور مجھ کو ان کی صورت دیکھتے شرم معلوم ہوتی تھی، ان کو خدانے عجب جمال عطا کیا تھا“۔

مُرید کی تعلیم

مرید کی تعلیم صفائی قلب سے شروع ہوتی ہے ۔ اس کے دل کی تاریکی جس قدر کم ہوتی جاتی ہے اتنا ہی اس کی روح میں نور زیادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی آنکھ کھول کر دیکھتا ہے، پھر دل کی صفائی کے اضافہ سے سفید ہوجاتا ہے ۔آخر میں مزیدصفائی سے سبزہوجاتاہے اور جب دل بالکل صاف ہوجاتا ہے تو یہ نورمثل آفتاب کے چمک اٹھتا ہے اوراس پر مشکل سےنظر ٹکتی ہے، اور جب اس نور کاعکس روح کے نورپر پڑتا ہے تو دل اور روح کے سارے حجابات دور ہوجاتے ہیں،جس میں نہ رنگ ہے نہ کیفیت ،نہ حد ہے نہ مثل، نہ تمکین ہے نہ تمکن اور اس کے لیے نہ طلوع ہے نہ غروب ، نہ تحت ہے نہ فوق، نہ مکان ہے نہ زمان، نہ قرب نہ بعد اورنہ عرش ہے نہ فرش۔
یہ منزل ذکر و فکر سے حاصل ہوتی ہے اور ذکر و فکر کے لیے توبہ شرط اولین ہے۔

توبہ

توبہ یہ ہے کہ بندہ افعال ناپسندیدہ دھوکہ ، رشک، نفاق، جھوٹ، حرص،طمع، بخل، غیبت، غصہ، ریا ،حسد وغیرہ افعال مذمومہ قطعی چھوڑ دے،پھر توبہ کے ساتھ شریعت کی ساری پابندیاں جیسے نماز ،روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد وغیرہ نیک اعمال اختیار کرے، ہاں ان میں ایک عام مسلمان اور ایک سالک کی پابندیوں میں جو فرق ہے اسے بڑے وضاحت سے بیان فرمای ہے۔
توبہ کا حکم تمام خلاق کے لیے ہے، قرآن عظیم میں ہے کہ :۔
”تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعاً“ (تم سب اللہ سے توبہ کرو)

آدمی ہروقت توبہ کرتا رہے، کافر کفر سے توبہ کرے، تاکہ صاحبِ ایمان ہو، گنہگار گناہوں سے توبہ کرے تاکہ فرمانبرداروں میں شمار ہو، مؤمن ومسلم برائیوں سے توبہ کرے تاکہ اصلاحِ باطن ہو، اہلِ سلوک ادنیٰ مقامات سے توبہ کریں تاکہ اعلےٰ مقامات حاصل ہوں، اور اصحابِ کشف کو یقین کی دولت ملے۔

توبہ کا ارادہ

جو شخص توبہ کے لیے دو قدم چلے راہ میں ہو اور توبہ کی نوبت نہ آئے تب بھی اس کا شمار مغفورین میں ہوتا ہے۔

توبہ کا طریقہ

جب توبہ کا ارادہ ہو تو غسل کرے، پھر دورکعت نماز پڑھے، اگر اس کا شیخ فوت ہوچکا ہو تو اس کی ولایت سے مدد طلب کرے، اگر وہ زندہ ہو تو اس کے حضور میں توبہ کرے، اور دعاکرے کہ یا اللہ! میرے ظاہر کو پانی سے پاک کر اور باطن کو صفا سے، تائب کو چاہیے کہ اپنے دل میں مضبوط عہد کرلے کہ گناہ کا ارتکاب کبھی نہ کروں گا، آنکھوں سے آنسو جاری ہو اور دل میں پشیمانی ہو۔

وضو

جس طرح نماز شریعت کے شرائط ہیں ویسے ہی نماز اور وضو طریقت کے لیے بھی شرائط ہیں۔
عوام کا وضو اعضاء کا دھونا ہے ، جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے، خواص کا وضو دل کو تمام برائیوں سے پاک و صاف کرنا ہے۔
اور خاص الخاص جو ارباب حقیقت ہیں ان کا وضو اپنے باطن کو خطرۂ ماسویٰ اللہ سے پاک کرنا ہے۔
اور جس طرح بے طہارت نماز درست نہیں ویسے ہی بے طہات دل معرفت جائز نہیں ہے۔

سالک کا وضو

سالک کے وضو کے چار درجات ہیں:۔
(۱) سالک حواس ظاہر کی برائیوں کو آبِ توبہ سے دھوتاہے۔
(۲) دماغ کو خیالات اور اوہام سے پاک کرتا ہے ۔
(۳) اپنے حواس باطن کو پاک کرتا ہے۔
(۴) اپنی روح کو پاک کرتا ہے۔

نماز

نماز اسلام کافرض اولین ہے، نماز مقررہ اوقات پر فرض ہے، اور کسی حالت میں بندے سے ساقط نہیں ہوتی۔

نماز عبادتوں کا گلدستہ ہے

نماز میں مختلف قسم کی عبادتیں شامل ہیں۔ اس میں ربوبیت کا اقرار ہے، خضوع اور طلب حاجت ہے ، گناہوں اور بُرے کاموں سے بچاؤ ہے۔
دنیا کے تمام موجودات جو عبادت کرتے ہیں وہ سب نماز میں شامل ہیں ،درخت و پہاڑ وغیرہ قیام میں ہیں اور وہ نماز کارکن ہے۔چوپائے اور درندے وغیرہ رکوع میں ہیں، یہ بھی نماز کارکن ہے۔ گھاس ،خس و خاشاک اور بعض حیوانات غیر ناطق جیسے مینڈھک وغیرہ قعود میں ہیں، اور وہ نماز کا رکن ہے۔بعض کیڑے مکوڑے مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ اور بعض جانور جومنہ کے بل چلتے ہیں ، سجود میں ہیں، اور یہ بھی نماز کا رکن ہے۔ غرض دنیا میں کوئی مخلوق اور موجود عبادت سے خالی نہیں ہے اور ان سب کی عبادتیں نماز میں جمع ہیں۔
نماز شریعت عابد پڑھتے ہیں، نماز طریقت زاہد ادا کرتے ہیں، اور نماز حقیقت عارفوں کے لیے ہے۔

نماز ارکان اسلام کا مجموعہ ہے

بظاہر نماز اسلام کا ایک رکن ہے لیکن غور کرو تو اس میں سب ارکان جمع ہیں۔
روزہ جو کھانے پینے وغیرہ سے امساک کانام ہے وہ نماز میں موجود ہے؛ کیونکہ تکبیر تحریمہ کے بعد کھانا، پینا تھوڑی مدت کے لیے موقوف ہوتاہے۔
زکوٰۃ سےمقصو د ا یثار اموال ہے۔ نماز میں ایثارثواب ہوتا ہے؛ کیونکہ مسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔
حج کے لیے احرام باندھا جاتا ہے، اسی طرح نمازمیں تکبیر تحریمہ ہے۔

جہاد کفار سے جنگ کرنا ہے، نماز میں بھی وضو کرکے جو مؤمن کی زرہ اور ہتھیار ہے میدان صلوۃ میں قیام اور لشکر کثرت کو شکست دے کر بادشاہ وحدت کی فتح و نصرت کی کوشش ہے۔
شیخ حمیدالدین ناگوری کہتے تھے کہ تکبیر مقام ہیبت ہے، قیام مقام قربت، قرأت مقام مکالمہ، رکوع مقام خوف، سجودد مقام مشاہدہ، قعود مقام الفت ومحبت ۔ادریہ سعادت اس شخص کو نصیب ہوتی ہے جس کاآئینۂ دل علائق روزگارسےمصفّٰی اور انوار غیبی سے مجلّٰی ہو۔

نماز کا تعلق

نمازظاہر کا تعلق جسم سے ہے اور باطن کا تعلق دل سے ہے اور نماز روح کا تعلق استغراق سے ہوتاہے۔
خواص بظاہر کعبہ کی طرف رخ کرتے ہیں ؛لیکن ان کی توجہ ربّ کعبہ کی طرف ہوتی ہے۔

ہمیشہ نماز میں

قرآن عظیم میں آیا ہے کہ: ۔
”ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْنَ “ | وہ ہمیشہ نماز میں رہتے ہیں ۔
اس کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ عوام کےحق میں یہ ہے کہ نماز پنجگانہ،جمعہ وعیدین وتراویح پر مداومت کریں، اور اس سے غفلت جائز نہ رکھیں۔
خواص کے لیے یہ ہے کہ نماز اشراق وچاشت وزوال وتہجد وغیرہ حضور دل سےپڑھا کریں، اور کوئی نفل کسی وجہ سے فوت ہوجائے تو اس کو ادا کرلیں، اور وظائف کا ترک ہرگز جائز نہ رکھیں، مشائخ کا قول ہے کہ ورد کے ترک سے خدا سے دوری ہوجاتی ہے۔

خاص الخاص کے لیے یہ ہے کہ وظائف میں نسبت کا اشغال رکھیں، اور ایک ساعت بھی نسبت سے غافل نہ ہوں تاکہ ”ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْنَ “ | ان کی بابت صادق ہو، اور یہ منصب انبیاء کا ہے۔

نماز کا لطف

نماز کا لطف چھ چیزوں سے حاصل ہوتا ہے:۔
(۱) حضورِ دل (۲) فہمِ معنی (۳) تعظیم (۴) خوف (۵) رجا (۶) حیا۔

نمازی چار چیزوں کا محتاج ہے

(۱) فنائے نفس (۲) حضورِ دل (۳) صفائے باطن (۴) کمالِ مشاہدہ۔

نماز میں خشوع وخضوع

اکابر کا قول ہے کہ نماز بطور عادت ہرگز نہ پڑھی جائے؛ کیونکہ نماز بے خشوع و خضوع مثل قالب بے جان کے ہے، نماز میں خشوع سے مراد یہ ہے کہ ماسوا اللہ سے منھ پھیر لے، اورخضوع سے مقصود حضور دل ہے تاکہ آیات کلام مجید کے معانی پرتوجہ رکھے اور یہی نماز مومن کی معراج ہے۔

روزہ

سالک روزہ رکھتا ہے تو گویا وہ حواس ظاہر و باطن کومغلوب کرکے ہوا ئے نفس کو اپنے سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح اپنے باطن کو منور کر کے کشف حاصل کرتا ہے۔

سالک کا روزہ

سالک اپنے تمام اعضاء سے روزہ رکھتے ہیں۔آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ حرام کی طرف نگاہ نہ کرے۔ جو کچھ نظر آئے اسے رخسار حقائق کا آئینہ سمجھے ۔ کان کا روزہ یہ ہے کہ فضول بات نہ سنے، جو کچھ آواز کان میں جائے اس کوآواز حقیقی تصورکرے۔ زبان کا روزہ یہ ہے غیر حق کا تصوربھی دل میں نہ ہو۔ چلنا، پھرنا، ہنسنا بولنا سب خدا کی طرف سے ہو اور خدا کے لیے ہو۔ نفس کا روزہ کھانے پینے سے امساک ہے۔ دل کاروزہ خواہش نفس کے خلاف عمل کرنا ہے ۔ روح کا روزہ امیدوں کا قطع کرنا ہے۔

روزہ کا مقصد

عوام کا روزہ مغفرت اورثواب کے لیے ہے۔اورخواص کا روزہ نفس کومقہورکرنے کے لیے ہے۔ لیکن اخص الخواص کا روزہ خالصاً للہ ہے تا”اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ“ کی سعادت حاصل ہو۔ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور میں خود روزہ کی جزا دوں گا۔

زکوٰۃ

زکوٰۃکے معنی لغت میں” عطایا “ کے ہیں، اورحدیث شریف میں ہے کہ” خدا ایمان بغیرزکوٰۃ کے قبول نہیں کرتا“۔
اہل شریعت اور اہل طریقت کی زکوٰۃ جداگانہ ہے۔ حضرت شبلی سے کسی نے پوچھا کہ دو سو درہم کی زکوٰۃ کتنی ہے ؟ انھوں نے کہا تمہارے هموافق بتاؤں یا اپنے مطابق؟ اس نے کہا مسئلہ ہر ایک کے لیے یکساں ہے ، اس میں کیا فرق ہوسکتا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ تمہارے لیے دوسو درہم کی زکوٰۃ پانچ درہم ہے ، مگر میرے لیے یہ حکم ہے کہ ددسودرہم پورے دوں اور پانچ درہم اس کے علاوہ۔ اس نے کہا آپ کے پاس جب دوسو درہم ہیں تو پانچ زائد کہاں سے آئیں گے؟ آپ نے کہا قرض لے کرادا کئے جائیں گے۔ اس نے پوچھا یہ مذہب کس امام کا ہے؟ آپ نے کہا یہ مذہب ابوبکرصدیق کا ہے۔ جب انھوں نے کل مال ایثار کر دیا تو رسول اللهﷺ نے پوچھا کہ تم نے اپنے اہل وعیال کے لیے کیا چھوڑا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ الله اور اس کا رسول کافی ہے۔

سالک کی زکوٰۃ

شریعت کی زکوٰۃ کے علاوہ طریقت کی بھی زکوٰۃ ہے۔اس لیے کہ زکوٰۃ کے معنیٰ ” افزونی“ کے بھی ہیں، یعنی زکوٰۃ دینے والے کے مال میں زیادتی ہوتی ہے۔ اور اس کا دل برائیوں سے پاک ہو جاتاہے۔
سب سے پہلےخدا نے زکوٰۃ نکالی کہ بندے کو عدم سے وجود میں لایا، اور افعال و عبادت اس کے حال کے مطابق مقرر کئے مثلاًحالت سفرمیں چار رکعت کے بجائے دررکعت مقرر فرمایا ۔
انبیاء کی زکوٰۃ یہ ہے کہ انھوں نے خلق کی ہدایت کی اور احکام الٰہی بیان کئے۔

علماء کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مسائل احکام فقہ و تفسیر وحدیث خلق اللہ کو سمجھایا۔

اولیاء اللہ اور مشائخ کی زکوٰۃ یہ ہے کہ علم و سلوک ومشغولی وترک دنیا کی تلقین کی۔
خواص اولیاء کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مریدوں کے قلوب کا تصفیہ کر کے حقائق ومعارف اور نفی اغیار ان کے دلوں میں راسخ کردی۔

حج

کعبۂ قلوب کا طواف حج ہے۔
ایک سالک کا حج یہ ہے کہ وہ احرام باندھتا ہے تو دنیا کے علائق وعوائق سےتجرید حاصل کرتا ہے ۔ عرفات میں آتا ہے تو اسر ار ومعارف سے واقف ہوتا ہے۔جب مزدلفہ پہونچتا ہے تو اس کی مرادیں پوری ہونی شروع ہوتی ہیں۔ اور جب طواف کرتا ہے تو دل خدا کی طرف گردش کرنے لگتا ہے ۔ جب صفا اور مروہ کی سعی کے لیے جاتا ہے تو گویا بشری کدورت سے نکل کرملکوتی صفات کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ جب منٰی میں آتا ہے تو اس کے خیالات تمام اوہام اور وسوسوں سے پاک ہوتے ہیں۔ جب قربانی کرتا ہے تو اپنے نفس کے شیطان کو ہمیشہ کے لیے ذبح کردیتاہے۔

جہاد

نفس سے جنگ کرنا جہاد ہے۔
حضرت غوث العالم فرماتے ہیں کہ جب کفار مسلمانوں کے مقابلے میں خروج کریں تو اللہ کی راہ میں جہاد کرنا تمام مسلمانوں پرفرض ہے۔
اور اگر کوئی معذور ہو تو وہ حج کرے ۔اور وہ حج بھی نہ کر سکے تو جمعہ کی نماز میں شرکت کرے ؛کیونکہ نماز جمعہ مسکینوں کاحج ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی یہی تعلیم ہے۔
حضرت غوث العالم نے اسلام کے ان اصولوں کے علاوہ وظائف ونوافل، واذکار،زہد وتقوی، توکل، تسلیم و رضا ، جود و ایثار وغيرہ کی بھی تعلیم دی ہے۔

اور سالکوں اور طالبان راہ سلوک و معرفت کے وظائف و نوافل اور دعاؤں کے نظام الاوقات کی تفصیل بھی بتائی ہے۔کہ وہ اپنے روز انہ کے وظائف و معمولات کس ترتیب سے اداکریں۔ اوراس سلسلے میں انھیں مفیداورضروری ہدایتیں بھی دی ہیں۔

وظائف ونوافل صبح وشام

وظائف و اورادہمیشہ تمام بزرگوں کا معمول رہا ہے، اوراس کی فضیلت قرآن عظیم سے ثابت ہے:۔
”اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ“ مجھ کوپکارو میں قبول کروں گا ۔
حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ سارے مشائخ روزگارجن سے میں نے ملاقات کی ایک ساعت بھی دعا اور وظیفہ سے خالی نہیں رہتے تھے۔یہاں کچھ دعائیں اور وظائف لکھے جاتےہیں۔ جو شخص ان پر بلاناغہ روزآنہ عمل کرےان شاء اللہ طاعت وعبادت میں مشائخ سلف کےبرابر ہوگا۔ اور تمام آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رہے گا۔

نماز فجر سے پہلے اور بعد کے وظائف

پہلے تین ابتدائی آیتیں سورۂ انعام کی پڑھے ،دورکعت فجر کی سنت گھر میں پڑھ کر مسجد میں جائے، سنت کی پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھے۔
بزرگوں نے فرمایاہے کہ بواسیر کی دفع کے لیے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد اَلَمْ نَشْرَحْ اور دوسری رکعت میں اَلَمْ تَرَ کَیْفَ پڑھنا مجرب ہے۔ بعدسلام کے ستر بار کہے:۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ
میں اللہ سے ہر ایک گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں ، پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی اور اس کی حمدکرتا ہوں۔

اس کے بعد سورۂ قاف پڑھے اور فرض وسنت کے درمیان دنیاوی گفتگو نہ کرے اور گفتگو کرے تو بہتر ہےکہ سنت دوبارہ پڑھے۔ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو اسی جگہ بیٹھا رہے ، اور دس بار پڑھے :۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ اَبَداً ذُوْالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ بِیَدِہٖ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
اللہ کے سواکوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، تعریف اور بادشاہی اسی کو سزاوار ہے، وہ زندگی بخشتا ہے، اور موت دیتا ہے، وہ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آسکتی، وہ عزت وجلال والا ہے، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالی کے ننانوے نام حضورِ دل سے ایک بار پڑھے، اس کے بعدسات بار یہ دعاپڑھے:۔

حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُھَ رَبُّ الْعَرْشَ الْعَظِیْمِ
اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
| پھر سات بار یہ دعاپڑھے:۔
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ یَا مُجِیْرُ
اے اللہ ! مجھے جہنم کی آگ سے بچا، تو ہی بچانے والا ہے۔
پھرتین بار یہ دعا پڑھے:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ خَیْرُ الْاَسْمَاءِ بِسْمِ اللّٰہِ رَبُّ الْاَرْضِ وَالسَّمَاءِ بِسْمِ اللّٰہِ لَا یَضَرُّمَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے، اللہ کے نام سے شروع جو بہترین نام والا ہے، اللہ کے نام سے شروع جو زمین اور آسمانوں کا رب ہےاللہ کے نام شروع جو جس کا نام لینے کے بعد زمین اور آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے، وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
پھر تین بار پڑھے:۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ مَنْ صَلّٰی عَلَیْہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ مَنْ لَّمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی بِاَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِ عَلٰی مُحَمّدٍ کَمَا اَمَرْتَنَا بِا لصَّلوٰۃِ عَلَیْہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا یَنْبَغِیْ الصَّلوٰۃُ عَلَیْہِ
اے اللہ! محمد ﷺ پر درود نازل فرما، ان لوگوں کی تعداد کے برابر جنھوں نے ان پر درود بھیجا، اور درود نازل فرما ان لوگوں کی تعداد کے بقدر جنھوں نے آپ پر درود نہیں بھیجا، جیسا کہ تو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے کہ ان پر درود بھیجا جائے ، اور تو نبی پر درود نازل فرما، جیسا کی تو نے ان پر درود بھیجنے کا حکم دیاہے، اور نبی پر درود بھیج جس طرح کی ان پر درود بھیجنے کا حق ہے۔
اکتالیس بار پڑھے:۔
یَا حَیُّ یَاقَیُّوْمُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ۔
اے میرے رب! تو زندہ ہے، اور تو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
پھر تین بار پڑھے:۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ اس کی تعریف کی جائے اللہ تعالیٰ پاک وہ بلند وعظمت والا ہے، میں اپنے رب سے تمام گناہوں کی مغفرت طلب کرتا ہوں، اور اسی وجہ سے توبہ کرتا ہوں، کوئی طاقت اور کوئی قوت نہیں ہے مگر اللہ سے، وہ بلند بالا اور عظمت والا ہے۔
اس کے بعد ایک بار سَیِّدُ الْاِسْتِغْفِار پڑھے ، پھر دس بار سورۂ اخلاص مع بسم اللہ تینتیس بار سُبْحَانَ اللّٰہ تینتیس بار اَلْحَمْدُ ِللّٰہ چونتیس بار اَللّٰہُ اَکْبَرُ اس کے بعد ایک بار پڑھے:۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ اَبَداً ذُوْالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ بِیَدِہٖ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
اللہ کے سواکوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، تعریف اور بادشاہی اسی کو سزاوار ہے، وہ زندگی بخشتا ہے، اور موت دیتا ہے، وہ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آسکتی، وہ عزت وجلال والا ہے، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

(۲) قبل طلوع آفتا ب وقبل غروب کے وظائف

مسبعات عشر:

خاندان چشتی و قادری کے معمولات میں سے ہے۔ یہ وظیفہ خضر علیہ السلام نے حضرت امام تیمی رحمتہ اللہ علیہ کوتعلیم فرمایا اور تاکید فرمائی کہ صبح و شام پڑھا کریں، اس وظیفہ کا دقت قبل طلوع اور قبل غروب آفتاب ہے۔ بعض بزرگ بہ ترتیب قرآن پڑھتے تھے، اوربعض برعکس،لیکن مشائخ چشت نے یہ ترتیب اختیار کی ہے:۔

اول سورۃ فاتحہ سات بارپھر چاروں قل سات سات بار، اس طرح کہ پہلے معوذ تین پھر سورۂ اخلاص، پھر قُلْ يٰاَ يُّھَاالْكَافِرُوْن پھر اٰية الكرسی سات بار، اس کے بعد:۔

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم۔

پاک ہے اللہ اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ بہت بڑا ہے، اور نہیں ہے طاقت اور نہ قوت مگر اللہ بزرگ وبرتر کی مدد سے۔
سات بار پڑھے، اورساتویں بار اتنا اور بڑھادے:۔
عَدَدَ مَا عَلِمَ اللّٰہُ وَزِنَۃَ مَا عَلِمَ اللّٰہُ وَمَلَأَ مَا عَلِمَ اللّٰہُ۔
اتنی تعداد جو اللہ جانتا ہے، اور اس وزن کے بقدر جو اللہ کے علم میں ہے، اور اس کے مقدار جو اللہ جانتا ہے۔

پھر سات بار یہ درود پڑھے:۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَنَبِیِّکَ وَ حَبِیْبِکَ وَرَسُوْلِکَ النَّبِیِّ الْاُمِّیِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔
یار رب! درود نازل فرما ہمارے آقا محمد پر جو تیرے بندے اور تیرے نبی اور تیرے حبیب اور تیرے رسول امٗی ہیں اور ان کی آل پر اور برکتیں نازل فرما اور سلام۔

اور پھر سات بار یہ دعا پڑھے:۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ تَوَالَدَ وَارْحَمْھُمَا کَمَارَبَّیَانِیْ صَغِیْراً اَللّٰھُمَّ لِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ اَلْاحْیَاءِ مِنْھُمْ وَالْاِمْوَاتِ بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن
یار رب! میری مغفرت فرما اور میرے والدین کی، اور جو مجھ سے پیدا ہوا، اور میرے والدین پر رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں پالا، یا رب مغفرت کر تمام مؤمنین اور مؤمنات اور مسلمین ومسلمات کی زندوں کی ان میں سے اور مردوں کی اپنی رحمت سے اے سب رحم والوں سے زیادہ رحم فرمانے والے۔

اور اس کے بعد سات بار یہ دعا پڑھے:۔
اَللّٰھُمَّ یَا رَبِّ افْعَلْ بِیْ وَبِھِمْ عَاجِلاً وّ اٰجِلاً فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ مَا اَنْتَ لَہٗ اَھْلٌ وَّلَا تَفْعَلْ بِنَا یَا مَوْلَانَا مَا نَحْنُ لَہٗ اَھْلٌ اِنَّکَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ کَرِیْمٌ بَرٌّ رَّءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
یا اللہ! یارب! کر میرے ساتھ اور ان سب کے ساتھ جلد آنے والے اور بدیر آنے والے وقت میں دین اور دنیا میں اور آخرت میں وہ کرم جو تیری شان کے لائق ہے، اور نہ کر ہمارے ساتھ اے ہمارے مالک وہ معاملہ جس کے ہم سزاوار ہیں، بیشک تو بخشنے والا رحم فرمانے والا کثیر العطایا صاحبِ کرم واحسان صاحبرأفت ورحمت ہے۔

اس کے بعد اکیس بار یَا جَبَّارُ پڑھے۔
حضرت غوث العالم کے پیرومرشد رحمتہ اللہ علیہ مسبعات عشراورذکر جلی تعلیم فرماتے تھے

۳)بعد طلوع آفتاب کے وظائف ونوافل

نماز اشراق

جب آفتاب ایک یا دو نیزہ بلند ہو جائے تو نماز اشراق پڑھے، بعض مشائخ کا معمول دو رکعت، بعض کا چار اور بعض کا آٹھ رکعت ہے۔مگر یہ بات ضروری ہے کہ جس جگہ صبح کی نماز ادا کی ہو وہاں سے نہ ہٹے تاکہ صبح کے فرشتے اس کو عبادت میں پائیں ۔ طالب صادق نمازفجر اداکرنے کے بعد اپنی جگہ بیٹھا رہتا ہے۔ اسی طرح نماز عصر اداکرنے کے بعد غروب آفتاب تک جائے نماز پر بیٹھا رہے۔ مشائخ نےان دونوں اوقات میں نماز کی جگہ بیٹھے رہنا لازم سمجھا ہے اورکسی حالت میں بھی ترک نہیں کرتے۔

نماز شکرانہ

نماز اشراق کے بعد دو رکعت نماز شکرانہ بھی پڑھنی چاہیے،جس کی پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی خَالِدُوْن تک اور دوسری رکعت میں اٰمَنَ الرَّسُولُ آخر تک پڑھے، اور اگر یاد ہو اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ عَلِیْمٌتک پڑھے، سلام کے بعد درود شریف پڑھے۔

نماز استخارہ

اس کے بعد دو رکعت نماز استخارہ پڑھے ۔پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھے۔ بعد سلام درود پڑھ کر یہ دعا پڑھے: ۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰھُمَّ خَبِّرْنِیْ وَاخْتَرْلِیْ وَتَکِلْنِیْ اِلٰ اخْتِیَارِیْ اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ الْخَیْرَ فِیْ کُلِّ قَوْلٍ وَعَمَلٍ اُرِیْدُہٗ فِیْ ھٰذاالْیَوْمِ وَاللَّیْلِ۔

یارب! میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں تیرے علم سے اور میں توانائی چاہتا ہوں تیری قدرت سے اور تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوںکہ بیشک تو قدرت والا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیوب کا جاننے والا ہے، یارب! میرے لیے خیر عطا کر اور مجھے مقبول کر اور مجھے میرے اختیار کے سپرد نہ کر یارب! خیر دے ہر بات اور ہر کام میں جو میں کرنا چاہتا ہوں اس دن اور اس رات میں۔

نماز چاشت

یہ نماز دن کی تمام نوافل سے افضل ہے۔اور کسی شیخ نے اسے کبھی ترک نہیں کیا ہے۔ اس کی رکعت میں اختلاف ہے، کم سےکم چاررکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں ،پہلی چار رکعت میں بعد سورۂ فاتحہ کے وَالشَّمْس اور دوسری میں وَاللَّیْل اور تیسری میں وَالضُّحٰی اور چوتھی میں اَلَمْ نَشْرَحْ پڑھے، دوسری چار رکعتوں میں فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی ایک بار اور اخلاص تین بارپڑھے اورتیسری چار رکعتوں میں بعدسورۂ فاتحہ اَلَمْ نَشْرَحْ ایک بار اور اخلاص تین بار پڑھے۔ جب فارغ ہوجا ئے تو درودشریف پڑھ کرسوبار یہ دعا پڑھے:۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التّوَّابُ الرَّحِیْمُ

یارب ! میری مغفرت کر، اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت کر اور مجھے عافیت دے اور مجھے روزی دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے رحم فرمانے والا ہے۔
 

(۴) زوال اور زوال کے بعد وظائف ونوافل

نماز زوال

جب آفتاب کا زوال ہوتو چار رکعت نفل ادا کرے، ہر رکعت میں بعد سورۂ فاتحہ کے سورۂ اخلاص پچاس بار یا دس بار یا تین بار پڑھے۔

نماز ظہر

سنت چاررکعت ظہر پڑھے،پہلی رکعت میں بعد سورۂ فاتحہ کے سورۂ کافرون، دوسری رکعت میں اِذَا جَاءَ ، تیسری رکعت میں تَبَّتْ یَدَا اور چوتھی میں اخلاص، اس کے بعد ستر بار اِسْتِغْفَارپڑھے ،
اس کے بعد نماز فرض اداکرے،
بعد فرض کے دو رکعت نماز سنت ادا کرے، پہلی رکعت میں بعد فاتحہ کےسورۂ کافرون اور دوسری میں اخلاص پڑھے۔

(۵)نماز عصرکے بعد کے وظائف

جب عصر کا وقت ہوجائے تواول وقت میں پڑھے، تاخیر کرکے پڑھے تومستحب ہے،لیکن آفتاب زرد ہونے کے پہلے پڑھے۔ عصر کے وقت فرض سے پہلے چار رکعت سنت ادا کرے اور جہاں تک ہوسکے اس سنت کو ترک نہ ہونے دے۔بعض مشائخ نے اس سنت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ پہلی رکعت میں بعد سورہ ٔفاتحہ اِ ذَازُلْزِلَتِ الْاَ رْ ضُ دوسری میں وَالْعَادِیَاتِ تیسری میں اَلْقَارِعَۃُ چوتھی میں اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ پڑھے، اور جب نمازسے فارغ ہو تو اِنَّا فَتَحْنَا ایک بار سورۂ عمّ پانچ بار وَالنَّازِعَاتِ ایک بار پڑھے۔جب آفتاب غروب کے قریب پہونچے تو مسبعات عشر پڑھے اور جب غروب ہو تو وَ اللیل پڑھے ۔ضروری ہے کہ اس وقت بھی جگہ سے نہ ہٹے اورجس جگہ نماز فرض اداکی ہو وہیں مغرب تک بیٹھارہے۔

(۶) نماز مغرب کے بعد کے وظائف ونوافل

نمازمغرب ابتدا ئے وقت میں ادا کرے، اوربعد فرض کے دو رکعت سنت پڑھے، پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعدکافرون پڑھے، اور دوسری میں اخلاص۔

نمازاوّابین

نماز مغرب کے بعد بیس رکعت نماز اوّابین پڑھے، اگر نہ ہو سکے تو چھ رکعت ہرگز ترک نہ کرے، پہلی چھ رکعت تین سلام سے پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص تین بار۔

نماز حفظ الایمان

اس کے بعد دو رکعت نمازحفظ الایمان پڑھے۔پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص چھ بار اورمعوذتین ایک ایک بار۔

صلوٰۃُ البروج

اس کے بعد دو رکعت نماز صلوٰۃ البروج پڑ ھے۔پہلی رکعت میں بعدسورۂ فاتحہ کےسورۂ بروج اور دوسری رکعت میں بعدسورۂ فاتحہ کے وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق۔

نماز شکراللیل

اس کے بعد دو رکعت نماز شکراللیل پڑھے ۔ہر رکعت میں بعد سورۂ فاتحہ کے سورۂ کافرون پانچ بار پڑھے۔

صلوٰۃ النور

اس کے بعد دو رکعت نماز صلوٰۃ النّور پڑ ھے۔

صلوٰۃ الکوثر

اس کےبعد د ورکعت نماز صلوٰۃ الکوثر پڑھے، جس کی ہر رکعت میں بعد سورۂ فاتحہ اِنَّا اَعْطَیْنَا تین بارپڑھے۔

صلوٰۃ الفردوس

اس کے بعد دو رکعت صلوٰۃ الفردوس پڑھے۔

نماز حفظ الایمان

اس کے بعد دو رکعت نماز حفظ الایمان پڑھے، اور اس کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد آیت کریمہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا سے بِالصَّالِحِیْنَ تک پانچ پانچ بار پڑھے۔ اس کے بعد سورۂ واقعہ پڑھے۔ اس کے بعد حلقۂ ذکرمیں مشغول ہو ۔ 

(۷) نماز عشاء کے بعد کے وظائف ونوافل

پہلے چار رکعت سنت ادا کرے
اور فرض کے بعد دو رکعت سنت پڑھے،جس کی پہلی رکعت میں کافرون اور دوسری رکعت میں اخلاص پڑھے،
اس کے بعد چار رکعت نفل بیک سلام پڑھے ۔ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کےبعد آیۃ الکرسی تین بار، دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص، سورہ فلق، سورۂ ناس ایک ایک بار اور تیسری رکعت میں بعد سورۂ فاتحہ آیۃ الکرسی تین بار اور چوتھی رکعت میں سورۂ اخلاص و سورۂ فلق و سورۂ ناس ایک ایک بار پڑھے۔

نماز وتر

اس کے بعدتین رکعت وتر پڑھے۔ بعض مشائخ وتر کو سحرتک ملتوی رکھتے ہیں؛لیکن یہ اس وقت ہےجب کہ پچھلے پہر جاگنے کاپورا ارادہ ہو، ورنہ سونے سے پہلے وترپڑھ لینا بہتر ہے۔
وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ دوسری میں کافرون تیسری میں سورۂ اخلاص پڑھے ، اور پھر دعائے قنوت پڑھے، اور بعد سلام کے تین بار پڑھے: ۔
تَوَکَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

اللہ اور حمد خاص ہے اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

اس کے بعد سجدے میں جا کر پانچ بار پڑھے:۔
سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَالرُّوْح۔
پاکی بیان کرتے ہیں ہم پاک بادشاہ کی وہ سبوح وقدوس ہے ہمارا رب اور فرشتوں کا اور روح کارب۔

پھر بیٹھ کر آیۃ الکرسی پڑ ھے ،اور اس کے بعد پھر سجدہ کرے اور پانچ مرتبہ وہی تسبیح تا آخر پڑھے۔ اس کے بعد دو رکعت نفل بیٹھ کر اداکرے ،پہلی میں بعد فاتحہ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ اور دوسری میں اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ پڑھے ،بعدسلام تین بار پڑھے:۔
یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَاءُ بِقُدْرَتِہٖ وَیَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ بِعِزَّتِہٖ۔
اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے اپنی قدرت سے اور حکم کرتا ہے جو چاہتا ہے اپنے غلبہ سے۔

بعدنمازفجر سورۂ یٰسٓ شریف پڑھے، اور بعد نمازظہر سورۂ نوح اور بعدنمازعصر اِنَّا فَتَحْنَا اور بعد نماز مغرب سورۂ واقعہ اور بعد نماز عشاء سورۂ ملک پڑھے اس کے بعد بیٹھ کر سوبارسورۂ اخلاص اورسو بار درود شریف پڑھے، اگرہزار ہزار بار پڑھ سکے تو زیادہ فضیلت ہے۔

نماز تہجد

جماعت صوفیہ کے نزدیک سب سے زیادہ ضروری نماز تہجد ہے۔ تمام علماء ومشائخ اس نمازکی سعادت دارین کاسبب سمجھتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ بندہ رات کے آخری حصہ میں دو رکعت نماز پڑھتا ہے ۔جودنیا اورمافيہاسے بہتر ہے اگر میری امت پر دشواری نہ ہوتی تو میں اس نماز کو واجب قرار دیتا ، اوربعض مشائخ نے نماز تہجد کو واجب کہا ہے، بعض نےفرض قرار دیا ہے ۔ اور بعض نے مستحب کہا ہے، لیکن حقیقۃً نہ فرض ہے نہ واجب البتہ اس نماز میں خصوصیت ہے کہ خواب سے بیدار ہو کر پڑھی جاتی ہے ۔ اورمحبت خدا کی کنجی ہے۔ فرائض میں نقصا ن ہوجائےتو پورا کرتی ہے۔
حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ مجھ کو جو کچھ سعادت حاصل ہوئی وہ سحر خیزی کی برکت سے ہوئی ہے۔ اورمجھ کوحضرت خضرعلیہ السّلام نے یہ نسخہ بتلایا تھا۔ طالب صادق کو چاہئے کہ روزانہ نیک اعمال کرے تاکہ اس کوسحر خیزی کی توفیق ہو، اور اس کے لیے دوپہر کا قیلولہ بہت مفید ہے، جب یہ نماز نصیب ہوتو بارہ رکعت چھ سلام سے پڑھے۔ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی خالدون تک ، اور دوسری رکعت میں اٰمَنَ الرَّسُوْلّ آخر سورۃ تک، اس کے بعد صبح تک تلاوت یا ذکر یامرا قبہ میں مشغول رہے؛ لیکن مبتدی کے لیے ذکر جہر بہتر ہے۔ دن کے ابتدائی حصہ میں اورعصر اور مغرب کے درمیان سونا مکروہ ہے، مگر دوپہر کا سونا مستحب ہے۔

ساری نمازوں میں ان سورتوں اورآیتوں کے علاوہ جولکھی ہیں جو چاہے پڑھ سکتا ہے مگر ان سورتوں کے پڑھنے میں بزرگوں کے معمول کا اتباع اورموافقت ہے۔

مریدین اور طالبانِ راہِ سلوک کی تعلیم صفائی قلب سے شروع ہوتی ہے اور اس کےلیے تلقین اذ کا رضروری ہے۔ اس لیے کہ بغیرذ کر کے صفائی قلب نہیں حاصل ہو سکتی۔

تلقین اذکار

ذکر

ذکر سے مراد کلمۂ طیبہ پرمداوت ہے، مگرکسی شیخ کامل صاحب تصرف سے سیکھے تاکہ پورا فائدہ حاصل ہو۔

شرطِ ذکر

ذکر کے لیے شرط ہے کہ مر یداعتقادمیں صادق ہو۔در دطلب رکھتا ہو، راہِ سلوک کا شائق ہو،خلق سے وحشت ہو، ذکر سے انس ہو،ذکر شروع کرنے سے پہلے سب گناہوں سے توبہ کرے۔

آدابِ ذکر

(۱) باوضو ہو، غسل کر سکے تو بہتر ہے۔

(۲) کپڑا نجاست سے پاک ہو ، اورمال حرام سے نہ بناہو۔ ریشم کانہ ہو،اور کوتاہ قد مطابق سنت ہو۔
(۳) مکان خالی ہو، چھوٹا ہو ، تاریک ہو تو بہتر ہے۔
(۳) قبلہ رُخ ہو، چار زانو بیٹھے،اگرچہ مربع بیٹھناعام طورسے منوع ہے؛لیکن ذکر کے وقت جائز ہے۔

ذکر کی کیفیت

دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے،حضورِ دل آنکھیں بند کر کے بہ تعظیم لَااِلٰهَ اِلَّا الله کہے اور بلند آواز سے بہ قوت تمام ذکر کرے۔

تلقین کا دستور

مرید شیخ کے حکم سے تین دن روزہ رکھے، اگر روزہ طے ہو، یعنی روزانہ افطار نہ کرے تو بہترہے، ہروقت باوضو ر ہے۔ اور ہمیشہ ذکر کرتا رہے۔ اگرخلوت میسر نہ ہو تو آہستہ آہستہ ذکر کرے، اور عوام سے اختلاط نہ کرے، بہتر تو یہ ہےکہ تین دن خلوت سے باہر نہ نکلے۔ بات بہت کم کرے اور افطار کے وقت کھانا کم کھائے تاکہ بیدار رہے، اور ذکر کرے۔جب تین دن گذرجائیں توشیخ کے حکم سے غسل کرے۔ دین اسلام میں داخل ہوتے وقت غسل کے بعد کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے۔ اسلام مجازی کے لیے غسل شرط ہے، تواسلام حقیقی کےلیے اولیٰ ہے، جس وقت غسل کے لیے بدن پرپانی ڈالےتو کہے اے خدا! اپنے جسم کی نجاست پانی سے پاک کرتا ہوں تو میرے دل کو اپنی نظر عنایت سے منور کردے، غسل کے بعد شیخ کی خدمت میں قبلہ رو بیٹھے، اور شیخ جو احکام مرید کے حسب حال ہوں صادر فرما کر تلقین کرے۔ مرید شیخ کے سامنے دو زانو بیٹھے اورہاتھ زانو پر رکھے ،اور دل کو تمام خیالات سےیکسو کر کے شیخ کے دل کو اپنی طرف اور اپنے چہرے کو اس کے مقابل رکھ کے نیازمندی سے متوجہ ہو۔شیخ تین بار درود کی تلقین کرے اور ایک بار بلند آواز سے کہے لَا اِلٰهَ اِلَّا الله مرید بھی اسی طرح اسی آواز میں کہے،شیخ دوبارہ پھر کہے اورتکرار کرے ۔ اسی طرح تین بار تلقین ہوناچاہیے،شیخ دعا پڑھے مرید آمین کہے،پھر تین بار درود شریف پڑھے،اور شیخ کہےجس طرح ہم نے اپنے شیخ اور پیرسے پایا تھا تم کو دیا۔ مرید قبول کرے۔ اس کے بعدفاتحہ پڑھے، اور تکبیر کہہ کرخلوت کی طرف جائے وہاں مربع بیٹھ کر ذکر کی مشق کرے۔

ذکر کے طریقے

ذکر کے بہت طریقے ہیں۔ داہنی طرف سے لَااِلٰہَ شروع کرے اور بائیں طرف اِلَّا اللّٰہ ۔ دل بائیں طرف ہوتا ہے ۔ ذکر کےمعنی پر غور کرے اورجو خیالات آئیں ان کی نفی کرتا جائے، یہ ارادہ کرے کہ میں کچھ نہیں چاہتا، کچھ نہیں طلب کرتا، کوئی محبوب مقصود نہیں ہے مگر اللہ، تمام خطرات کی نفی کرے اور پیش نظررکھے لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ لَا مَحْبُوْبَ اِلَّا للّٰہُ لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ جب ذکر میں گرم ہوجائے تو سوائے لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ کے کچھ تصور نہ کرے۔ اتنا مبالغہ کرے کہ خود اورتمام موجودات کو محوکرے، یہاں تک کہ اپناشعوربھی جاتا رہے ۔ جب حواس درست ہوں تھوڑی دیر مراقبہ کر ے، اور ہر چیز سے قطع نظر کر کےحق کی طرف رجوع ہولَااِلٰہَ کی نفی سے دنیا کاپیوند باطل کرے،اور اَلاَّاللهُ کے تصرف سے حق کی محبت قائم کرے، شیخ کی ولایت سے مدد طلب کرے، یہاں تک کہ ذاکرکی ہستی ذکر کے نور سے مضمحل ہوجائے۔ بار علائق وجود اور جسمانیات کی دنیا سے نکل کرعالم روحانیت کی سیر کرنے لگے۔ قلب مؤمن خدا کی خلوت گاہ ہے، اس میں اغیار کا وجود وحدت کی عزت کوپسند نہیں ،جب یہ بارگاہ اغیار کی زحمت سے خالی ہوجاتی ہے تواِلَّا اللّٰہُ کی تجلی گاہ بن جاتا ہے۔

ذکر کے اقسام

(۱) زبان سے ہو اور دل میں نہ ہو۔
(۲) زبان اوردل دونوں سے ہو، مگربعض وقت دل غافل ہوکر کسی دوسری چیز میں مشغول ہوجائے، اور زبان بدستور کام کرتی رہے۔
(۳) زبان اور دل دونوں ذاکر ہوں۔
(۴) دل ذاکر اور زبان خاموش۔اور یہی مرتبہ حقیقت ذکر ہے، اور ذکر کا انتہائی مقام ہے۔ اس وقت دل کی آواز اسی طرح سنی جاتی ہے جس طرح زبان کی آواز، دل زبان ہوجاتاہے اور زبان دل ہو جاتی ہے۔

ذکر کے فضائل وخصوصیات

قرآن وحدیث سے اس کی فضیلت ثابت ہے۔قرآن عظیم میں ہے:۔
(۱)وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْویٰ
اور پرہیزگاری کا کلمہ ان پر لازم ہوا
یہاں کلمۃ التقویٰ سے مراد لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔

(۲) یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْداً
اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔
یہاں قَوْلاً سَدِیْداًسے مراد لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔

(۳) اِنَّھُمْ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْن

 

بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں تو اونچی کھینچتے ہیں
یہاں صراحۃً کلمہ ہے۔

(۴) فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
تو جان لو اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں۔
یہاں بھی کلمۂ طیب کی صراحت ہے۔
حضور سید عالم ﷺ کا ارشادگرامی ہے:۔
اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔
سب سے بہتر ذکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔
کلمۂ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو صوری اور معنوی خصوصیت حاصل ہے۔
صوری اس لیے کہ حضور سید عالم ﷺ نے اس کو افضل الذکر فرمایا ہے۔
معنوی اس لیے کہ الله تعالی نے فرمایا ہے کہ:۔
اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ
کلمۂ طیب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ خدا کی بارگاہ تک پہونچتاہے۔
اگرچہ ذکر کے لیے بہترین وقت رات ہے،خصوصاً وقت سحر؛ لیکن ذکر کے لیے کوئی وقت مقر رنہیں،ہرساعت میں بندہ کو ذک کا حکم ہے۔

نماز سب عبادتوں میں افضل ہے؛ لیکن بعض اوقات میں جائز نہیں۔ مگر ذکرہر حالت میں جائز ہے۔

اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ۔
جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے۔
تفسیروں میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ سے تمام حالات اور اوقات میں ذکر کاتقاضا ثابت ہے۔
ذکر کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کے جواب میں خود ذکر کا وعدہ فرمایاہے:۔
فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ
تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا

ذکر جہر کا اثبات

ذکر دو طرح ہوتا ہے (۱) ذکر جہری (۲) ذکرسری۔ جہری اورسری میں مشائخ کااختلاف ہے،بعض جہر کو فضیلت دیتے ہیں بعض سر کو، اور بعض جہر سے منع کرتے ہیں۔
لیکن ذکرجہر کتاب وسنت و روایات اور فقہ وعمل مشائخ سے ثابت ہے۔ آیت کریمہ:۔
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً
اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ۔

یہاں تضرع سے مراد بدن کو ذلیل کرنا ہے،اور خفیہ سے مراد اخلاص دل ہے۔ یاتضرع سے مراد زاری اور خفیہ سےمراد خوف کرنا ہےجیساکہ قاموس میں ہے۔
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ ”بعض احکام قرآن مقتضائے وقت پر مبنی ہیں، مشرکین نبی ﷺ اور ان کےاصحاب کو قرآن پڑھنےسے روکتے تھے۔مگرفجر کے وقت نیندمیں ہوتے تھے۔اور مغرب وعشاء کے وقت میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ اس لیے فجر، مغرب و عشاء کے وقت میں جہر کا حکم دیا گیا۔البتہ ظہر اور عصر کفار کے وقت کفار کے آزار کے خوف سے قرأت خفی کا حکم ہوا ضعف اسلام کے وقت
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن
تمہیں تمہارا دین اور مجھے میرا دین
کا فرمان تھا۔ اور اتمامِ نعمت کے وقت
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ
تو مشرکوں کو مارو جہاں پاؤ
کا حکم نازل ہوا۔

لہٰذا تضرعا اورخفیۃ کے بارے میں بھی ایسا ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔نمازِ فجر میں قرأت قرآن اور ذکر تمام دنیا کے مسلمانوں میں جہر سے معمول ہے۔ اس کو ریاکاری نہیں کہہ سکتے۔
جناب رسول خدا ﷺ سے یہ روایت بھی ہے:۔
اَفْضَلُ الذِّکْرِ خَفِیٌّ
ذکر خفی افضل ہے۔

لیکن یہ اس کو سزاوار ہےجس کی زبان پرغیر حق کی یادنہ ہو،اوراس کا دل ذاکر ہوگیا ہو۔ اس زمانے میں اکثرلوگ معاصی میں گرفتارہیں، لہٰذا ذکر جہر ہی مناسب ہے، یہاں حضور نےجس ذکر خفی کی فضیلت بیان فرمائی ہے وہ ذار کا ذکر میں فنا ہو جانا ہے؛ بلکہ ذکر ذاکر دونوں مذکور میں فنا ہوجائیں، شعور فناجاتا رہا تو دولت فناء الفناء تک رسائی ہوئی، ایسا ذکر یقیناً ذکرجہر سے افضل ہے۔
حضرت غوث العالم رحمتہ اللہ علیہ ذکر بآواز بلند کرتےتھے اوراپنے اصحاب کو بھی ذکرجہر کی تاکید بلیغ فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے مریدین راہ، گلی، کوچہ ، بازار میں ذکر کرتے پھرتے تھے۔

بعض معاصرین نے اعتراض کیا اور اس کو بدعت قرار دیا تو حضرت نے فرمایا کہ طالب حق وسالک طریق اگر اس طرح ذکر نہ کرے تو حکم كفَاذْکُرُوااللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداًوَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْکتو اللہ کی یاد کروکھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے۔

حالت قیام وقعود میں نیزلیٹ کر خدا کا ذکر کرو کی تکمیل کیونکرہو، مجلس غفلت میں بھی ذکر ترک سے اولیٰ ہے۔

حضرت غوث العالم نے رسالہ حجّۃ الذاکرین میں لکھا ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد ذکرکرنا مستحب ہے ؛کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:۔

فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلوٰۃَ فَاذْکُرُوااللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْداً وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ
پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے۔
یہاں پر فاءتعقب مع الوصل کے لیے ہے لہٰذا نماز کے بعد فوراً تسبیح و تکبیرمیں مشغول ہوناچاہیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:۔
” جو شخص نماز کےبعد ہمیشہ ایک بار کلمہ پڑھاکرے الله تعالے اس کے سب گناہ معاف کرے اور تین بار پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند مراتب تک پہونچائے“
شرح کرخی میں لکھا ہے کہ:۔
” کس شخص نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بعض لوگ نماز کے بعد کلمہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ وہ رافضی ہیں ؛ کیونکہ نماز کے بعد کلمہ نہ پڑھناسنت کی مخالفت ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز کے بعد باآواز بلند کلمہ پڑھتے تھے“۔
اللہ تعالی نے بندوں پر کوئی ایسافرض نہیں کیا جس کی حد نہ ہو، اور اس سے معذورین مستثنی نہ ہوں سوائے ذکر کے،جس کی کوئی حد نہیں، اور کوئی معذور معاف نہیں ، حضرت زکریا علیہ السّلام نے تین دن صوم سکوت فرمایا مگر ذکراس وقت بھی جاری تھا۔ ‘
لَا تُکَلِّمُ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزاً وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیْراً وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ
تین دن لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارے اور اپنے رب کی بہت یاد کر اور تسبیح کر کچھ دن رہے اور تڑکے۔

مشرب شطّاریہ

حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ مشرب شطاریہ قدیم نہیں ہے۔ لیکن اس میں حصولِ فوائد اور وصولِ مقاصد زیادہ ہیں۔ شطار کے معنی ”تیزرو“ کے ہیں۔ اور یہ مشرب شیخ الشیوخ کے خلفاء نے مشہور کیا ہے، اس مشرب کے اصول آ ٹھ ہیں:۔
ب، ذ، ص، م، ش،ت ، ف اور دال سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
(ب) سے مراد برزخ( ذ) سے ذات( ص) سے صفات (م ) سےمد (ش) سے شدت (ت ) سےتحت (ف )سے فوق (د ) سےدم مقصود ہے۔
برزخ ذات و صفات و شد و مد و تحت و فوق
می نماید طالبانِ را کل نفس ذوق وشوق
برزخ دوقسم کا ہوتا ہے: کبری اور صغریٰ
برزخ صغریٰ مرشد کاتصور ہے جس کو رابطہ کہتے ہیں اور اس راہ میں تصور مرشداصل کلی ہے۔
دوسرا رکن اسم ذات جو لفظ اللہ ہے بعض علمائے طریقت کہتے ہیں کہ اسم ذات” ھو “ ہے اور اسی وجہ سے بعض نے ذکر” ھو“ اختیار کیا ہے۔ اور”لھو“ بعض نے ”ھو انت ھو“ بعض ”لا الہ الاھو“ تلیکن اکثرمشائخ ذکر”ھو“ کو ترجیح دیتے ہیں۔ عوام کے لیے ذکر اللہ ہے خواص کے لیے ”ذکر ھو“ ہے، اور اخص الخاص کا ذکر ”ھو“ شطاریوں کے مطابق اسم ذات کا ذکرآٹھویں رکن کے ساتھ کیاجائے تو جلد فوائد حاصل ہوتے ہیں اوربغیر ملاحظۂ ارکان کے تئیس سال ذکر کرے تب اس کا نتیجہ نکلتا ہے۔ ”تحت“ سے مراد ناف ہے، یعنی اسم اللہ کا الف اس جگہ سے شروع کرے۔”مد“ سے مراد اللہ کی اس قدر دراز کشید ہے کہ اسمائے صفات کا تصور اس کے درمیان کرے۔” شد “سے مراسختی سے کشید کرناہے۔جتنی زیادہ سختی کرے گا اتنا ہی جلدخطرات کادفعیہ ہوگا اور ذوق وشوق پیداہوگا۔

ذکرِ حلقہ

مشائخ چشت صبح و شام ذکر حلقہ کرتے ہیں۔ حضرت غوث العالم نے قصبۂ چشت میں سجادہ نشین حضرت خواجہ قطب الدین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات فرمائی تو انھوں نے وصیت فرمائی کہ صبح وشام کا حلقہ ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔ وظائف، معمولات ومسبعات عشر کے بعد حلقہ میں بیٹھے، صاحب حلقہ کلمۂ نفی واثبات شروع کرے اورسب اصحاب ہم آواز ہوں، اثبات سب بالاتفاق کہیں کسی کی آواز مخالف نہ ہو،جب کلمہ کی تکرار سے تھک جائیں تو اثبات شروع کریں اور اس کو پہلے کلمہ سے زیادہ کہیں، جب اس سے بھی تھک جائیں تو اسم ذات سے مشغول ہوں، جب تینوں کلمہ تمام ہوجائیں تو دل کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کریں کہ اس کارخ علوی کی طرف ہے یا سفلی کی طرف؟ اس کے بعد ارواح پیران چشت پر فاتحہ پڑھ کر درازئ عمر پیرو سر حلقہ کے لیے دعاکریں اورفتح ونصرتِ مومنین کےلیے تکبیر کہیں، تب اصحاب ایک دوسرے سے مصافحہ کریں اورشیخ کے قدم بوس ہوں۔

 

مشرب چشتیہ

مشرب چشتیہ نہایت لطیف ہے؛ لیکن ضروری اور لازم ہے کہ طالب میں دو وصف ہوں: اول ترک و ایثاردوسرےعشق و انکسار۔جس میں یہ وصف موجود نہ ہوں اس کوچشتیوںکے مشرب سے کوئی لطف حاصل نہیں ہوسکتا۔نظر ناپاک دنیاکی طرف ہوگی تو دل میں تفرقہ رہےگا۔ اس مشرب کے مطابق مریدمبتدی کو آئینۂ دل کی طرف مستقل توجہ کرنا چاہیے تاکہ محسوسات بتدریج ساقط ہوں اور صفات پیر و مرشد میں سرایت کرے تب انوارالٰہی مرید کے دل کو روشن کریں گے اور مقصود حاصل ہوگا۔
کلمۂ لا الہ الا اللہ دل کے آئینہ کے لیے صیقل کی طرح ہے، اگر دل پر مناہی اورمعاصی کازنگ ہے اور دنیا کی محبت ہے تو اس کی صفائی بھی کلمہ سے ایک چلہ میں ہوسکتی ہے،یہ مدت منتہیوں کے لیے ہے، مبتدیوں کو بہت زیادہ مجاہدہ اور ریاضت کی ضرورت ہے تب اس مرتبے کو پہونچے گا۔

تقویٰ اور زہد

مشائخ کا قول ہے کہ پرہیزگاری کے پانچ مراتبہیں:۔
پہلامرتبہ عدل ہے،یعنی شریعت میں جو چیز حرام ہےاس سے پرہیزکرےورنہ گنہگار اور فاسق ہوگا۔
دوسرامر تبہ نیکوکاروں کا ہے،یعنی جو چیز ازروئے شرع حرام نہیں ہے لیکن مشتبہ ہے اس سے بھی پرہیز کرے۔
تیسرا مرتبہ متقیوں کا ہے، کہ وہ حلال سے بھی پرہیز کرتے ہیں جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیزکے پاس مال غنیمت میں مشک آیا مگر اس کی خوشبوانھوں نے نہ سونگھی اس خیال سے کہ مسلمانوں کاحق ہے۔

چوتھامرتبہ صدیقوں کا ہے یعنی وہ اس چیز سے بھی پرہیز کرتے ہیں جو خودحلال ہولیکن اس کے حاصل کرنے میں گناہ کا دخل ہو جیسے بشر حافی نے سلطان کے نہر سے پانی نہیں پیا اس خیال سے کہ معلوم نہیں اس نہر کے کھودنے میں کیسار و پیہ لگا ہو۔

پانچواں مرتبہ موحدوں کا ہےکہ وہ بغیر نسبت حق کے ہرایک خوراک اورپوشاک حرام سمجھتے ہیں۔
محققوں کا قول ہے کہ عوام کی پرہیزگاری حرام چیزوں سے ہے۔ خواص کی پرہیز گاری حلال چیزوں سے ہے اورصدیقوں کی پرہیز گاری ماسوائے اللہ سے، ان کے نزدیک زہدوز اہد کوئی چیز نہیں؛کیونکہ دنیاکی اتنی قدر وقیمت ہی نہیں ہے کہ اس کا چھوڑنے والازاہد کہلائے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے :۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ
کہدیجیے دنیا کی قیمت تھوڑی ہے
دنیا کا زہد بدن کوذبح کرنا ہے، آخرت کازہد دل کوذبح کرناہے، مگر خدا کی طرف رخ کرناروح کو ذبح کرنا ہے۔

علامات زہد

علامات زہد تین ہیں:۔
(۱) دنیا کی شناخت اور اس کے تمام امور سے دست برداری۔
(۲) مولیٰ کی خدمت ۔
(۳) آخرت کی آرزومندی۔
شریعت کی نظر میں متقی وہ ہے جو اعضاء کو گناہوں سےمحفوظ رکھے۔
طریقت کی نظر میں متقی وہ ہے جس کا باطن نفس کی برائیوں سے پاک ہو۔
حقیقت میں متقی وہ ہے جواللہ کے سوا کسی چیز کی طرف متوجہ نہ ہو۔ حب جاہ، کشف وکرامت،سیر وطیر، حور و قصور ،موت وجدائی سب کو ترک کر کے اللہ کی طرف متوجہ رہے۔

توکل

توکل کے معنیٰ مضبوط رہنے اور خدا کے وعدے پر اعتماد رکھنے کے ہیں۔
بعض حکماء کا قول ہے کہ تقوی ویقین ترازو کے دوپلے ہیں اور توکل ترازو کی زبان ہےجس سے کمی اور زیادتی کا پتہ چلتاہے۔
فی الحقيقت متوکل وہ ہے جس کی نظر اسباب پر نہ ہو بلکہ پیدا کرنے والے پر ہو۔

علامات توکل

توکل کی تین علامات میں:۔
(۱) کسی چیز کے لیے کسی سے سوال نہ کیا جائے۔
( ۲)تحفے آئیں تو واپس نہ کرے۔
(۳) اورجب قبول کرے تو جمع نہ کرے۔

توکل کے اقسام

توکلی کی چار قسمیں ہیں:۔
(۱) یہ یقین کہ اس کی روزی بہرحال ملنا ہے۔
(۲)یقین غالب ہو کہ اس کی روزی ضرور ملے گی۔
(۳) یہ ہے کہ اس کے دل میں رزق کا عدم اوروجود برابرہو۔
(۴) یقین مغلوب یہ ہے کہ دل میں رزق کے نہ ملنے کا خیال غالب ہو۔

سالک کا توکل

یہ ہے کہ وہ سمجھے کہ خداہی روزی دیتاہے،اورواپس لے لیتا ہے۔ لیکن وہ بہرحال روزی پہونچاتا ہے، اس لیے اس کو یقین رکھنا چاہیے کہ روزی اس کے پاس پہونچے گی لیکن اس کادل روزی کے عدم و وجود کو برابر سمجھے۔

تسلیم ورضا

خدا کی طرف سے کوئی نعمت ملے تو خوش ہولیکن کوئی مصیبت نازل ہو تو اس سے رنجیدہ نہ ہو، یہی تسلیم ورضا ہے ؛لیکن ہرحالت میں روزی کے لیے جدوجہد کرنا لازم ہے۔
حضرت غوث العالم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاکہ اکثر مشائخ ہمیشہ کوئی پیشہ کرتے تھے اور دل و جان سے اس کی طرف بڑھتے تھے۔ اگلے مشائخ اور علماء بھی پیشے میں مشغول رہتے تھے ،اوراس کو موجب عزت سمجھتے تھے۔ ہندوستان میں پیشہ کرنا بدترین خصلت سمجھا جاتاہے۔ اسی وجہ سے ہم محتاجی ادرفقیری میں مبتلا ہو گئے ہیں،یہ نہیں جانتے کہ اکثر انبیائے کرام کسی نہ کسی پیشےکی طرف منسوب ہیں، اس لیے پیشے کی توہین کرنا ایک قسم کاکفرہے، لوگوں نے کہا ہے جو لوگ توکل کے آخری درجہ کو نہیں پہونچے ہیں اگر وہ پیشے میں مشغول رہیں تو ان کے لیے جائز بلکہ لازم ہے۔

جود وایثار

کسب روزی کے ساتھ ضروری ہے کہ سالک میں سخاوت اور جو د و ایثار ہو۔
جو اپنے مال میں سے تھوڑا کسی کو دے دیتا ہو اور تھوڑا رکھ لیتا ہو تووہ سخی ہے۔لیکن اگرکچھ بھی نہ رکھتا ہو توجوّاد ہے اور سب کچھ دے کر اپنے اوپر تکلیف اٹھاتا ہو تو صاحب ایثارہے۔
حضرت غوث العالم نے ایک سالک کو معاشرتی حیثیت سے بھی اعلیٰ قسم کے اوصاف سے متصف ہونے کی تعلیم دی ہے۔ مثلا کھانے پینے کے آداب بھی بتائے ہیں۔

کھانے کے فرائض

ایک سالک کے لیے کھانے میں چار چیزیں فرض ہیں:۔
(۱) حلال چیزیں کھا ئے۔
(۲) کھاتے وقت یہ اعتقاد رکھے کہ یہ خدانے دیاہے ۔
(۳) جو کچھ سامنے آئے اس پر راضی برضا ہوکر کھاتا ہو۔
(۴) کھانا خدا کی عبادت اور فرمانبرداری کے لیے کھاتا ہو۔

کھانے کی سُنّت

سالک کے لیے کھانے میں چار چیزیں سنت ہیں:۔
(۱) کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ کہے۔
(۲) کھانے سے فارغ ہونے کے بعد الحمد للہ کہے۔
(۳) کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا ختم کرنے کے بعد ہاتھ دھوئے۔
(۴) کھانے کے وقت داہناپیراٹھائےاور بایاں پیرگرائے۔

کھانے کے آداب

کھانے کے آداب بہت ہیں۔ ان میں سے چند یہاں لکھے جاتے ہیں:۔
(۱)کھاتے وقت کھانا سامنےہو۔
(۲)لقمہ چھوٹا ہو۔
(۳) لقمہ خوب چبائے۔
(۴) دوسروں کے لقمے نہ دیکھے۔
(۵)اگر کوئی ٹکڑا گر جائےتواس کو اٹھاکر کھالے۔
(۶) انگلیاں چاٹ کر صاف رکھے۔
(۷) کھاناسونگھ کرنہ کھائے۔
(۸)نمک دان روٹی پرنہ رکھے۔
(۹)روٹی سے انگلیاں نہ صاف کرے۔
(۱۰) دسترخوان میں بھی ہاتھ نہ صاف کرے۔
(۱۱)نمک دو انگلیوں یعنی انگوٹھے اور انگشت شہادت سے اٹھائے۔
(۱۲)چار پائی یا ٹوٹے ہو ئے خوان پرنہ کھائے۔
(۱۳)روٹی جب تک ٹوٹی ہوئی موجود ہو دوسری روٹی نہ توڑے۔
(۱۴)کھانے کے برتن میں انگلی نہ ڈالے، خو ان کے بیچ سے نہ کھائے ۔(۱۵)جب تک ایک لقمہ نیچے نہ اتر جائے دوسرالقمہ نہ توڑے۔

(۱۶)کھانے کے درمیان خلال نہ کرے۔
(۱۷) جب تک سب ہمراہی کھانے سے فارغ نہ ہوں کھانے سےنہ اٹھے۔
(۱۹) کھانے سے فراغت کے بعد انگلیاں چاٹنے سے پہلے ہاتھ صاف نہ کرے۔
حضرت غوث العالم فرماتے تھے کہ طعام کے وقت غافل نہ ہو بلکہ حضور دل سے کھانا کھائے ،اس طرح کھایا گیا تو جب تک وہ کھاناشکم میں رہے گا ذکر کرے گا اور نور بنے گا۔

ارشادات گرامی

انسانوں کو دینی و دنیاوی زندگی سنوارنے میں بزرگان دین کے ارشادات و فرمودات کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے۔ یہاں مختلف گوشہ ہائے زندگی کی اصلاح و تربیت سےمتعلق حضرت غوث العالم کے ارشادات گرامی” مشت از خروارے“ عام فائدے کے لیے نقل کئے جاتے ہیں:۔
٭ اگر کوئی جان جائے کہ اس کی عمر میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے توچاہیے کہ علم فقہ میں مشغول ہو؛ کیونکہ علم دین سے ایک مسئلہ کا جاننا ہزار رکعت نفل سے بہتر ہے۔
٭عابد بے علم کولہو کے بیل کی طرح ہے۔
٭تحصیل علوم دین اس سے کرو جو باعمل ہو تاکہ تمہیں بھی عمل کی توفیق ہو۔
٭عالم کی مثال کشتی کی طرح ہے، اگر وہ ڈوب گئی تو اس میں بیٹھنے والےبھی سب ڈوب گئے۔
٭جو شریعت پر عمل نہیں کرتا وہ طریقت سے محروم ہے۔
٭علم شریعت ہےعمل طریقت ۔اورحصول مقصد حقیقت۔ شريعت وطریقت کے حاصل ہوتے ہوئےبھی وصول إلی اللہ ضروری نہیں ہے۔ لیکن ان تینوں میں سے جو صرف ایک کے رکھنے کا دعویدار ہے وہ تینوں سے محروم ہے۔
٭فرائض و واجبات کےبعد مخلوق کی حاجت روائی سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں۔
٭جومخلوق میں الجھ گیا وہ خالق کاطالب نہیں۔
٭ کوئی بھی دریش اورشیخ یاد الٰہی سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔
٭صوفی کتنا ہی مغلوب الحال ہوفرائض کی ادائیگی لازمی ہے۔

٭ دنیا میں اعمال صالحہ مطلوب ہیں؛ لہٰذاصوفی کی ایسی بے خودی کہ عمل اس سے ساقط ہو جائے محض خسران ونقصان ہے۔

٭خدا سے خوف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اس کے عتاب سے غافل نہ رہے۔
عتاب الٰہی اور غفلت کی علامات درج ذیل ہیں:۔
(۱) عبادت میں کوئی حلاوت محسوس نہ ہونا۔
(۲) گناہ پر اصرار اور توبہ سے محرومی۔
(۳) دعا میں خشوع اور خضوع کانہ پیدا ہونا۔
(۴)علم بے عمل۔
(۵) حکمت ومصلحت میں نیکی کاقصد نہ ہونا۔
(۶) نیکوں کی صحبت میں ادب کالحاظ نہ رکھنا۔
(۷) بروں کی صحبت کی رغبت۔
(۸)تضرع لیکن یقین سے خالی ہونا۔
(۹) بندے کو ڈھیل دیا جانا اوریہ سب سے بدتر ہے۔
٭افضل ترین سفر جہادہے، اس کے بعد سفر حج، اس کے بعد سفر زیارت روضۂ مقدسہ ، اس کے بعد زیارت مسجد اقصیٰ، اس کے بعد زیارت مشائخ وصالحین، اس کے بعد سفر رد مظالم برخصمان، اس کے بعد سفر برائے طلب آثارواعتبار ، اس کے بعد سفر ریاضت نفس۔
٭جب کسی شہر میں پہنچو تو وہاں کے بزرگوں کی زیارت کرو، اس کے بعد وہاں کے بزرگوں کے قبور کی زیارت کر و۔
٭ کھاناتین طرح کا ہوتاہے۔ فرض۔ سنت – جائز۔
وہ مقدار خوراک جو زندگی کے لیے ضروری ہے فرض ہے۔ اور مقدارخوراک جو عبادت اورکسب رزق حلال کے لیے ضروری ہے سنت ہے۔ پیٹ بھر کھانا جائز ہے ۔ مگر اس سے زیادہ کھانا حرام ہے۔ ہاں اگر روزے یا مہمان کی خاطر زیادہ کھا ئے تو کوئی حرج نہیں۔
٭رات کوفاقہ نہیں کرنا چاہیے؛کیونکہ رات کونہ کھانے سے کمزوری، بڑھاپا اور سستی پیدا ہوتی ہے۔
٭ بغیر بھوک کے کھانا درویش کے لیےگناہ عظیم ہے۔
٭ روزی کےلیے پریشان نہ ہو۔ اور موت سے بالکل نہ ڈرو، اس لیےکہ رزق مقسوم ہےضرور ملے گی اور موت کا ایک دن مقررہے بہرحال آئےگی۔

حیات غوث العالم ایک نظر میں

غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی قدس سرہ النورانی سمنان کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ والدین کی بے پناہ تمناؤں والتجاؤں اور حضرت ابراہیم مجذوب کی دعاؤں اور جناب رسول اکرم ﷺ کی بشارت کے بعد پیدا ہوئے تھے۔
چار سال چار ماہ چار دن کی عمر کوپہونچے تورسم بسم اللہ ہوئی، سات سال کی عمر میں پورا قرآن عظیم قرأت سبعہ کے ساتھ حفظ کر لیا اورقرأت سبعہ پر پوری طرح حاوی ہو گئے۔
اس کے بعدتحصیل علم کی جانب متوجہ ہوئے۔ اور مولانا عمادالدین تبریزی، امام علاء الدولہ سمنانی، شیخ عبدالرزاق کاشانی ، امام عبداللہ یافعی، اور سید علی ہمدانی جیسے نامور علماء وائمہ فن وصوفیائے روزگار و صاحبانِ بصیرت سے آپ نے تعلیم وتربیت حاصل کی اور چودہ سال کے اندرجملہ علوم وفنون پرعبور ودستگاہ حاصل کرلیا۔

 

تکمیل علوم وفنون کے ایک سال بعد والد مہربان کا سایہ سر سے اٹھ گیا، والد گرامی سلطان سید ابراہیم کے وصال کے بعد نظام حکومت کی پوری ذمہ داری آپ کے کاندھوں پرآ پڑی ، اور آپ تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئے۔ سلطان سید ابراہیم کی وفات کے بعد سمنان میں دس سال آپ کا قیام رہا۔ اسی دس سال کی مدت میں حضرت نے تاجداری بھی فرمائی جہاد بھی کیا۔ مقدمات کے فیصلےبھی فرمائے اورانتظامِ حکومت بھی فرمایا اور اس انداز سے کہ اہل سمنان آپ کا یہ دس سالہ دورِاقتدار کبھی نہ بھول سکے۔

 

لیکن امورِ سلطنت میں مصروفیت کے باوجود آپ نے فرائض وواجبات، سنن ونوافل حتی کہ مستحبات تک کی ادائیگی میں بھی کبھی تساہلینہیں برتی۔
آپ کا دل بچپن ہی سےعشق الٰہی ومعرفت حق وولولہ سلوک اور سیر طریق سے لبریز تھا۔ در ویشوں اورگروہ سالکین کاجو بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ اس کی بڑی عزت و تواضع فرماتے اور اس سے معرفت سلوک حاصل فرماتے اور برابر سعادت وعرفان کے جویاں رہتے۔

سب سےپہلے حضرت خضر علیہ السّلام نے آپ کو رہِ سلوک کی تعلیم دی، اوراس سلسلے میں برابر آپ کی رہنمائی فرماتے رہے، پھر حضرت خواجہ اویس قرنی کی روحانیت نے آپ کو اذ کاراویسیہ کی تعلیم فرمائی۔ آپ ان اذکار میں مشغول رہے۔

 

لیکن اب آپ کو ایک ایسے مرشد کی تڑپ وجستجو پیدا ہوئی جو آپ کو درجۂ کمال تک پہونچائے اورعلم ظاہر و باطن دونوں کا تاجدار بنادے۔ آپ چاہتے تھے کہ جس قدر جلد ممکن ہو تخت و تاج سے کنارہ کش ہوکر مرشد کی تلاش میں نکل پڑیں، آپ ہمہ وقت اس فکرمیں لگے رہتے بالآخر ۲۷/ رمضان المبارک کو شب قدر میں آپ حسب معمول عبادت الٰہی اور ذکر وفکر میں مشغول تھے کہ حضرت خضرعلیہ السلام تشریف لائے اور بزبان فصیح ارشاد فرمایاکہ” اے اشرف! اب ترک حکومت اور سلطنت کا | وقت آگیا ہے، حکومت وسلطنت چھوڑ کر ہندوستان کا رُخ کر و،وہاں تمہارے پیرروشن ضمیر حضرت شیخ علاء الدین گنج نبات پنڈوی تمہارے انتظارمیںہیں، تمہاری روحانی تکمیل انھیں سے ہوگی “چنانچہ صبح کو آپ اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کو بیان کیا اور ترک سلطنت کا ارادہ ظاہر فرمایا اور سفر کی اجازت چاہی۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے جواب میں فرمایا میرے جد بزرگوار حضرت خواجہ یسوی رحمتہ اللہ علیہ کی روحانیت نے مجھےخواب میں بشارت دی تھی کہ تمہارا فرزند اشرف عطیہ الٰہی ہے ،اور اس سے ایک عالم کی گمراہی دور ہوگی، اور ایمان و عرفان کی روشنی دنیامیں پھیلے گی۔اب میں سمجھتی ہوں کہ وہ وقت آگیا ہے میں تم کو مبارکباد دیتی ہوں، میں نےتمہیں خدا سے مانگا تھا اوراب اپنے سارےحقوق معاف کر کے تمہیں اسی کے حوالے کرتی ہوں جاؤخدا حافظ۔ البتہ میری خواہش ہے کہ تم جس وقت سمنان سے نکلو تو پورے شاہانہ وقار اور شان و شوکت سے نکلو تاکہ یہ سوچ کر میں اپنے دل کو تسکین دیتی رہوں کہ میرابیٹاکسی ملک کو فتح کرنے جارہا ہے“ دوسرے دن آپ نے حکومت وسلطنت اپنے چھوٹے بھائی کےسپردکی، اورانھیں عدل وانصاف اورشریعت کی پابندی کی تاکید فرمائی اور سمنان سے روانہ ہو گئے۔

حضرت غوث العالم سمنان سے اس شان و شوکت سے روانہ ہوئے کہ دائیں بائیں علماء کی مقدس کی جماعت، امراءو وزراء آپ کے پیچھے پیچھے،اوران کے پیچھے بارہ ہزار فوج کالشکر جرار اورسب سے آخر میں رنجیدہ دل اوراشکبار آنکھوں کے ساتھ سمنان کے مرد وزن کا ہجوم تھا، لیکن چند منزلوں کے بعد آپ نے کچھ الوداعی کلمات کہہ کر سب کو رخصت کردیا۔ اور آگے چل کر ایک منزل ایسی بھی آئی جہاں ان سارے شاہی تکلفات سے الگ ہوکر پیادہ پا ہو گئے۔

 

دوسال پیدل سفر کے بعدحدود بنگال میں پہونچے، ادھرخضر علیہ السلام اگر ایک طرف برابر آپ کی رہنمائی فرماتے رہے تو دوسری طرف باربار حضرت شیخ علاءالحق والدین گنج نبات پنڈوی کوبھی یہ خبردیتے رہے کہ ملک سمنان کا تاجدار سیداشرف حکومت وسلطنت چھوڑ کرآپ کی خدمت میں آرہا ہے، اور جب حضرت غوث العالم پنڈوہ سے قریب ہوگئے تو آپ کے شیخ نے فرمایا کہ مجھے طالب صادق کی بو آرہی ہے۔ اور آپ کے استقبال کے لیے پنڈوہ سے باہر نکل پڑے۔ یہ دیکھ کر آپ کے اصحاب ومریدین اور اہل شہر کا ایک ہجوم بھی آپ کے ساتھ ہوگیا،حضرت غوث العالم جب پنڈوہ پہونچے شیخ کو شہر کے باہر ہی موجود پایا،والہانہ انداز میں دوڑ کر آگے بڑھے اور حضرت کے قدموں پر گرپڑے، شیخ نے آپ کوا ٹھاکر سینے سے لگا لیا اور فرمایا فرزنداشرف! حضرت خضر علیہ السلام نے تمہارے آنے کی خبر مجھے ستر بار دی ہے ،اورمیری روحانیت ہر منزل پرتمہارےساتھ تھی۔ اس کے بعد آپ کو خانقاہ میں لائے اور مرید فرمایا اور اسی وقت خرقۂ خلافت اور کچھ تبرکات عطا فرمائے۔

حضرت غوث العالم مسلسل چھ سال خدمت شیخ میں رہے اورتعلیم سلوک و معرفت وریاضت ومجاہدات میں مصروف رہے اور راہِ سلوک و معرفت کے منازل طے کرتے رہے، جب منزل تکمیل کو پہونچے تو حضرت شیخ نے بکمال لطف و عنایت سارے اسرار و رموز وحقائق آپ پرمنکشف فرمادیا۔

 

حضرت غوث العالم وقفے وقفے سے اپنے پیرومرشد کی خدمت میں بارہ سال رہے۔ پہلا قیام چھ سال، دوسرا چارسال، تیسرا دوسال رہا۔ انھیں بارہ سالوں میں آپ کے پیرکی نگاہِ پُر اثر نے آپ کو کامل ومکمل بنادیا۔ اور حضرت غوث العالم کو جہانگیر اورمحبوبیت اورغوثیت کے مقام بلند پر پہونچا دیا۔ اور اس کےبعددیارجو نپور کا صاحبِ ولایت بناکرلوگوں کےر شدو ہدایت اوراشاعت اسلام اورتبلیغ دین کےلیے باصرار تمام روانہ فرمایا۔ اور روح آباد رسول پور درگاہ کو آپ کامستقر اور آرام گاہ قرار دیا اور اس کی نشاندہی فرمائی۔ آپ منزل بہ منزل مختلف جگہوں پر قیام فرماتے ہوئے منزل مقصود تک پہونچے۔ جونپور میں آپ نے قیام فرمایاتو ایک جید عالم حضرت شیخ کبیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ کے مرید ہو گئے اورآپ کی صحبت اختیار کرلیا۔ اپنی منزل مقصود پر پہونچ کر آپ نے ملک الامراء ملک محمود کی مدد سے اس مقام کو تلاش کیا جس کی نشاندہی شیخ نے فرمائی تھی، اس مقام پردرپن ناتھ جوگی کاقبضہ تھا، جو اپنے پانچ سو چیلوں کے ساتھ رہتاتھا، اوربڑا مشہور جادوگر تھا؛ لیکن جب اس نے آپ کے ادنی غلاموں کی روحانی طاقت دیکھا توخود حاضرخدمت ہوا، اور اپنے تمام چیلوں کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوگیا اوربخوشی آپ کے لیے یہ جگہ خالی کر دی۔ حضرت نے ملک محمود کے ذریعہ خانقاہ کی تعمیر شروع کروادی، اورتین سال کے اندر خانقاہ تعمیر ہوگئی؛ لیکن روضے کی مکمل تعمیر اورنیر شریف کی کھدائی کا کام بارہ سال میں پایۂ تکمیل کوپہونچا۔
آپ کی زندگی کا بیشترحصہ سیروسیاحت میں گذرا،آپ نے دنیا کی سیر و سیاحت فرمائی۔ اس درمیان عجیب وغریب واقعات پیش آئے، اوربے پناہ کرامتوں کا صدور ہوا۔ ہزاروں علماء، صوفیاء، اولیائے کرام اور مشائخ عظام سے ملاقاتیں کیں،اور ان سے فیوض وبرکات اورنعمتیں حاصل کیں ۔جن میں شیخ علاء الدولہ سمنانی ، شیخ عبدالرزاق کاشانی، امام عبد اللہ یافعی ، سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت، سید علی ہمدانی، خواجہ حافظ شیرازی، خواجہ بہاءالدین نقشبند، خلیل اتا،شیخ قثم، میرصدر جہاں، شیخ ابوالوفاء خوارزمی،سید محمود گیسودراز، سید جعفر بہرائچی،شیخ نورالدین ابن اسدالدین، شیخ قطب الدین مودود چشتی، شیخ اسماعیل سمنانی، شیخ قوام الدین اودھی، شاہ نعمت اللہ ولی، شیخ صالح سمرقندی، شیخ بدیع الدین شاہ مدار، سیدجمال الدین خور د سکندرپوری وغیرہ آپ کے ان معاصرین میں سے ہیں جن سے حضرت نے ملاقات کی اور لطائف اشرفی دمکتوبات اشرفی میں ان کا تذکرہ ہے۔
جملہ مقامات مقدسہ اور مزارات اولیاء و مشائخ پرآپ نےحاضری دی، اور ان کے فیوض باطنی وروحانی سے مستفید ہوئے ۔ آپ کوچودہ خانوادوں کی اجازت و خلافت کا شرف حاصل تھا۔
تحریر کے میدان میں آئےتو تقریباً تیس گرانقدرکتابیں اور رسالے تصنیف کرڈالے اور اکابر علماء سے خراج تحسین حاصل کیا۔
میدان خطابت میں اترے توفصاحت اور بلاغت کے دریا بہادیئے،جامع مسجد بغدادمیں جب آپ نے ایک بڑے مجمع میں تقریر فرمائی جس میں خودخلیفۂ وقت بھی موجودتھا، حاضرینوجد وکیف میں ڈوب گئے، ایک فاضل وقت، شیخ قطب دمشقی نے تو یہاں تک فرمایاکہ میری عمرسو برس کی ہے بڑے بڑے واعظوں کا بیان سنا لیکن ایسی نور سرور باکیف وپُر تاثیر تقریر نہیں سنا۔
آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خلق خدا کیخدمت، رشدو ہدایت، ارشاد و اصلاح اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں گذار دیا، اوربے پناہ لوگوں نے آپ سے فائدہ اٹھایا اور بے شمار لوگ آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو ئے، اور بہت سے لوگ داخل سلسلہ ہوئے۔ آپ کے خلفابھی بہت زیادہ تھے اور ان میں تقریباً سبھی عالم وفاضل، صوفی و بزرگ تھے، ان خلفاء نے بھی اسلام کی بڑی خدمت کی۔
آپ کی ذات گرامی سے سلسلہ عالیہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ اور سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ کی بہت زیادہ ترویج واشاعت ہوئی۔یہاں تک کہ آپ خودصاحب سلسلہ کہلائے اور شریعت مصطفےٰ ﷺ اور دین اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔

Scroll to Top